پاکستان نور ہے/ڈاکٹر اظہر وحید

آج کل ملک کے دگردوں حالات دیکھ کر سوشل میڈیا پر حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک جملہ بہت جگہ زیرِ بحث ہے:
پاکستان نور ہے ، نور کو زوال نہیں”
جملے پر بحث، تبصرہ یا تنقید کرنے سے پہلے اس کا سیاق و سباق سمجھ لیں اور اس پر کوئی سیاسی فتوٰی جاری کرنے میں جلد بازی نہ کریں: یہ جملہ کمپنی بہادر کی طرف سے چلی ہوئی کوئی جذباتی کمپین نہیں ہے ، بلکہ یہ اللہ کے ایک فقیر کا پنتیس برس پرانا فقرہ ہے۔ پہلے اسے مکمل پڑھیں:
“پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں۔ آپ ﷺ کی بخشی ہوئی نورِ ایمان کی روشنی میں پاکستان بنا اور آپ ﷺ ہی کے فیضِ نظر سے اس کا قیام و دوام ممکن ہے”
مراد یہ ہے کہ پاکستان جس کلمہ “لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کی بنیاد پر قائم ہوا ہے ، وہ کلمہ ایک نور ہے، اس کلمے کو اس کلمے کے نظریے کو زوال نہیں ، اگر ہم اس نور کے ساتھ وفا کریں گے تو ہم بھی زوال سے بچ جائیں گے۔ اگر ہم نے اس سے وفا نہ کی تو یہ جھنڈا کسی اور قوم کے ہاتھ میں آ جائے گا، ممکن ہے کل چین کلمہ پڑھ لے، اور وہ اس کلمے کی لازول روشنی سے اپنے “پاکستان” کو لازوال کر لے۔
ارشاد ربانی ہے۔
“زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے ، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے، نیک عمل کرتے رہے ، اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہے ، اور حق بات کی تلقین کرتے رہے”
وقت کے تناظر میں دیکھیں تو خسارہ ایک فطری کلیہ ہے لیکن اس خسارے سے بچنے کا ایک استثنیٰ موجود ہے، ورنہ کلیہ تو یہ ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ لیکن کلمے کے نور کو ایسا عروج ہے جسے کوئی زوال نہیں۔
اس جملے کا تاریخی سیاق و سباق بھی سمجھ لیں۔ یہ ایک گفتگو میں ریکارڈ کیا گیا جملہ ہے، تاریخی سیاق و سباق اس کا یہ ہے کہ 1984ء میں گورنمنٹ ایم اور کالج میں ملک بھر کے دانشوروں اور ادیبوں کی ایک بیٹھک ہوئی تھی ، اور اس میں حضرت واصف علی واصف بطور صدر مدعو تھے، اس گفتگو کی محفل میں پاکستان کے چوٹی کے دانشور موجود تھے، اس میں محترم اشفاق احمد، حنیف رامے ، ڈاکٹر اجمل نیازی ، امجد اسلام امجد، ، عطاء الحق قاسمی ، امجد طفیل سمیت بہت سے نامور شعراء اور ادباء بھی شامل تھے، یہ دانشور حضرات قبلہ واصف علی واصفؒ سے پاکستان کے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے سوالات پوچھ رہے تھے۔ ان سوالات کے جواب کے دوران میں یہ جملہ آپؒ نے کہا، اور یہ زبان زدِ عام ہوگیا۔ جس نابغہ عصر ہستی نے یہ جملہ کہا، اسی نے پاکستان کے بارے میں یہ بھی کہ رکھا ہے، اور اس پر بھی غور کرنا چاہیے:
“انصاف قائم ہو جائے ، خطرہ ٹل جائے گا، خطرہ باہر نہیں اندر ہے”
” ہمارے لیے ہمارا وطن خاکِ حرم سے کم نہیں،”
“اس ملک کی خدمت اسلام کی خدمت ہے”
“قائد اعظمؒ سے ایک نئی طریقت کا آغاز ہوتا ہے ، اور وہ پاکستانی— ”
اور یہ کہ :
“جس نے محبوب وطن کی ہے اڑائی مٹی
واصف، اس شخص کی ہو ساری کمائی مٹی
اگر شاہین کے نشمین پر زاغوں کا تصرف ہے، اگر آج یہاں کرگسوں کا ہجوم ہے تو اس میں مایوس ہونے والی کوئی بات نہیں، پاکستان کی مٹی سے بے وفائی کرنے والوں کی نسلیں برباد ہوں ، ان شاءاللہ!
جناب اشفاق احمدؒ ایسے روشن ضمیر دانشور نے کہا ہوا ہے کہ پاکستان حضرت صالح کی اونٹنی ہے، جو اسے نقصان پہنچائے گا، وہ ہلاک ہو جائے۔
اس ملک سے وفا ہی ، کلمے سے وفا ہے، جو لوگ یہاں انصاف ، عدل اور نیکی کے نور کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں ، ان کے لیے یہ جملہ ایک طاقتور تحریک ہے۔ وہ پاکستان ابھی بننا ہے جو کلمے کے نور کا امین ہوگا، وہاں تک پہنچنے کے لیے ہر دور میں اچھے لوگوں نے ، جری لوگوں نے جدو جہد کی ہے اور کر رہے ہیں۔ جو ملک ایک نظریے پر بنتا ہے، اس کی جغرافیائی حدود میں کمی یا زیادتی اس نظریے کی شکست کی دلیل نہیں ہے۔ مسلمانوں نے کتنی ہی جنگوں میں شکست کھائی ہے ، لیکن کیا اس سے اسلام کو زوال آ گیا ہے؟ اسلام اپنی جگہ مائل بہ عروج ہے، اگر ایک قوم اس کے ساتھ وفا نہیں کرتی تو کوئی دوسری قوم اس کی جگہ لے لیتی ہے، اگر ایک نسل بے وفائی کی مرتکب ہوتی ہے تو بعد میں آنے والی کوئی نسل اس کی صحیح وارث بن کر سامنے آتی ہے۔ مایوسی کے اس گھپ اندھیرے میں یہ جملہ ایک روشن چراغ ہے۔ اس چراغ کو اندر جلائیں— اندر روشن ہو گا تو باہر روشنی کا ایسا سامان مہیا ہوگا، جس کو کبھی زوال نہ ہوگا۔
1971ء میں مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستان سے جدا ہونا ایک ایسی داستانِ غم ہے، جس میں اپنوں کی بے وفائی کا تذکرہ نہ کیا جائے تو بات نامکمل رہے گی۔
سیاسی وجوہات اپنی جگہ ، لیکن روحانی پہلوؤں پر بھی غور کر لینا ہے۔ یہاں ہم فی الحال صرف روحانی وجوہ پر بات کریں گے:
یہاں سیاسی وجوہات زیرِ بحث نہیں بلکہ یہاں ہم فطری اصولوں پر بات کریں گے۔ کسی واقعے کے وقوع پذیر ہونے کے لیے سیاسی وجوہات سے بہت پہلے کچھ کائناتی اصول کارفرما ہوتے ہیں۔ سیاست اُن کے اظہار کا ایک ظاہری ذریعہ بنتی ہے۔ ہم فطری اصولوں پر بات کرتے ہوئے آپ کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان کاقیام کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ہے۔ کلمہ طیبہ‘ کلمہ توحید ہے۔ توحید کا ایک مفہوم یہ ہے کہ مسلمان اپنی لسانی نسلی اور نسبی عصبیتوں کو ترک کرتے ہوئے خود کو قومِ رسولِ ہاشمیؐ قرار دیں ‘ یعنی کثرت کا انکار اور وحدت کا اقرار…وطن پرستی ، نسل پرستی بلکہ خود پرستی کا انکار اور خدائے واحد کا اقرار۔
بدقسمتی سے ہمارے بنگالی بھائیوں نے اپنے جغرافیائی خطے کی شناخت کلمہ توحید سے جوڑنے کی بجائے دوبارہ اپنی لسا نی اور نسلی عصبیتوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی … اور قائد اعظم ؒ کی زندگی ہی میں بنگالی زبان کے حوالے سے تعصّب کا بھر پورمظاہرہ کیا۔ بوجوہ ‘ وہ کلمہ وحدت کے لیے قائم وطن کی خاطراپنی زبان کی قربانی نہیں دے سکے۔ اگرچہ اپنی لسانی عصبیت برقرار رکھنے میں وہ بتدریج ’’کامیاب‘‘ بھی ہو گئے، لیکن بحیثیت ِمسلمان وہ ناکام ہوگئے۔ مسلمانان ِہند نے اپنی اپنی علاقائی عصبیتوں کی نفی کرنے کے بعد پاکستان حاصل کیا تھا۔ اس طرح پاکستان اپنی اصل میں ایک نظریہ ہے۔ پاکستانی قوم اْسے کہیں گے جو اپنی زمین کا رشتہ کلمہ توحید سے جوڑتی ہے…اور اِس میں وہ اپنے تمام نسبی اور لسانی تفاخر فراخ دلی سے چھوڑ دیتی ہے۔ پاکستان ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی ہجرت کا نتیجہ ہے۔ پاکستان برصغیر میں اْمّت ِمسلمہ کا ایک متفقہ اجتہاد تھا… اور اصولِ اجتہاد میں یہ شامل ہے کہ جس بات پر ایک مرتبہ اجتہاد ہوچکا ہو‘ اِس پر دوبارہ نہیں ہوسکتا۔
ملک کے ایک صوبے کا علیحدہ ہو جانا اگرچہ پاکستان اوراہلِ پاکستان کے لیے ایک غم و اندوہ کی داستان تھی لیکن یہ پاکستان کا زوال نہیں تھا۔
مجھے 2002ء میں بنگلہ دیش جانے کا اتفاق ہوا، اور مجھے ذاتی مشاہدہ ہوا کہ اْن کے بزرگ اور ذی فہم دانشور ہندوستان کے ہاتھوں اپنی بے توقیری کی داستانِ غم سناتے تھے۔ ہندوستان نے 1971ء کے بعد بنگلہ دیشی مسلمانوں کا جس درجہ استحصال کیا ‘ وہ آپس میں ایک دوسرے کو بتاتے تھے کہ مغربی پاکستان والوں کی طرف سے استحصال تو اِس کا عشرِ عشیر بھی نہ تھا۔
جس طرح انسانی وجود کا ایک حصہ اپنے اصل کے ساتھ رہ نہ سکے تو اُسے علیحدہ کر دیا جاتا ہے کہ اُس کا جسد کے ساتھ چپکے رہنا پورے وجود کی سلامتی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے‘ اسی طرح توحید کے نظریے سے منسلک ہونے کے بعد ( یعنی پاکستان کا حصہ بننے کے بعد ) اگر کوئی اس کی اساس کا منکر ہو جائے گا تو اس کا علیحدہ کر دیا جانا ‘ قدرت کا فیصلہ ہے۔اگر میرا ایک بازو کٹ جاتا ہے تو میرا نام ، کام اور کلام تب بھی ’’اظہر وحید‘‘ ہی رہے گا… مجھے زوال تو اس وقت لاحق ہوگا جب میں اپنے نام سے منسلک کام اور کلام کو ترک کرد وں ، disown کردوں، اس سے منکر ہو جاؤں۔ اس طرح پاکستان ایک نام ہے اور اس نام سے منسلک ایک نظریہ ہے… اور یہ نظریۂ توحید ہے … اور اس نظریے سے منسلک عوام ہیں۔ جب تک یہ عوام و خواص اس نظریے سے قولاً فعلاً منسوب رہیں گے ‘ زوال سے محفوظ رہیں گے۔ جس طرح مسلمانوں کی شکست ‘اسلام کی شکست نہیں ہوتی ‘ اسی طرح کسی مخصوص وقت میں پاکستانیوں کا ’’زوال‘‘ پاکستان کا زوال نہیں… کیونکہ پاکستان صرف ایک نسل تک محدود نہیں۔ کسی ایک نسل کی ناکامی آنے والی نسلوں کے ناکام ہو جانے کا نام نہیں۔
سقوط ِ ڈھاکہ کے بعد اندرا گاندھی نے جب بڑے فخر سے کہا کہ دوقومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیاہے ، عین اسی وقت دو قومی نظریہ دوبارہ زندہ ہو رہا تھا۔ کس طرح…؟آیئے غور کریں… کائناتی اصولوں کا پیمانہ ہاتھ میں لیں اور دیکھیں۔ بنگالی زبان کے تعصّب کے سبب اپنے کلمہ گو بھائیوں سے علیحدگی کا منطقی نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ مشرقی بنگال (بنگلہ دیش ) دوبارہ مغربی بنگال ( ہندوستان )میں ضم ہو جائے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ ایسا کرنا‘ نہ تو ہندوؤں کو گوارا ہوا ( کہ درمیان میں کلمہ موجود ہے) اور نہ ہمارے روشن خیال بنگالی بھائیوں ہی کو خیال آیا کہ وہ کلمے کو چھوڑ کر اپنی لسانی اصل ( متحدہ بنگال ) میں جا ملیں۔ اس طرح ایک رنگ ، نسل اور زبان کی سانجھ کے باوجود’’ مسلمان بنگال‘‘ اور ہندو بنگال ایک ملک نہیں بن پائے۔ آخر کیوں؟ آخر ایک کلمہ ہی تو ہے؟ صرف مذہب ہی کا فرق ہے، باقی سب کچھ ایک ہے … لیکن نہیں۔ عین خلیج بنگال کے کناروں سے دو قومی نظریہ ایک بار پھرنئے انداز اور نام سے اُبھرنا شروع ہو گیا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بعض دُور اندیش ہندوستانی دانشوروں کا کہنا تھا کہ پاکستان توڑنے کے چکر میں ہم نے دراصل دو پاکستان بنا دیے ہیں۔
حق شناس جانتے ہیں کہ یہ نور ظہور سب اُسی ذاتِ بابرکات کا ہے ‘جسے قرآن میں سراجاً منیراًکہا گیاــ اَزل سے روشنـــ اَبد تک روشنی اور ہدایت کا منبع!! جب تک کوئی فرد یا قوم اِس ذاتؐ سے بربنائے محبت وابستگی کااظہار کرتا رہے گا‘وہ زوال سے دُور ہے… اور زوال اُ س سے دُور!!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply