حقوق العباد کے منافی رسومات/خنساء طاہر کمبوہ

آج کا انسان اپنی خواہشات اور خود ساختہ رسومات کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہورہا ہے، اور پھر مہنگائی نے بھی کچھ کسر باقی نہ چھوڑی ،متوسط طبقے کے لوگوں کی کمر توڑ دی۔اسلام نے کسی بھی ایسے عمل کا حکم نہیں دیا جو انسان کے مزاج پہ گراں ہو۔سنت اور بعض فرائض کی ادائیگی میں کچھ صاحبِ  حیثیت لوگوں نے ایسی خوشیاں منائیں  کہ اس کے بعد وہ ہر طبقے کے لوگوں کیلئے لازم بن گئی۔
پھر یہ خوشی نام کی رہ گئی اور لوگ قرض لے کر اپنا نام اور عزت کمانے کی تگ و دو میں لگ گئے۔

اگر دیکھا جائے تو ولیمہ ایک سنت ہے اور صحابہ کرام اور خود نبی کریمﷺ  کی حیاتِ طیبہ میں اس کی ادائیگی نہایت ہی سہل انداز میں کی گئی، یقیناً اس ادائیگی میں امت کیلئے پیغام رہا ہے کہ ایسا انداز اپنایا جائے جس کی ادائیگی میں دِقت نہ ہو، لیکن آہستہ آہستہ سنت کے نام پہ نت نئے اضافے ہونے لگے۔
دنیا داری کی خاطر ولیمہ کی رسم میں بھاری سلامی دے کر اپنی ناک بچانا بھی مجبوری ہے۔پہلے وقت تھا جب لوگ اپنی خوشی سے سلامی دیتے تھے لیکن اب شادی بیاہ کی تقریب کی رسومات بھی ایک کاروبار ہوگیا ہے، ہر شخص اپنی استطاعت سے بڑھ کر کچھ دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ برادری میں عزت بنی رہے۔جو جتنا دیتا ہے اسکا نام یاد رکھا جاتا ہے اور دینے والے یاد رکھتے ہیں کہ ہم نے فلاں موقع پہ فلاں آدمی کو اتنا سب دیا تھا۔نظر رکھی جاتی ہے کہ ہماری باری پہ وہ کیا دیتا ہے اگر کچھ کم ہو  تو ان سے ناراض ہونا بھی واجب ہوگیا ہے ،اس طرح کے تحفے تحائف کے  تبادلے  کو اسلام میں قبیح عمل قرار دیا گیا ہے اور سود سے تشبیہ دی گئی ہے۔

ولیمہ کے بعد ایک غیر ضروری رسم ہے جس کا حکم کسی کتاب یا سنت سے ثابت نہیں ہے وہ ختم حفظ قرآن ہے۔
جس کا انعقاد دینی گھرانوں سے کیا گیا ہے ،پہلے پہل یہ خوشی منانے کا ایک بہانہ رہا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ بھی ایک کامیاب کاروبار کی شکل اختیار کرگیا ہے، اس میں بھی خاندان بھر کے لوگوں کی شرکت اور سلامی دینا لازم ہوگیا ہے اور یہ خوشی بھی کچھ غریب افراد پہ قہر بن گئی، جن کو مہینہ بھی چلانا ہے اور قیمتی تحائف دے کر اپنی سفید پوشی کا بھرم بھی رکھنا ہے۔

اب ایک نئی رسم عقیقہ کے نام  پر وجود پا رہی ہے یہ بھی ایک سنت ہے لیکن حضرت انسان نے ہر سنت کو ایسے طریقے سے ادا کیا کہ وہ رسم بن جائے، اپنی استطاعت سے بڑھ کر بڑا جانور خریدنا اور دور سے رشتےدار بلا کر سلامی لینا اس رسم کا اہم جزو  ہے۔

سوچنا چاہیے کہ آخر ان سب رسومات نے  انسان کو نام نہاد شہرت کے سِوا دیا کیا ہے؟ کیا ان رسومات کے موجدوں کو علم ہے کہ کچھ لوگ صرف اپنی عزت بچانے کیلئے انکی خوشیوں میں شامل ہوتے ہیں؟ کیا ایسی خوشیوں میں اپنوں کو شامل کرکے آپ خود خوش ہوتے ہیں؟ یقیناً نہیں!
کیونکہ یہ خوشیاں منانے کا طریقہ نہیں یہ صرف ہوس ہے ،شہرت اور چند تحائف کی ۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم ایسی خوشیاں نہ مناتے جن میں شامل ہونا ہمارے متوسط طبقے کیلئے مجبوری ہو۔اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ انسان میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرنے کی عادت نہ ہوتی اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم اسلام کی خوبصورت چھتری تلے رہ کر خود کو میانہ روی کا عادی بنالیتے ۔

اسلام کے مزاج میں نمود و نمائش کی گنجائش نہیں ہے اور آج ہمارا ہر عمل محض نمود و نمائش ہی ہے ہم نے شادی جیسے آسان اور سہل فرض کو خود کیلئے بوجھ  بنا دیا، جہیز کی فہرست اور ولیمے کا مینو بہترین رکھنے کی دھن نے  سب کو  مشکل میں ڈال  رکھا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان رسومات کو چھوڑ کر اس طریقے پہ آئیں جو رسول اللہﷺ نے بتایا اور پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس پہ عمل کیا ۔

ولیمہ اور عقیقہ سنت ہیں تو سنت کی طرح ادا کرنا ہوگا۔سلامی اور مہنگے تحفے تحائف کی رسم کو ختم ہونا ہوگا۔

حفظ قرآن کی تقریبات اور اس جیسی  دوسری کئی تقریبات کو اب ختم ہونا ہوگا، سمجھنا ہوگا کہ اسلام ہمیں ایسے کسی عمل کی اجازت نہیں دیتا، جس سے دوسرے لوگوں کو مشقت اٹھانی پڑے، ہماری تمام رسمیں حقوق العباد کے منافی جارہی ہیں ان رسومات کا خاتمہ کرنے کیلئے ہمیں ابتدا ء اپنے گھر سے کرنا پڑے گی۔۔ کیونکہ صدقہ کی شروعات اپنے  گھر سے ہوتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سہل انداز اور سنت کا طریقہ اختیار کریں یقین جانیے آپ خود کو ہلکا محسوس کریں گے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply