سیاہ پڑتی ریڈ لائن/سیّد مہدی بخاری

سپیرا بین بجاتے مجمع کو اپنے ساتھ ریڈ لائن پر لے گیا اور مجمع مست تھا، اتنا مست کہ اگر سپیرا بین رکھ دیتا تو مجمع اسی پر ٹوٹ پڑتا۔ ریڈ لائن تک لے جانا تو آسان تھا مگر بِنا تیاری، بِنا ذہن سازی کے یہ عمل کارِ بیکار تھا اور وہی ہُوا ہے۔ طاقتور سے اختیار لینے کو، نظام بدلنے کو یا تانا شاہی سے جُوجنے کو پہلے قوم کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ بیج بونے سے قبل زمین ہموار کرنا ہوتی ہے۔ قوم کو صاف بتانا ہوتا ہے کہ دیکھو اس راہ میں یوں بھی ہو سکتا ہے اور ووں بھی۔ پھر جب خلقت سب جانتے ہوئے نکلتی ہے تو نظام بدلے جاتے ہیں۔ یہاں مسئلہ یہ تھا کہ خان صاحب اسی نظام کا حصہ بننے کو بیتاب تھے اور سٹریٹ پاور دکھا کر “اُن” کی توجہ کے طالب تھے۔

لینن جب اُٹھا تو اس نے کہا کہ وائٹ آرمی (زارِ روس کی فوج) تمہاری عورتوں کو اُٹھا سکتی ہے۔ تمہارے بچے مارے جائیں گے۔ تمہاری زمین پر قبضہ ہو جائے گا۔ خلقت جب لینن کے لیے نکلی تو سب جانتے ہوئے نکلی اور پھر ریڈ آرمی (لینن کے سپاہی) نے روس کا نقشہ بدل دیا۔اس کے پیچھے لینن کی دس سالہ مشقت تھی۔ آپ روس کی تاریخ دیکھ لیں۔

خمینی نے فرانس سے آڈیو پیغامات ریکاڑ کروا کے دس سال زمین ہموار کی اور پھر جس دن خمینی تہران میں لینڈ ہُوا ،شاہ ایران کا دھرن تختہ ہو گیا۔

تُرکی میں ٹینکوں کے آگے لوگ یونہی نہیں لیٹ گئے تھے۔ سوشل ویلفیئر پارٹی کے طیب اردوان نے ترک عوام کا مفاد معیشت کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ ان کا معیار زندگی بلند کیا تھا اور یہ مشقت بارہ سالوں پر محیط تھی۔ وگرنہ تو ترکی میں اس سے قبل چار مارشل لاء لگ چکے تھے۔ کوئی باہر نہیں نکلا تھا۔ اردوان کے لیے عوام نکلی تو اس کی وجہ نظام جمہوریت اور اس کے ثمرات کا عوام تک پہنچنا تھا۔

ابھی تو ٹینک بھی نہیں آئے۔ ابھی تو فوجی سامنے بھی نہیں آئے اور “حقیقی آزادی” کو قبض ہو گئی،سناٹا چھا گیا۔ وجہ یہ کہ قبلہ نے اپنی فالونگ کو بس نعرے سکھائے تھے اور کچھ نہیں۔ ظلم ہو گیا ؟ ہاں بالکل ہُوا۔ تو کیا آپ کو لگتا تھا ایسا نہیں ہو گا ؟ کیا یہ سوچ تھی کہ بس ہنستے گاتے ، اُچھلتے کودتے الیکشن ہوں گے اور پھر رانجھا تخت ہزارے جا بسے گا ؟۔

اچھا تو کیا یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ عورتوں کے ساتھ دست درازی ہوتی ہے اور فورسز کر گزرتی ہیں۔ کیا حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ تا فاٹا تا بلوچستان تا سندھ فوجی آپریشنز کو بغور پرکھا تھا ؟۔ نہیں! آپ تاریخ سے شناسا ہی نہیں تھے۔ آپ بس نعروں کے ورغلائے تھے اور مجھے آپ سے مکمل ہمدردی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جب بھی بڑے ہو کر شعور آئے تو آس پاس  کی دُنیا اور اس کی پتھریلی حقیقتوں کو دیکھ کر دماغ کی جالا بند کھڑکیاں صاف کر لیجیے گا۔ سب صاف نظر آئے گا۔ نان سیریس رویہ خود ہی ترک ہو جائے گا۔ ابھی دو دن قبل تک غیر سنجیدہ رویہ اپنائے ہوئے کارکنان تھے، جو کہہ رہے تھے “فلاں کونسلر نے بھی پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کر دیا”۔ “فلاں اداکار نے چھوڑ دی”۔ “میسی نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا”۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ دو دن بعد چُپ لگ گئی ناں ؟۔ سطوت و جبروت کے آگے ٹھہرنا موت سے گزرنے کا دوسرا نام ہوتا ہے۔ ٹھنڈا ہو گیا ٹوئٹر، ٹرولرز کا بھرتہ بن گیا، اُڑ گئے پرندے۔ سونیاں ہو گیاں گلیاں۔ دعا کرو کہ وہ وقت نہ  آئے جب قبلہ خان صاحب سے ٹکٹ لینے والا کوئی  نہ  ہو۔ کیونکہ یہاں جان، مال اور اولاد سب کو عزیز ہے۔ یہ انقلابی دھرتی ہے  نہ  قوم سازی ہے۔ موج مارو تے آئندہ واسطے سبق حاصل کرو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply