• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فرقہ پرست طاقتوں سے کیسے مقابلہ کریں؟۔۔۔ابھے کمار

فرقہ پرست طاقتوں سے کیسے مقابلہ کریں؟۔۔۔ابھے کمار

ایک طویل عرصے  تک کانگریس اعلیٰ ذات بالخصوص برہمنوں کی پارٹی سمجھی جاتی تھی۔کانگریس کی ٹاپ لیڈرشپ ہمیشہ برہمنوں کے ہاتھ میں رہی ہے وہیں دلت اور مسلمان اُن کے روایتی حمایتی رہےہیں۔۱۹۹۰ کی دہائی تک اعلیٰ ذات کانگریس کے امیدوار کے حق میں نہ صرف ووٹ دیتے تھے بلکہ پسماندہ ذات پر دباؤ ڈالتے تھے کہ وہ اپنا ووٹ ہاتھ پر ہی دیں۔ بچپن کے دنوں میں مَیں نے خود اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا تھا کہ بہار کےاعلیٰ ذات لوگ پسماندہ ذات کے ووٹرز کو لالو یادو کی قیادت والی جنتا دل کے حق میں ووٹ ڈالنے سے روکنے کی کوشش کرتے تھےاور جیسے ہی گنجائش ملتی ویسے ہی کانگریس کے امیدوار کے حق میں بوتھ لوٹتے تھے۔ یہی نہیں میں نے اپنے بڑے بزرگوں سے اکثر سنا کرتا تھا کہ نہرو خاندان کے لوگ سُدھ برہمن ہیں۔ اندرا گاندھی کی وفات کے سالوں بعد بھی میرے گاؤں کے برہمنوں کے لیے وہ زندہ تھیں اور وہ اُن کی گفتگو کا اہم حصہ تھیں۔جب کوئی چھوٹی بچی پڑھائی کرنے سے کتراتی تھی اور شرارت کرتی تھی تو میرے چچا مجھ سے کہتے تھے “اب یہ پڑھنے والی نہیں ہے،اسے اندراگاندھی کے گھر لے جاؤ۔ وہاں جا کر وہ اُن کا بھات پکائےگی”۔

مگر آج تصویر کافی بدل چکی ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں فرقہ پرست طاقتوں نے اپنا پروپیگنڈا کچھ اس قدر پھیلایا ہے کہ عوام کی سوچ بہت حد تک بدل گئی ہے۔ دوسروں کی کون کہے ،آج برہمن سماج کانگریس کو نا پسند   کر رہا ہے بلکہ بھارت کی سب سے پرانی پارٹی کو کوستے نہیں تھک رہا ہے۔ ان کی نظروں میں کانگریس مسلمانوں کی پارٹی بن گئی ہے۔اُن کو یہ بھی لگتا ہے کہ ریزرویشن کی وجہ سے ساری نوکریوں دلتوں اور پیچھڑوں کو چلی جا رہی ہیں اور اُن کے بچے “میریٹ” رکھنے کے باوجود تعلیم اور نوکری سے محروم رکھے جا رہے ہیں۔ اُن کی نظروں میں یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کیوں کہ کانگریس نے ریزرویشن لا کر ذات پات کے زہر کو سماج میں گھول ڈالا ہے۔

یہی نہیں کشمیر اور دہشت گردی کے مسئلوں  کے لیےبھی   نہرو اور کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ میں یہ بھی محسوس کر رہا ہوں کہ فرقہ پرستی کے کیڑے اعلیٰ ذات سے پھیل کر پسماندہ ذات میں بھی پہنچ چکے ہیں۔ تکلیف اور بڑھ جاتی ہے جب کوئی دلت پاسی، پیچھڑا یادو، پٹیل اور دیگر محروم طبقات کے لوگ فرقہ پرست طاقتوں کی بات کو دہراتے پھرتے ہیں۔یہ بھی بے حد افسوس کی بات ہے کہ پسماندہ طبقات کا استحصال ذات پات پر ٹِکا ہوا ہے، مگر اُن کا سارا فوکس آج کل مذہب کی طرف چلا گیا ہے۔ اُن کے اندر جو ذات پات کے خلاف شعور سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر کرپری ٹھاکر اور لالو پرساد نے پیدا کیا تھا اس کو پھر سے مذہب کے نام پر دبایا جا رہا ہے۔

تبھی تو بچھڑے اور سماجی انصاف کے نظریے والی سیاسی پارٹیوں کو چھوڑ کر بھگوا طاقتوں کا پرچم تھام بیٹھے ہیں۔ اُن کو بار بار یہ بتایا جا رہا ہے کہ اُن کی پسماندگی کی بڑی وجہ مسلمان ہیں۔ جہاں کہیں بھی دلت، پچھڑے اور مسلمان کے درمیان کوئی تکرار اور جھگڑا سامنے آتا ہے،اُ ن کو ہوا دی جاتی ہے اور لوئر کاسٹ کو یہ بتایا جاتا ہے کہ “آپ مسلمانوں سے مقابلہ کریں، پوری پولیس اور انتظامیہ آپ کے ساتھ کھڑی رہے گی”۔

یہی وجہ ہے کہ آپ کو اسکول اور ہسپتال پر بات کرنے والے کم ٹکراتے ہیں اور کشمیر، تین طلاق، دہشت گردی وغیرہ پر ڈبیٹ کرنے کے ایک ڈھونڈو تو ہزار مل جاتے ہیں۔کل جب راجیہ سبھا میں تین طلاق پر بحث چل رہی تھی، اس وقت میرے گاؤں کے لوگ اس مسئلے پر خوب بات چیت کر رہے تھے۔ان کو اس بات کی خوشی تھی کہ مسلم خواتین اپنے مردوں کے “ظلم” سے آزاد ہونے والی ہیں۔ بغیر مطالعے اور مشاہدے کے اُن کو پورا یقین ہے کہ مسلم عورتوں کی حالت مسلم معاشرے میں بہت ہی خراب ہے، جہاں وہ “غلامی” کی زندگی گزار رہی ہیں۔ مگر جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا اصلاح کی ضرورت صرف مسلم سماج کو ہی ہے؟ یا پھر اس کی ضرورت دیگر کمیونیٹیز میں بھی ہے؟ ان سوالوں میں اُنہوں نے زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔

مزید جب میں نےیہ سوال کیا کہ کیا ہندو سماج کے اندر اصلاح کی ضرورت نہیں ہے؟ اوراگر آپ لوگ مسلم سماج کے اندر ہو رہے ظلم کے خلاف ہیں، پھر کیا آپ کا یہ فرض نہیں ہے کہ آپ دیگر زیادتیوں کے خلاف بھی بولیں مثلاً ذات پات، چھت چھات جہیز، بیوہ کی بدحالی۔ آگے میں نے ایک پسماندہ ہندو سے پوچھا کہ “آپ ہر وقت ہندو مسلمان کی بات کرتے ہیں مگر کیا آپ نہیں محسوس کرتے ہیں کہ ہندو سماج کے اندر ذات پات اور غربت کی  بیماری ہے”؟ یہ بھی تو  سچ ہے کہ ہندو سماج کے اندر ذات سے باہر شادی کرنے اور ساتھ کھانے کی روایت بالکل نہیں  ہے”؟ پھر مجھے کچھ جواب نہیں ملا۔

پھر جب یہ پوچھا گیا کہ کیا ان برائیوں کے خلاف بھی قانون نہیں  بننا   چاہیے تھا؟ مگر ان سوالوں کو سن کر بھی سب خاموش رہے۔ پاس میں ہماری بات سن رہے ،تیواری جی نے میری بات کو کاٹتے ہوئے کہا کہ “پاکستان اور کشمیرسےبھگائے گئے ہندوؤں کے بارے میں آپ کو کیا کہنا ہے”؟

میں نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی مقام سے ہندو یا  کوئی بھی انسان بھگایا جاتا ہے تو وہ غلط ہے، مگر ہمارا یہ بھی تو فرض ہے کہ ہم اپنے آس پاس اپنے بھائیوں کی جان و مال کی حفاظت کریں۔ کسی سے زبردستی کوئی مخصوص مذہبی نعرہ نہ دلوائیں،مگر میرے سوالوں سے اُن کو بہت زیادہ مطلب نہیں تھا۔ اُن کو وہ سب بولنا تھا جو اُن کو ایک پروپیگنڈے کے تحت ہر روز سمجھا یا جاتا ہے۔

مجھے نہیں لگتا کہ یہ سب کچھ یوں ہی ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک خاص حکمت عملی اور اسٹریٹجی کے تحت کیا جا رہا ہے۔ ایک مقصد کے تحت مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کیا گیا ہے اور ان کا خوف عام ہندووں کے دلوں میں بیٹھایا جا رہا ہے۔ ہر وقت اُن کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ بھارت کے ہر مسئلے کے لیے مسلم ذمّہ دار ہیں۔

جہاں یہ صحیح ہے کہ سارے ہندو ایک جیسے نہیں اور آج بھی بڑی تعداد میں ہندو سیکولر آئیڈیالوجی پر  یقین رکھتے ہیں۔ مگر اس تلخ حقیقت سے انکاربھی نہیں کیا جا سکتا ہے ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ بڑی تیزی سے فرقہ وارانہ ذہنیت کا شکار ہو رہا ہے، جس کے مرکز میں مسلمان ہیں۔

میڈیا کا رول بڑا منفی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ نیوز چینلز زیادہ وقت حکومت وقت کا پروپیگنڈا مشین بن کر خبریں براڈکاسٹ کرتے ہیں۔ تبھی تو سماج کا ہر طبقہ خواہ وہ امیر ہو یا غریب، اعلیٰ ذات کا ہو یا پسماندہ ذات کا، مسلم مخالف پروپیگنڈے سے بیمار ہو رہا ہے۔ملک اور ملک سے باہر مقیم ہندوستانیوں میں بھی یہ منفی ذہنیت پھیل رہی ہے۔ میرے ایک پڑھے لکھے اور اچھی نوکری کرنے والے جاٹ دوست جو امریکہ میں رہتے ہیں، اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ بھارت کی تمام بُرائیوں کے لیے گاندھی، نہرو، کانگریس قصوروار ہیں۔ اس کے فوراً بعد اُنہوں  نے کہا کہ بر سر اقتدار بھگوا جماعت ہی مسلمانوں کو درست کر سکتی ہے۔

میں کانگریس پر تنقید کرنے سے کسی کو نہیں روکتا۔ مجھے بھی لگتا ہے کہ کانگریس نے بعض موقعوں پر عوام کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے۔ مگر یہ بات بھی تو سراسر غلط ہےجب گاندھی، نہرو کو برا بھلا کہنے والے ساورکر اور گوڈسے کی تعریف میں ساری حدوں کو پار کر جاتے ہیں۔

میری اس تحریر کا نچوڑ یہ ہے کہ بھگوا طاقتوں کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے پروپیگنڈے کو عوام تک پھیلا دیا ہے۔ اس پروپیگنڈا کے مرکز میں مظلوم ہندو اور ظالم مسلم کا  امیج ہے۔ جب تک اس بیانیے کو نہیں بدلا جائے گا تب تک فرقہ پرست طاقتوں سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مضمون نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ ٔتاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply