پولی ایڈی وی پولی نئیں

پنڈ کی ایک سادی حسینہ جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ سادگی میں اپنی مثال آپ ہے لڑکے بالک اس کے گرویدہ تھے۔ آوازیں کستے۔۔۔ وہ بے توجہی سے گزر جاتی ۔ نام اس کا تھا پولی(بھولی)۔ کسی نے ازراہء مذاق اُسے تنہائی میں بات سننے کا کہا تو مسکرا کے بولی،من لیا ،پولی بہت پولی اے پر ایڈی وی پولی نئیں (بھولی بے شک بھولی ہے مگر اتنی بھی بھولی نہیں)۔یعنی وہ سادہ اور بھولی تو ہے مگر اتنی بھی سادہ نہیں کہ لفظوں کے دام میں آ جائے۔ یہ ایک فرضی کہانی ہے مگر پاکستان کے موجودہ حالات پہ صادق آ رہی ہے اور جو لوگ یہ توقع کیے بیٹھے ہیں کہ بس اب معاملات ختم ہو گئے ہیں تو یاد رہے ادارے اتنے بھی بھولے نہیں ۔عدل کے اعلیٰ ایوان نے جب جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ دیا تو نہ جانے کیوں کچھ لوگوں کے نزدیک یہ عمران خان کی ہار اور نواز شریف کی جیت ہے، مگرایسے لوگوں کو صرف ایسا کبوتر کہا جا سکتا ہے جوآنکھیں بند کر کے تصور کر چکے ہیں کہ بلی انہیں کچھ نہیں کہے گی یا پھر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کے بچ جانے پہ شکر ادا کر رہے ہیں۔ پولے بادشاہو !بچ تو آپ عارضی طور پر واقعی گئے ہیں لیکن حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ آپ کے خلاف جا رہے ہیں۔ اب اگر جذباتی عمران خان نے ہمیشہ کی طرح وطیرہ وہی رکھا جس کی ان سے توقع رکھی جاتی ہے تو یقیناًجے آئی ٹی بھی حکمران جماعت کے حق میں ہی جائے گی اس کی وجہ یہ ہے کہ جے آئی ٹی کو صرف جذباتیت سے سروکار نہیں ہے ، انہیں پہلے سے پرکھے گئے شواہد کو مزید پرکھنا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے تمام ججز کم و بیش اس بات پہ تو کوئی دوسری رائے نہیں رکھتے کہ صادق و امین کا دعویٰ اب کھل کے جھوٹ بن چکا ہے مگر قانون کی آنکھوں پہ جو پٹی بندھی ہوتی ہے وہ صرف اس لیے ہوتی ہے کہ یا تو اخلاقی طور پر کوئی اپنا جرم تسلیم کر کے اس پٹی کو کھول دے یا پھر ثبوت اس قدر مضبوط ہوں کہ پٹی خود بخود کھل جائے مگر اس معاملے میں یہ دونوں صورتیں نظر نہیں آ رہیں۔ نہ تو میاں نواز شریف و خاندان اخلاقی طور پر عہدہ چھوڑنے کو تیار ہیں نہ ہی عمران خان ناکافی ثبوت پیش کرنے کے باوجود پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں۔ گاڈ فادر مافیاسے متشابہہ ہونے کے باجود بھی میاں محمد نواز شریف اقتدار سے چمٹے رہنے کو اپنی کامیابی تصور کیے ہوئے ہیں تو دوسری طرف خان صاحب اپنی جذباتیت سے حالات اپنے ہی مخالف کر رہے ہیں۔ کبھی دس ارب جیسا بے سروپا راگ تو کبھی دو ججز صاحبان کے اختلافی نوٹ کو بلاوجہ ہوا دینا۔
کوئی شک نہیں کہ میاں صاحب کو سیاسی شہید بننے کے لیے اور اس قوم کا ہیرو بننے کے لیے عہدے کو ثانوی درجہ دیتے ہوئے کسی با اعتماد ساتھی کو وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھاتے ہوئے یہ اعلان کرنا چاہیے تھا کہ جب تک جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش نہیں ہو جاتی تب تک وہ کوئی عہدہ نہیں لیں گے۔ ایسا کرنے سے ان کو مستقبل قریب میں ایسا فائدہ ہونا تھا جس کا تصور شاید وہ ابھی نہیں کر رہے۔ کمیٹی دو ماہ میں اپنی رپورٹ پیش کرئے گی یعنی ابھی اپریل ہے تو یقیناًجولائی کے کسی بھی ہفتے میں رپورٹ متوقع ہے اور آخری بجٹ پیش کرنے کے بعد اگست یا ستمبر میں الیکشن مہم شروع ہو جانی ہے جس کے اثرات ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور آخری چند ماہ تو ویسے ہی نگران حکومت سوٹڈ بوٹڈ ہو کے مزے لے گی۔ لہذا اگر میاں صاحب ابھی بڑا پن دکھاتے کہ دیکھیں جی ہم پہ کچھ ثابت بھی نہیں ہوا اور ہم نے خود کو احتساب کے لیے پیش کر دیا تو آئندہ انتخابات میں ایک ہیرو بن کر ابھرتے لیکن فرض کریں ابھی وہ جس طرح عہدہ چھوڑنے کو تیار نہیں تو دو ماہ بعد جی آئی ٹی کی رپورٹ اگر ان کے خلاف آتی ہے تو وہ کہاں کھڑے ہوں گے۔ ان کے سر پہ نا صرف نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہو گی بلکہ وہ سیاسی طور پر عوام کا سامنا کرنے میں بھی یقیناًمشکلات کا شکار ہو جائیں گے۔
چاہیے یہ تھا کہ وہ عمران خان کی جذباتیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے الگ ہو کر مخالفین کو کرارا جواب دیتے لیکن موجودہ حالات میں اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ بھی گھمن گھیری کی سی آتی ہے تو بھی ان کے سیاسی مخالفین اس بات کو الیکشن مہم میں یقیناًان کے خلاف استعمال کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ نہ تو کوئی عام جے آئی ٹی ہے نہ ہی کسی کمیشن کہ جو حکومت کو جوابدہ ہو، بلکہ یہ جے آئی ٹی براہ راست سپریم کورٹ کے نئے بنچ کو جوابدہ ہو گی ۔ا س لیے کوئی شک نہیں کہ اداروں پہ اثرو رسوخ رکھنے کے باجود میاں صاحب کسی بھی طرح سے اس ٹیم کی تحقیقات پہ اثر انداز نہیں ہو پائیں گے۔ لہذا حکمران جماعت جو جے آئی ٹی کے بن جانے پہ مٹھائیاں بانٹ رہی تھی ۔ آخری لمحات میں وزیر اعظم کا خطاب نہ کرنا ظاہر کر رہا ہے کہ شاید جان چکے ہیں کہ پولی ایڈی وی پولی نہیں کہ جے آئی ٹی بے شک حکومتی کنٹرول کے اداروں کی اکثریت پہ مشمل ہے مگر جو نگران کردار ہے وہ کوئی نگران حکومت جیسا نہیں ہے بلکہ ترچھی نظر اور سخت ہاتھ جیسا نگران کردار اس جے آئی ٹی میں موجود ہے جس کے ہوتے ہوئے شاید اس جے آئی ٹی میں حکمران جماعت اگر گھر کا بندہ بھی اس کا حصہ بنوا دے تو اسے فائدہ ہونا ناممکن سا ہے ۔ لہذا جتنی سادہ اور حکومتی اکثریت کی یہ جے آئی ٹی نظر آ رہی ہے اتنی سادہ اس کی تشکیل ہے نہیں ۔ اس جے آئی ٹی کی تشکیل ہونا حکومت کے لیے اتنا تر نوالہ بھی نہیں ہے کہ وہ اسے اپنی کامیابی بھی سمجھیں۔ پاکستان کے سیاستدان اقتدار سے چمٹے رہنا ہی اپنی کامیابی سمجھنا شروع ہو گئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف نے ایک نادر موقع گنوا دیا ہے خود کو عوام کی نظر میں ہیرو بنانے کا ۔ وہ بھی ایک ایسے لمحے میں جب الیکشن کی گہما گہمی کم و بیش ہر صوبے میں شروع ہو چکی ہے اور جے آئی ٹی کا کوئی بھی فیصلہ اس الیکشن میں یقیناًاثر انداز تو ہو گا اور اگر پہلے سے قائم کی گئی رائے مزید میاں صاحب کے خلاف ہو گئی تو ان کو آنے والے انتخابات میں ناقابل تلافی نقصان پہنے گا ۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply