اختتام کی جانب گامزن”تحریکِ انصاف”/جمیل آصف

پی ٹی آئی جس تطہیر کے عمل سے گزر رہی ہے ۔یہ کوئی قابل تحسین بات نہیں۔ بیشتر نظریاتی اور سیاسی اختلاف کے باوجود کسی بھی جمہوری پارٹی کا ایسے حادثے سے دوچار ہونا جمہوریت اور ملک کی جمہوری قوتوں کے لیے ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوا ہے ۔

اس سارے عمل میں دیکھا جائے تو بیرونی عوامل کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف کی طرز سیاست، کارکنوں کی تربیت، راہنماؤں کے رویے اور خود عمران خان صاحب کی متضاد شخصیت کا بنیادی کردار ہے ۔

سیاست اور عسکریت دو الگ چیزیں ہیں سیاست دان ہمیشہ لچک کے ساتھ وقت، موقع محل کے مطابق سیاسی انداز میں اپنی جدوجہد کرتا ہے ۔یہی کچھ اپنے کارکنوں کو سیکھاتا ہے ۔معاونین اور مشیروں کا چناؤ بہت سوچ سمجھ کر کرتا ہے ۔انکی نظریاتی تربیت کرتے ہوئے ہر پہلو کو مدنظر رکھتا ہے ۔

سیاست کے مکالمے میں مخالفین کی دلیل کا جواب مدلل اور سلجھے انداز میں بیان کرتا ہے ۔حالات حاضرہ کے مطابق اپنی پالیسیوں کو بناتا ہے ۔اس کے لیے ایک الگ سے بہترین افراد پر مبنی تھنک ٹینک قائم کرتا ہے ۔

اسی بنا پر سیاسی جماعتیں، ان کے بانی اور راہنما ہر دور میں موافق اور غیر موافق حالات کے باوجود سیاست کے میدان میں اپنا وجود برقرار رکھ پاتے ہیں ۔

انہیں اپنی حدود، سیاسی جدوجہد اور ریاستی بغاوت کے مابین فرق کا بخوبی ادارک ہوتا ہے ۔ان ریڈ لائنز کا خود بھی خیال رکھتے ہیں اور اپنے کارکنوں  کو بھی ان حدود سے آگے بڑھنے نہیں دیتے ۔
کیونکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخصیت ریاست سے بالاتر نہیں ہوتی ہے ۔انہیں علم ہوتا ہے کہ ریاست خود پر بوجھ بننے والے عناصر کو ایک حد کے بعد اتار پھینکتی ہے ۔ان کے مقام، مرتبے، شخصی قد کاٹھ ریاستی پالیسی کے آگے بے معنی ہو جاتے ہیں ۔
تاریخ بیشتر ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔

اس لیے شدید ترین جبر کے باوجود کسی بھی سیاسی پارٹی نے ہمیشہ بلٹ کے مقابلے میں بیلٹ کے ذریعے ہی منزل حاصل کی ۔کیونکہ سیاست کا ہتھیار بلٹ نہیں بیلٹ کی پرچی ہے ۔

ہر سیاست دان یہ ہی سمجھتا ہے جس نے بھی بیلٹ پیپرز کے راستے کے بجائے بلٹ کا راستہ اختیار کیا تو ریاست اپنے تمام تر اختیارات کے ساتھ اس کے سامنے کھڑی ہو گئی گی ۔
ہر بغاوت کی پھر اسے قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔حتی کہ وہ شخصیت اور اس کے چاہنے والے قصہ پارینہ بن جاتے ہیں ۔

حالیہ ملکی سیاسی تبدیل ہوتے منظر نامہ میں خان صاحب نے یہی غلطی کی، 27 سالہ سیاسی جدوجہد میں نظریاتی اور فطری ساتھیوں کے ساتھ آگے بڑھنے کے بجائے مصنوعی اور غیر فطری سہاروں کے ساتھ اقتدار کے حصول میں بیشتر سیاسی غلطیوں کے مرتکب ہوئے ۔
جس کی بدولت جماعت کا وجود ہی اب خطرے میں پڑ گیا  ہے۔

خوشامدی اور موقع پرست لوگ عمران خان کو بند گلی میں چھوڑ کر غائب ہونا شروع ہو گئے  ہیں۔
یہی لوگ تھے جنہوں نے خان صاحب کو مافوق الفطرت مخلوق بنا کر انہیں ریاست سے بالاتر شناخت دے کر ان سے سیاسی تدبر اور فہم و فراست کی صلاحیتوں کو چھین لیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہی سوچ تھی جس پر وہ ریاست کے مضبوط مرکز سے ٹکرا بیٹھے اور ملک کے محسنین کی بے حرمتی کے مرتکب ہوئے ۔جماعت کی مقبولیت کے عروج پر جلد بازی میں ایک احمقانہ طرز عمل سے اب وہ اور انکی جماعت کے احباب زمین بوس اور تنہائی کا شکار بے بس پرندے کی  مانند بلی کے منتظر ہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply