عظیم قربانی/طاہرہ فاطمہ

ذوالحجہ اسلامی سال وہ مہینہ جس کی دسویں تاریخ کو حضرت اسماعیلؑ کی قربانی اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کی گئی۔ اس مہینہ کا چاند نظر آتے ہی ہر دل میں اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جسکی مثال تاریخ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے۔

یہ مہینہ اس جلیل القدر پیغمبر کی یادگار ہے جن کی زندگی شریعت مطہرہ، دلائل قاہرہ، آیات بینات، عظیم معجزات، ظاہری و باطنی، جسمانی و روحانی نعمتوں سے مالا مال، خدا ترسی و پاکبازی، صداقت و دیانت، شجاعت و استقلال، ذوق عبادت اور شب زندہ داری، سیم و زر سے بے پرواہی اور دنیا سے بے رغبتی اور قربانی کی عدیم المثال تصویر تھی یہ پیغمبر حضرت ابراہیم خلیلؑ ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر نعمت قابل قدر بھی ہے اور قابل تشکر بھی۔ مگر پیغمبرانہ رہنمائی، بہکی اور بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے ایک ایسا عطیہ ہے جس کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا، نا ممکنات میں سے ہے، اسی رہنمائی کے بغیر تاریخ انسانیت بحیثیت مجموعی بے رنگ ہے، حیوانیت کو انسانیت کا آہنگ اسی رہبر سے ملا ہے۔ اگر یہ مشعل نہ ہوتی تو ہماری کائنات ہر اعتبار سے دھواں دھواں اور ہمارے روز و شب ہر لحاظ سے بے آبرو ہوتے۔

ماضی اور حال میں اگر کہیں اخلاق کے قرینے، اعمال کے سلیقے، اقوال کے نگینے اور افکار کے خزینے نظر آتے ہیں تو وہ پیغمبروں کی رخشندہ سیرتوں ہی کا فیض ہے۔ یہی وہ الوہی تاب و تب ہے جس نے ہر دور کی بندگی کو شرمندگی سے بچا کر تابندگی عطا کی ہے۔ کتنے ہی پیغمبر آئے مگر زمانہ ان کے کردار کی چمک اور افکار کی دمک کو محفوظ نہ رکھ سکا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے خلیل سیدنا حضرت ابراہیمؑ نے شمع شبستان وجود بن کر اس خاکدان ہستی کی تیرگیوں میں اس لازوال قربانی کی مثال پیش کی جسے اللہ تعالیٰ نے دوام بخشا۔

سلسلہ انبیاء میں سیدنا ابراہیمؑ کی داستان عزیمت بہت دلچسپ اور قابل رشک ہے۔ ان کے لیے اللہ کی راہ میں بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ایک بہت بڑی آزمائش تھی لیکن سیدنا ابراہیمؑ اس آزمائش میں کیسے پورا اترے؟ قرآن کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔

رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَO فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍO فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَO فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِO وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُO قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَO إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُO وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍO(الصفت، 37:100 – 107)

اے میرے پروردگار مجھ کو نیک بیٹا عطا فرما۔ پس ہم نے ان کو ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی۔ پھر جب وہ (اسمٰعیل) ان کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو پہنچے فرمایا اے میرے بیٹے، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں پس تم بھی غور کر لو کہ تمہارا کیا خیال ہے (اسمٰعیل نے بلا تردد) عرض کیا اے ابا جان (پھر دیر کیا ہے) جو کچھ آپ کو حکم ہوا کر ڈالئے (جہاں تک میرا تعلق ہے) آپ انشاءاللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔

پھر جب دونوں نے (اللہ کا) حکم مان لیا اور (ابراہیم نے) ان کو ماتھے کے بل لٹایا۔ اور ہم نے ان کو ندا دی کہ اے ابراہیم (کیا خوب) تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔ ہم نیکو کاروں کو یوں ہی بدلہ دیتے ہیں۔ (بے شک باپ کا بیٹے کے ذبح کے لئے تیار ہو جانا) یہ ایک بڑی صریح آزمائش تھی (حضرت ابراہیم اس آزمائش میں پورا اترے) اور ہم نے ایک عظیم قربانی کو ان کا فدیہ (بنا) دیا۔

تبلیغ دین کا ہر راستہ دراصل انقلاب کا راستہ ہے اور شاہراہ انقلاب پھولوں کی سیج نہیں ہوتی۔ اس راستے میں باطل کے سیاہ اندھیرے اپنی تمام تر قہر سامانیوں کے ساتھ نازل ہوتے ہیں، محلاتی سازشیں امت کا حلیہ بگاڑ دینے پر تل جاتی ہیں، شکوک و شبہات کے خوفناک اژدھے جگہ جگہ پھنکارتے دکھائی دیتے ہیں، ایمان و ایقان کی سرسبز وادیوں کو دھول اڑاتے خشک ویرانوں میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں لائے جاتے ہیں۔

جہالت کی تند و تیز آندھیاں علم کی شمع کو بجھانے لگتی ہیں۔ ایسے مایوس کن، ہمت شکن اور صبر آزما حالات میں رب العالمین اپنی حکمت بالغہ سے تکمیل تمدن اور اہتمام ہدایت کے آفتاب عالمتاب کے ذریعے عالمین کے ذرے ذرے کو مستنیر اور پتے پتے کو مستفید کرنے کا انتظام فرماتا ہے تاکہ انسانی تعلیم اور تکمیل، نسلی اور وطنی حد بندیوں سے آزاد ہو کر شرف انسانی کے ایک ہی مقام رفیع تک پہنچ جائے۔

حضرت ابراہیمؑ اللہ کے حضور دعاگو ہیں کہ باری تعالیٰ مجھے ایک نیک، صالح اور پاکباز بیٹے سے نواز۔ دعائے ابراہیمی کو شرف قبولیت عطا ہوتا ہے، بارگاہ خداوندی سے شرافت و نجابت، لطف و لطافت، تطہیر و تعمیر، رشد و ہدایت کا پیکر اطاعت گزار بیٹا عطا ہوتا ہے جن کا نام اسماعیل رکھا جاتا ہے۔ حضرت اسماعیلؑ اپنے باپ کی آنکھوں کا نور، ان کی دیرینہ محبتوں اور چاہتوں کا مرکز اور ان کی آخری عمر کا سہارا بھی ہیں۔ باپ اور بیٹے کے درمیان اس بے پناہ محبت ہے اور اللہ رب العزت نے ارشاد فرماتے ہیں کہ ابراہیم! اپنے لخت جگر اسماعیل کو ہماری راہ میں قربان کرو۔

یہ مقام حیرت و استعجاب ہے کہ آج تک کسی انسان کی قربانی کا حکم نہیں دیا گیا۔ حضرت ابراہیمؑ اس پر لیت و لعل سے بھی کام لے سکتے تھے اور اس کا قرینہ بھی تھا کیونکہ یہ حکم آپ کو خواب میں دیا گیا تھا لیکن دیکھیے پیغمبر کے ایمان و عمل کی رفعتیں! انہوں نے ایک لمحہ تؤقف کیے بغیر سارا ماجرا اپنے بیٹے اسماعیل کو سنایا لیکن انہیں حکم نہیں دیا بلکہ ان سے رائے پوچھی۔ قربان جائیں اس پیغمبر زادے کی ایمانی عظمتوں پر بھی جنہوں نے باپ کے خواب کو اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے سر تسلیم خم کرکے تاریخ انسانیت میں ذبیح اللہ کا منفرد اعزاز حاصل کیا۔

باپ بیٹے سے پوچھتا ہے بیٹا! بتا تیری کیا رائے ہے؟ اطاعت گزار بیٹا جواب دیتا ہے ابا جان! آپ اپنے رب کے حکم کی تعمیل کیجئے آپ مجھے انشاءاللہ صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

اب آگے بڑھ کر حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا اور حضرت اسماعیلؑ نے اللہ تعالیٰ کے عشق میں اپنی گردن مبارک زمین پر رکھ دی، اور باپ نے چھری کو چلانا شروع کیا تو آسمان دنیا کے فرشتے پہلی دفعہ اطاعت خداوندی اور تسلیم و رضا کا یہ عالیشان منظر دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ قریب تھا کہ چھری چل جاتی، لیکن اللہ کریم کی طرف سے ندا آئی۔

وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُO قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَO إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ ٱلْبَلَـٰٓؤُا۟ ٱلْمُبِينُO وَفَدَيْنَـٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍO (سورۃ الصافات)

ابراہیم! تو نے اپنا خواب اور اللہ کا امر سچا کر دکھایا، ہم اسی طرح نیکوکاروں کو جزاء دیتے ہیں۔ یقیناََ یہ بہت بڑی آزمائش تھی۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا۔

حضرت ابراہیم نے وحی الٰہی سُن کر آنکھوں سے پٹّی کھول دی اور دیکھا جھاڑی کے قریب ایک مینڈھا موجود تھا۔ آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اُسے ذبح کیا اور یوں یہ سنت ابراہیمی قیامت تک ہر صاحب استطاعت پر واجب کر دی گئی۔ یہی وہ قربانی ہے جو اللہ ربّ العزّت کو اس قدر پسند آئی اور ایسی قبول و مقبول ہوئی کہ تا قیامت اس قربانی کو ملّتِ ابراہیمی کا شعار قرار دے دیا گیا۔

وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِى ٱلْـَٔاخِرِينَO سَلَـٰمٌ عَلَىٰٓ إِبْرَٰهِيمَO كَذَٰلِكَ نَجْزِى ٱلْمُحْسِنِينَO إِنَّهُۥ مِنْ عِبَادِنَا ٱلْمُؤْمِنِينَO (سورۃ الصافات آیت 108 تا 111)

اور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔ سلام ہے ابراہیمؑ پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناََ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے:

فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْO (سورۃ الکوثر آیت 2)

(اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو)

اسی لئے قربانی عیدالاضحیٰ کا سب سے پسندیدہ عمل ہے۔ اللہ کے نبی حضرت ابراہیمؑ کی سنت ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت تک اپنا قرب حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ قرآن مجید میں قربانی کا مقصد واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ سورہ الحج میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَنۡ یَّنَالَ اللہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ (سورۃ الحج آیت 37)

“اللہ تک تمہاری قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس تک تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔ ”

یعنی ﷲ تعالیٰ کی نظر نہ تو بندوں کی صورتوں کو دیکھتی ہے نہ ہی بندے کے مال، روپیہ پیسہ، سونے چاندی اور مکانات کو دیکھتی ہے بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ بندے کے دلوں میں چھپی ہوئی اس کی نیت کو دیکھتا ہے۔

صحابہ کرامؓ نے آپؐ سے دریافت کیا کہ قربانی کیا چیز ہے؟ آپؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ:

یہ تمہارے والد حضرت ابراہیمؑ کی سنت ہے۔

صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ ہمیں اس میں کیا ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا:

ہر بال کے بدلہ ایک نیکی (ابنِ ماجہ)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “ﷲ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے دن بندوں کے تمام اعمال میں پسندیدہ ترین عمل جانور کا خون بہانا (قربانی کرنا) ہے اور بندہ قیامت کے دن اپنی قربانی کے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرف قبول حاصل کر لیتا ہے، لہٰذا تمہیں چاہئے کہ خوش دلی سے قربانی کرو۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

عیدالاضحیٰ پر قربانی کرنا صرف سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرنا اور جانور کو قربان کرنے سے منسوب نہیں ہے بلکہ قربانی کا اصل معنی تو یہ ہے کہ اللہ کی ذات کی خاطر انسان اپنی سب سے قیمتی چیز کو قربان کرے۔ قربانی کا مقصد تو اللہ کے احکامات کے سامنے جھکنے کی ہماری خواہش ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہو جائے۔ قربانی کا مقصد قربانی کی وہی روح، ایمان کی وہی کیفیت اور خالق کائنات کے ساتھ محبت اور وفاداری کی وہی شان پیدا کرنا ہے جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیمؑ نے کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

قربانی کا مقصد اللہ کا تقرب، اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ قربانی کا مقصد یہی ہے کہ رب کی رضا کے لئے زندگی جئیں، گزاریں اپنے خالق کی خوشنودی کے لئے، جہاں رہیں جس حال میں رہیں اسلام کے سچے وفادار بن کر رہیں، ہر لمحہ اطاعت الٰہی اور محبت رسول ﷺ میں گزاریں۔ لیکن آج کا انسان قربانی کا مقصد اور قربانی کے واقعے کو بھول چکا ہے۔ اصل قربانی تو باپ بیٹے کی گفتگو تھی، دنبہ کی قربانی تو اس کا فدیہ تھا، افسوس ہمیں دنبہ یاد رہا گفتگو یاد نہ رہی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں سنت ابراہیمی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply