قدیم یونان کا تمدن ۔۔۔۔۔۔ اجمل صدیقی

بحیرہ روم   ایک ہتھیلی کی پھیلا ہوا ہے۔ جنوبی حصہ خشکی سے متصل ہے مشرق اور مغرب سمندری جزائر سے اور سامنے شمال میں بحر روم بہہ رہا ہے۔براعظمی حصہ سطح مرتفع چھوٹے دریاوں  سے بھرا ہے اور شہر قدرتی پہاڑی خلیجوں سے الگ الگ ہیں۔شاہ بلوط، زیتون، انگور اور انجیر کثرت سے ہوتے ہیں ۔مغرب میں ایک سلسلہ کوہ ہے  جہاں اولمپس کا صنمیاتی پہاڑ ہے جہاں پر ہر وقت بادل چھائے رہتے ہیں سامنے نیلگو ں  بحر روم اور سفید سنگ مر مر کی کثرت اور بحروم کی کلائمیٹ climate نے یہاں کے باشندوں کو جمال پرست اور مظاہر کا مشاہدہ کرنے  کا عادی بنادیا ہے اس ماحول میں یونان کے تمدن نے جنم لیا۔۔۔۔
اپنی معاصر اقوام کی طرح یونانی بھی مظاہر پرست تھے۔انہوں نے مظاہر کی تجسیم کاری personification انسانی فطرت کو پیش نظر رکھ کی ۔مظاہر کے علاوہ جذبات کے بھی اصنام تراشے ۔قدیم زمانے میں ان سے زیادہ کسی قوم نے personification سے کا م نہیں لیا۔
یونانی بڑے تخیل آفریں اور طباع تھے
ہومر کی ایلیڈ اور اوڈیسی۔۔ہیسیڈ کی theogony اورworks and daysتو ان کے ہاں بائبل ہیں ۔
ان میں زندگی کے بڑے حقائق اور بصائر ، جذبات کی کشمکش اور   مظاہر کی  تفسیر بڑے  زوردار تخیل سے کی گئی ہے۔
ان کے ہاں “خالق “کا تصور نہیں تھا صرف ناظم کا ہے وہ سمجھتے تھے کہ کائنات نے دیوتا titan پیدا کیے  اور دیوتاوں  نے انسان کو پیدا کیا۔
ان کے خداؤں اور انسان میں زیادہ بعید نہیں ۔سارے خداشجرے سے منسلک ہیں ۔خداؤں میں incest ناجائز تعلق عام ہے ۔
تہذیب کے ارتقا سے خدا کے مراتب بھی بدل جاتے ہیں ۔سب سے زیادہ رشتے جائز اور ناجائز zeusکے ہیں ۔
وہ مرکزی خدا ہے۔یورانس اس کا دادا ہے۔گی دادی ہے۔کرونس اس کا باپ ہے۔hadesزیوس کا بھائی ہے۔پوسائیدان سمندر دیوتا  بھی بھائی ہے۔اپالو بیٹا ہے۔آئرس بیٹا ہے۔ہیرا hera بیوی ہے۔ہرمیز hermes بیٹا ہے۔افرودائتی Aphrodite بیٹی ہے۔آرٹیمس Artemis بیٹی ہے۔ہے فیٹیسس haephetus بیٹا ہے۔ایتھینا بیٹی ہے۔یہ سب دیوتاوں  کا شاہی خاندان ہے ۔۔۔۔لیکن کچھ  دیوتا دخیل ہیں جیسے۔۔ دیو نائسس،دی میتر،پرومیتھیس,eros
helios سورج
pan جنگلی حیات،hestia
selene چاند کی دیوی
Persephone زرخیزی
Pandora پہلی فانی عورت
Hercules سورما
ascuplius طبیب اعظم ،پہلی قسم کے دیوتا،دیوی اور دیوتا کے جنسی اختلاط سے پیدا ہوئے۔دوسرے قسم کے دیوی دیوتا،انسان اور دیوتا کے جنسی اختلاط سے پیدا ہوئے ۔
زیوس پہلے بادل اکٹھے کرتا تھا پھر اپنے ترشول سے پھاڑ کر بارش برسا تا تھا ۔لیکن یہ سارے دیوتا تین بہنوں( تقدیر )fatesکے آگے بے بس تھے ۔
جس میں ایک زندگی کا دھاگا کاتتی تھی دوسری اسے قائم رکھتی اور تیسری اسے کاٹ دیتی تھی ۔یونانی تقدیر پرست تھے ۔

اساطیر یونان  دیگر آریائی اقوام کی طرح یونانی بھی آگ کو مرکزی حیثیت دیتے  تھے ۔ مرنے کے بعد تجہیز کے لئے مردے کے منہ میں سونا رکھتے تھے ۔ مردوں کو جلاتے بھی تھی۔ایک مذہبی پروہت “آرکن” یہ رسوم ادا کرتا تھا۔ ڈیلفی سے فال لیتے تھے۔ زیوس نے تقسیم کیلئے قرعہ اندازی کی تھی پوسائیدان کو سمندر ،ہیڈز کو تحت الثری اور زیوس کو آسمان ملا تھا۔
زیوس اگرچہ رب الارباب تھا لیکن باقی کم نہ تھے اپالو اس کا بیٹا نور وصداقت مردانہ وجاہت کے علاوہ با کمال مغنی تھا اپنے سنہری بربط سے انفس وآفاق کو مبہوت کردیتا تھا آرئیس جنگ دیوتا تھا ہسٹیا کنواری اور باعفت تھی جس کے معبد میں آگ چولہا ہمیشہ روشن رہتا یہ پورے سفید کپڑوں میں ملبوس ہوتی تھی چھ دیو داسیاں ہر وقت اس کی خدمت پر مامور رہتی تھیں ۔

اتھینا تمدن،جنگ اور صنعت کی دیوی تھی ۔یہ سب دیوتا انسان کے ساتھ مداخلت کرتے تھے حسد بھی کرتے تھے ۔ اپالو اور زیوس تو بلا کے” ٹھرکی ” بھی تھے ۔
افرودایتی کا بیٹا ایروس ہر وقت اسے مبتلائے عشق رکھتا تھا ۔ دیئو نائسس شراب کا دیوتا ۔جس کے بارے میں ان کاخیال تھا کہ اس نے اپنی جان کی قربانی دے کر نوع انسانی کو  بچا لیا۔ اس کے دوبارہ جی اٹھنے کی بڑی داستانیں  تھیں۔ بہار کی آمد بھی اس سے منسوب تھی وہ جوش وخروش حیات کا نمائندہ تھا ۔

اس کے ماننے والی زیادہ تر منچلی عورتیں تھیں جو شراب میں مست ایک بکرے کو پکڑ لیتں” بکرا ” بہت جنسی ہوتا ہے جو جانور جتنا جنسی ہوتا  اتنا زرخیزی مت میں مقبول ہوتا ہے اس لیے  یہ دئیو ناسیس کا اوتار تھا وہ پہلے اس کے جسم کو اپنے دانتوں سے پھاڑ دیتی پھر اس کی بوٹیوں  کو اپنے برہنہ جسم سے لگا کر دیئو نائسس کو یاد کرتی تھیں ہمارے “بکرے کی سری ” اسی کی مقدس یاد گار ہے۔
وہ سمجھتی تھیں ایسا کرنے سے  دئیوناسس ان میں “حلول”کر جاتا ہے۔

یہی تصور عشائے ربانی کی رسم میں شامل ہو گیا ۔ جس میں روٹی مسیح کا گوشت اور شراب کو ان کا خون تصور کے پیا جاتا ہے۔ یو نانیوں کا سب بڑا تہوار ڈائیونسائیہ اس سے منسوب تھا جس میں شراب کباب اور شباب مخلوط ہوجاتے اس میں مردانہ عضو کی شبیہ نکالی جاتی اسی طرح کا لنگ لاکٹ گلے میں لٹکاتیں۔ تہوار ایفروڈاسیہ ، جس میں زنانہ عضو کی مورتیاں اور علامتیں اٹھائے رسومات اور ریلیاں نکالی جاتیں  ۔اس دن جنسی پابندی معطل کردی جاتی تھی ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے یہ مادر سری معاشرے کی علامت ہوگی۔رفتہ رفتہ صرف اس  کا جنسی پہلو نمایاں ہو گیا۔کیونکہ یہ بشری کمزوری ہے۔

اہل یونان نے بھی اقوام سلف کی مکمل پیروی کی ہے مگر تخلیقی تر میم بھی کیں، مصریوں کا  تصور خدا “تھیرومارفک” تھا یعنی وہ جانوروں سے خدا کی صفات منسوب کر دیتے تھے لیکن یونانی خدا کی صفات انسان کے آئینے میں دیکھتے تھے یونانی انتھرومارفک تھے ۔
مصری اپنے معبود کو ہائبرڈ دیکھتے تھے البتہ حیوان پرستی یونان میں بھی در آئی۔سانپ ہائیجیا ایتھنیا اسقلا پئس سے  بیل زیوس سے  گائے ہیرا سے  سور دی میتر سے  چو ہا اپالو سے گھوڑا پوسائیدن سے
ہرن آرٹیمس سے  فاختہ ایفروڈائتی سے  گدھ ایئرس سے  بکرا پین سے  ڈی مییتر کی پوجا کی خفیہ انجمن کا نام “کلٹ” تھا اس کا مرکزی خیال تھا کہ انسان مر کر دوبارہ زندہ ہوتا ہے اس کا بانی “آرفیوس “تھا۔ باطنیت اور تصوف ابتدائی سرچشمہ بھی یہی ہے۔

یونان میں ایک سیلاب عظیم کی داستان بھی ملتی ہے کہ ایک شخص “دیو کلئین” او ر اس کی زوجہ کشتی میں بیٹھ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے ۔ان ایک بیٹا “ہیلنے” تھا۔
یونان اپنی آپ کو “ھیلینیز” کہتے ہیں اسی کی اولاد سے سمجھتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یو نانیون کے خیال میں “ہیفائیسٹس” نے عورت کو اپنی بیوی ایفروڈائتی کےنمونے پر اور پرومیتھیس نے مرد کو اپنے نمونے پر تخلیق کیا ۔ پرومیتھیس کے بارے میں ہے کہ اس نے آگ دیوتاؤں سے چرا کر انسانوں کو دی جس کی پاداش میں اس کو زیوس نے ایک چٹان سے باندھ دیا جہاں ایک ایک گدھ ہر روز کا جگر نوچتا تھا اس حالت میں بھی وہ دیوتاؤں کے خلاف نعرے لگاتا رہا ۔ وہ عزم راسخ کی علامت بن گیا اسے ہر کولیس نے وہاں سے چھڑا یا۔۔وہ کارل مارکس کا پسندیدہ کردار تھا۔
جنت ایک ایلوزم کا تصور تھا ۔وہ بھوت پریت کے بہت قائل تھے ۔ ہم کہہ  سکتے ہیں یونانی اپنے طرح کے بڑے مذہبی تھے۔ طبعی حوادث کی تشریح علت ومعلول کی بجائے صنمیات سے کرتے تھے
جب کوئی چیز حد سے بڑھ جائے تو اس کو توازن دینے اس کا متضاد اسی کے اندر سے نکل آتا ہے ایسا ہی ہوا اساطیر کے اندر سے ہی تشکک نکل آیا تھالز نے براہ راست مظاہر فطرت کی تشریح کی ۔۔۔۔ mythos breeds logos
پہلے یہ دونوں ساتھ چلتے رہے لیکن رفتہ رفتہ فلسفہ اساطیر کی جگہ پر آگیا جیسے اب فلسفے کی جگہ پر سائنس آرہی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply