خٹک “ہُوا” ہے

اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کبھی بھی اچھے انسانوں سے خالی نہیں رہی ۔ہمارے مشاہدے میں ایک اور بات بھی آئی ہے کہ یہ دنیا خٹکوں اور مٹکوں سے کبھی بھی خالی نہیں رہی -اسی لئےلالہ خٹک کولہے مٹک مٹک کر چلنے والی ناریوں کے رسیا ہیں شائد۔ اسی تسلسل میں اچھائی والے خانے میں آپ ہمیں رکھ لیں جس میں چنداں مضائقہ نہیں اور خٹک یات والے خانے میں خٹک لالہ کو رکھ لیں – انکی مبارک آمد پر جو ایک انوکھا کام ہوا وہ یہ تھا کہ گھر میں سب سے موٹی چیز بھینس تھی جو انکی آمد کے ساتھ ہی فوراََ بیٹھ گئی – شاید بے زبان نے اپنی حس سے بھانپ لیا ہو کہ اس گھر میں کون تشریف لایا ہے بہرحال جو بھی آیا ہے ،ہے موٹی چیزوں کا دشمن-یہاں آپ شک میں پڑ سکتے ہیں کہ موٹی دو شیزاؤں پر تو واری جانے کی بات سمجھ آسکتی ہے مگر انکی پیدائش پر بھینس کو فوراََ سے کیا خطرہ لاحق ہو گیا تھا جو سنبھل کر بیٹھ گئی تو اس پر عرض ہے کہ خٹک لالہ کا قول نامعقول ہے کہ موٹاپا ہو اور بہت ہو بھلے وہ بھینس ہی ہو –
گاؤں میں میسر تمام اساتذہ نے خٹک صاحب کو پڑھانے کی کوشش کی مگر بالآخر بات وہیں پر ختم ہوتی یعنی ان سب کو خٹک لالہ نے پڑھایا کہ یوں نہیں یوں ہے – البتہ گاؤں میں موجودتمام استانیوں میں سے ایک استانی ایسی تھی جنکے پاس خٹک لالہ ادب و احترام سے بیٹھ کر پڑھتے تھے بس کبھی کبھار تبرک کے طور پر استانی کو ایک آدھ چٹکی کاٹ لیتے اور نشہ پورا ہوتا رہتا – درایں معاملہ جب قبلہ والد صاحب جو فوج میں ملازم تھے،تحقیق و تفتیش کی تو ان پر حقیقتِ موٹاپا منکشف ہوئی – کہتے ہیں شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے یہی معاملہ لالہ کے ساتھ ہوا – خٹک لالہ اپنے والد محترم کو یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے کہ آپکے لعل کی تعلیم و تربیت کے لئے سر زمین روس سے بہتر کوئی جگہ روئے زمین پر دستیاب نہیں – یوں آپ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے روس تشریف لے گئے اور وہاں پر آپ نے بہت کچھ اکتسابی اور مال دستیابی حاصل کیا ،ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی تعلیم بھی بہرحال ضرور حاصل کی – روس چونکہ انتہائی سرد واقع ہوا ہے اور روسی نہانے سے پرہیز ہی کرتے ہیں اور شراب کو آکسیجن جتنا ضروری سمجھتے ہیں بس اسی کارن خٹک لالہ وہاں سردی سے بچنے کے لیے کسی بھی موٹی روسی حسینہ کے پہلو میں چھپے رہتے تھے ۔البتہ شراب جیسی حرام چیز سے شدید چڑ ہونے کے باعث اپنا نشہ نسوار سے ہی پورا کرتے رہے – تعلیم پوری کی تو پورے کی بجائے پونے واپس پاکستان آگئے یعنی مونچھوں سمیت، آنجناب کی مونچھیں بھی اپنے اندر انکی طرح ایک دلکش ٹیڑھا پن رکھتی ہیں-
پاکستان آکر انہوں نے اپنی کارستانیوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی جس کے معروف اقتباسات گاہے بگاہے وہ پیش کرتے رہتے ہیں۔ کتاب کا نام خٹک نامہ ہے اور تاحال غیر مطبوعہ ہے تاکہ چند مؤخر شدہ کارنامے انجام دے کر انکو بھی خٹک نامے میں شامل کر لیں تب ہی اس جداگانہ کتاب کو شائع کیا جائے گا – مردوں کا یہ معاملہ رہتاہے کہ اکثر حسن پرست واقع ہوتے ہیں مگر خٹک لالہ موٹاپا پرست واقع ہوئے ہیں بھلے وہ دوشیزہ ہو یا بھینس ، بہرحال موٹاپا شرط ہے -خٹک لالہ لکھتے کم ہیں مگر چونکہ واہیات موضوعات سے ہمیشہ پرہیز کرتے ہیں تو کافی تعداد میں خواتین پرستار پائی ہیں بلکہ چند ایک تو شدید قسم کی عاشق بھی دیکھی گئی ہیں ۔اس معاملے میں لالہ کے کھوپچھے پر رشک آتا ہے واللہ کیا آباد چمن جیسا ہو گا وہ جہاں قسم ہاقسم کی پریاں ریل کی رفتار سے آتی ہیں اور موٹاپے کی فرمائش سن کر ہوائی جہاز کی رفتار سے اڑنچھو ہو جاتی ہیں – اب دیکھیے میں نے اتنا سارا رائتہ پھیلا دیا ہے اور اصل بات کہیں بیچ میں ہی رہ گئی ہے ، یعنی کہ آج خٹک لالہ کی سالگرہ ہے اور وہ اسی تاریخ یعنی پانچ مئی کو جہان فنا میں وارد ہوئے تھے – ایک ایسا خوبصورت شخص جس کے الفاظ میں شرارت ہی شرارت ہے، جسکے انداز میں محبت ہی محبت ہے، نرا خلوص ہے، یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کبھی ملیں خٹک لالہ سے اور آپ اس انسان کی بیش بہا محبت کے سحر سے نکل سکیں – فی زمانہ ایسا زندہ دل، انسان دوست مل جانا ایک نعمت ہے – میں تو خیر جتنی محبت کرتا ہوں اسکا اظہار بارہا کر ہی چکاہوں بہرحال پھر بھی نہایت ادب و محبت سے لالہ کو بہت بہت سالگرہ مبارک ہو..

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply