پہلی جنگ عظیم (ساتویں قسط)ناکہ بندی۔۔۔۔آصف خان بنگش

ناکہ بندی – (Blockade)

اگست 1914 میں دو عظیم بحری افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھیں۔ رائل برٹش نیوی کا سامنا جرمن بیڑے سے تھا لیکن یہ بیڑے بہت کم مواقع پر آمنے سامنے آئے اور ایک نئی قسم کی جنگ کا آغاز ہوا جو کہ خفیہ اور زیادہ بھیانک تھی۔ برطانوی ایچ ایم ایس ڈریڈناٹ (HMS Dreadnought) ایک بینچ مارک تھا – یہ بھاری اسلحہ سے لیس اور تیز رفتار تھا۔ جرمنی کے پاس ان کی تعداد 13، ہنگری کے پاس 3، امریکہ 10 اور برطانیہ 20۔ جرمن بیڑے کو بحیرہ شمال میں رائل نیوی نے روکے رکھا تھا، جنوب میں چینل مائینز سے بھرا پڑا تھا۔ برطانوی جرمن بیڑے پر حملہ آور نہیں ہو سکتے تھے جب تک وہ اپنے محفوظ بیس سے باہر نہیں آجاتا۔ لیکن اگر وہ بحیرہ شمال میں ٹکراتے ہیں تو اس کا انجام انتہائی بھیانک ہوگا جس کا سب کو ادراک تھا۔ جرمن کا یہ بھی خیال تھا کہ سب میرین اور ٹورپیڈوز کا استعمال ان کے حق میں ہوگا۔ مارو اور بھاگ جاؤ کے اصول پر یہ جنگ قاعدہ قانون سے ماورا تھی۔ سب میرین آنے والے وقت کا ایک اہم اور طاقتور ہتھیار تھا۔

یہ بھی پڑھیے: پہلی جنگ عظیم(چھٹی قسط) وردون، سوم اور ڈیڈلاک کا خاتمہ۔۔۔۔آصف خان بنگش
جنگ کے شروع سے ہی جرمنی نے 10 یو بوٹس بحیرہ شمال میں اتار دی تھی جن کا نشانہ برطانوی بیڑا تھا۔ یو 21 فرتھ آف فورتھ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی جہاں برطانوی کروزر (HMS Pathfinder) پاتھ فائنڈر روزیتھ بیس کو چھوڑ رہا تھا۔ یو 21 نے اسے ایک ہی ٹورپیڈو سے شکار کر لیا۔ یو 9 نے برطانوی کروزرز ہاگ، ابوکیر اور کریسی (Hague, Aboukir, Cressy) کو ڈچ کوسٹ پر پا لیا۔ اور ایک ہی یو بوٹ نے 3 جہازوں کو سمندر میں غرق کر دیا۔ ونسٹن چرچل (First Lord of Admiralty) تھے اور ان پر ذمہ داری ڈالی گئی۔ جرمن کا انحصار یو بوٹس، مائینز اور ٹورپیڈوز پر تھا اور اس میں اسے مخالف پر سبقت حاصل تھی۔ جرمن اب سکاربرو اور ہارٹلپول (Hartlepool) پر حملہ آور ہوئے۔ اس حملہ میں 122 لوگ مارے گئے۔ یہ پہلی بار تھا کہ 100 سالوں میں کوئی برطانوی زمیں پر حملہ آور ہوا تھا۔ برطانیہ کا جواب الگ تھا وہ براہ راست حملہ آور ہونے کی بجائے جرمنی کی ناکہ بندی کرنے لگے جو کہ جرمنی کو بھوک سے مارنے اور اسے اپاہج کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہوئے۔ بحیرہ شمال اب ایک مردہ سمندر بننے والا تھا، جرمن بیڑے کو خوراک اور سامان جنگ کے حصول سے روک دیا گیا تھا۔

برطانیہ کو ایک نئی ایجاد کی مدد حاصل تھی، یہ ان کا وائرلیس نیٹ ورک تھا۔ ہر روز وہ جرمن ریڈیو کے سگنل وہ پا لیتے اور انہیں کوڈ بریکرز کو بھیج دیتے جو نیول ہیڈ کوارٹر کے کمرہ نمبر 40 میں موجودتھے۔ ایک جرمن کروزر روسیوں کے ہاتھ لگا اور اس سے انہوں نے ایک قیمتی دستاویز حاصل کی جسے برطانیہ بھیجا گیا۔ یہ ایک کوڈ بک تھی جسے کمرہ نمبر 40 میں موجود کوڈ بریکرز کو قریب ہر جرمن پیغام تک رسائی مل گئی تھی۔ برطانیہ کی سمندری مہم صاف ظاہر تھی کہ وہ اپنے دشمنوں کو معاشی طور پر مفلوج کرنا چاہتا تھا۔ ناکہ بندی مورس ہینکی () کا منصوبہ تھا جو کہ شاہی دفاعی کمیٹی کے رکن تھے، اس کا کہنا تھا کہ جنگ کا فیصلہ معاشی قوت کرے گی۔ جرمنی نے جنگ 40 لاکھ ٹن کے مرچنٹ بیڑے کے ساتھ کی تھی جو وقت کے ساتھ مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ صرف 8 اگست 1914 کو جرمنی 41 جہاز کھو بیٹھا تھا۔ یہاں تک کہ برطانیہ نے غیرجانبدار ممالک جیسے ہالینڈ، ڈنمارک اور سویڈن کو بھی جرمنی کے ساتھ تجارت سے روک دیا تھا۔ اس کا خفیہ نیٹ ورک ہر دم یہ معلومات حاصل کررہا تھا کہ کون سا ملک کہاں کیا بھیج رہا ہے۔ چند ہی ہفتے گزرے تھے کہ جرمن حکومت نے خوراک کے لئے راشن کارڈ بنوانا شروع کر دیئے۔

کیرولین ایتھل کوپر (Caroline Ethel Cooper) ایک آسٹریلوی خاتون تھی جو لیپزگ (Leipzig) میں پھنس گئی تھی، اپنی بہن کو لکھتی ہے “پیاری ایمیلی، حکومت نے روٹی آٹا اور خوراک کی سپلائی بند کر دی ہے۔ ہمیں ایک وقت میں صرف 4 پاؤنڈ روٹی اور 1 پاؤنڈ آٹا ملتا ہے”۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے جرمنی نے ایک 200 فٹ سب میرین ڈیوشلینڈ (Deutschland) امریکہ کے لئے روانہ کی جس میں 1000 ٹن کارگو لے جائی جا سکتی تھی۔ پہلی بار کوئی سب میرین بہراوقیانوس پار کرنے چلی تھی۔ امریکہ اس وقت جنگ میں نہیں کودا تھا۔ 80 لاکھ امریکی جرمن نژاد تھے اور 45 لاکھ آئرش تھے، جن کے دل میں انگلینڈ کے لئے کوئی محبت نہیں تھی۔ جنگ کی شروعات میں ہزاروں امریکیوں نے جرمن آرمی میں بھرتی کیلئے نام لکھوائے تھے۔ امریکہ اس وقت ایک معاشی طاقت کے طور پر ابھر رہا تھا۔ برطانیہ کا آدھا جنگی خرچ امریکہ چلا رہا تھا۔ ڈیوشلینڈ کامیابی سے امریکہ پہنچ گئی اور وہاں سے ربر اور نکل (Rubber and Nickle) لے گئی۔ اس کا واپسی پر شاندار استقبال کیا گیا۔ لیکن یہ ناکہ بندی کا توڑ نہیں تھا۔ بھوک کی وجہ سے حالت خراب ہوچکی تھی۔ آلو کے لئے قطار میں ہزاروں لوگ صبح سے شام تک انتظار کرتے کچھ تو کرسیاں اور تکئے ساتھ لے جاتے اور وہیں آرام کرتے۔ 1916 میں فصل سردیوں میں نہیں ہوئی اور لوگ جانوروں کا چارہ کھانے پر مجبور ہوئے۔ اس سال خوراک کی وجہ سے 50 بار ہنگامے ہوئے۔ کوئلے کی کمی سے سکول، کارخانے بند ہونے لگے۔ جرمن نیوی نے ناکہ بندی توڑنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔

1916 مئی کے مہینے میں جب حالات بہت خراب ہوئے تو جرمن بیڑا رائل نیوی سے ٹکرانے نکلا لیکن برطانیہ اب ایک ہاتھ آگے تھا۔ کمرہ نمبر 40 میں موجود لوگوں نے تمام پیغام ڈی کوڈ کیے اور رائل نیوی نے انہیں رستے میں ہی آ لیا۔ اب دنیا نے جٹ لینڈ (Jutland) کے مقام پر عظیم سمندری لڑائی دیکھی۔ 250 جہاز، 1 لاکھ سپاہی۔ یہ لڑائی برطانیہ کو جیتنی تھی کیونکہ اگر جرمنی ناکہ بندی توڑ دیتا ہے تو اس کی فوج یورپ میں تنہا رہ جائے گی اور برطانیہ پر حملے کا جواز پیدا ہو جائے گا۔ اس لڑائی میں گو نقصان برطانیہ کا زیادہ ہوا اس کے 14 جہاز اور 6000 لوگ مارے گئے جبکہ جرمنی کے 11 جہاز اور 2500 لوگ مارے گئے لیکن جرمنی پسپا ہوا۔ اب جرمنی نے برطانوی مرچنٹ جہازوں کو روکنے کےلئے یو بوٹ کمپین شروع کی۔ گو اس پر کچھ جرمن راضی نہ تھے کہ دنیا میں وہ تنہا رہ جائے گا لیکن برطانیہ کی طرف سے مرچنٹ جہازوں پر خفیہ توپیں اور دوسرے ملکوں کے پرچم لہرا کر کارروائی کے بعد جرمنی نے بھی مرچنٹ جہاز ڈبونا شروع کیے اور برطانیہ پر خوف طاری کردیا۔ جس کے نتیجے میں نئے جہاز بنائے گئے جو تیز رفتار تھے اور یو بوٹس کو نشانہ بنانے میں بہتر تھے۔

1915 میں کائزر نے برطانیہ کے گرد تمام پانی کو وار زون قراد دیا اور کسی بھی جہاز کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی اور خلاف ورزی کرنے پر مار گرانے کی دھمکی دی چاہے وہ مسافر جہاز ہوں۔ لوزیتانیہ (Lusitania) دنیا کا سب سے بڑا لگژری لائنر تھا جو 2000 مسافر کو لیجا سکتا تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ خطرہ ہے نیویارک سے لیورپول کے لئے روانہ ہوا۔ 7 مئی کو آئرش کوسٹ پر جرمن ٹورپیڈو کا نشانہ بن گیا۔ 1200 لوگ مارے گئے جس میں 128 امریکی بھی تھے۔ جہاں محاذ پر ہزاروں لوگ روزانہ مر رہے تھے وہاں یہ 1200 ان پر بھاری پڑ گئے۔ جرمنی کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ واشنگٹن میں جرمن ایمبیسی کو بم دھماکے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ لیکن امریکہ فوری جنگ میں نہیں کودا، اسے اپنا معاشی مفاد عزیز تھا۔ جرمنی کے کچھ ایجنٹ بھی امریکہ میں کاروائیاں کرتے پکڑے گئے اور ملک بدر کیے گئے۔ امریکہ میں اکٹھا کیا جانے والا سرمایہ 99 فیصد اتحادیوں کے لئے تھا جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکہ کس حد تک غیر جانبدار تھا۔ دسمبر 1916 میں جرمنی نے اتحادیوں کو ایک امن کا پیغام بھیجا لیکن وہ فرانس نے ٹھکرا دیا۔ جہاں یوبوٹ کمپین نے برطانیہ کو پریشان کیا وہاں صرف اس پر انحصار کافی نہیں تھا کیونکہ اب مرچنٹ جہاز کانوائے میں حرکت کرتے اور محفوظ رہتے۔ 1917 میں 63 یو بوٹ ڈبوئی گئیں۔ جہاں یوبوٹ کمپین سے امریکہ کو جنگ میں کودنے کا جواز ملا وہاں اس کی ناکامی سے جرمنی اب بالکل اکیلا رہ گیا۔

16 جنوری 1917 کو جرمن خارجہ سیکٹری زمرمین (Zimmerman) نے میکسیکو سٹی میں اپنے سفیر کو تار بھیجا جو کہ کمرہ 40 میں انٹرسیپٹ ہوا۔ گو اسے ڈی کوڈ کرنے میں 2 ہفتے لگے لیکن یہ جنگ کی سب سے اہم انٹیلی جنس معلومات تھیں۔ اس میں میکسیکو کو امریکہ کے خلاف ابھارا گیا تھا کہ وہ حملہ کر کے ٹیکساس، اریزونا اور نیو میکسیکو ہتھیا لے گا۔ میکسیکو پہلے ہی حالت جنگ میں تھا اور انقلاب کے سے حالات تھے وہ اور جوکھم نہیں لے سکتے تھے لیکن یہ برطانیہ کیلئے ایک تحفہ تھا جو اس کو جواز بنا کر امریکہ کی غیر جانبداری کو ختم کروا سکتا تھا۔ اب امریکہ میں اس کو بنیاد بنا کر رائے عامہ ہموار کی گئی۔ صدر ولسن نے 6 اپریل 1917 کو جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply