جاگ پنجابی جاگ۔۔۔ نور درویش

“جاگ پنجابی جاگ، تیری ماں بولی تے لایا داغ؟ (پر کِنے لایا اے داغ؟ )”

پاکستان کے ایک معروف تعلیمی ادارے کے ساہیوال کیمپس نے طالب علموں کو فاول لینگویج کے استعمال کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان بولنے سے بھی منع کیا ہے۔ اس کی حقیقیت پسندانہ وجہ کیا ہے؟

دراصل اسکے ذمہ دار سب سے زیادہ خود پنجابی دوست ہیں۔ ادبی اور لکھا پڑھی والی پنجابی کی بات تو بہت بعد میں آتی ہے، اسب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمارے ہاں عام بول چال میں اِس انتہائی خوبصورت زبان کے ساتھ ظلم کیا ہوا ہے اور یہ ظلم کیا کس نے ہے؟ رائے ایسے ہی تو قائم نہیں ہوجاتی؟ یہ تاثر عام بولی جانے والی پنجابی کے بارے میں ہے، یعنی کے مسئلہ وہیں ہے جہاں سے اعتراض بلند ہوا ہے۔

کیا بس یہ کہہ دینا کافی ہے کہ چونکہ پنجابیوں ںے خود اس پر توجہ دینے کی بجائے اپنے بچوں سے اُردو میں بات کرنے کو ترجیح دینا شروع کردی اس لئے پنجابی کی حیثیت ثانوی ہوگئی؟ ایسی بات نہیں ہے، وجہ کچھ اور ہے اور معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ وہ ہم سب کو معلوم ہے۔ میں پنجاب میں پیدا ہوا، یہیں پلا بڑھا، میرے سارے دوست پنجابی اور میں ںے اُن سب کو یہی روش فالو کرتے دیکھا۔ ایسا کیوں ہے؟

کیا محض انقلابی قدم اُٹھاتے ہوئے ایک دم سے پنجابی بولنا اور اسکی ترویج شروع کردینا اس مسئلے کا حل ہے؟ یا پنجابی کو Degrade کرنے والے بیکن ہاوس سکول جیسے اداروں پر تنقید کردینا ہی کافی ہوگا؟ یقینا نہیں۔

یقینا ہر زبان کے مختلف لہجے ہوتے ہیں لیکن میں نے جتنے خوبصورت لہجے پنجابی کے اور جتنا بے ساختہ پن اس زبان میں دیکھا اتنا شاید ہی کسی اور زبان میں ہو۔ لیکن افسوس کہ اسکے ساتھ وہ عنصر ایک سابقے کی صورت جوڑ دیا گیا جو اس کا خاصہ تھا ہی نہیں، اسکا الزام صرف اُن کو ہی دیا جاسکتا ہے جو اہل زبان ہیں۔ اس کا حل بھی اُنیں ہی ڈھونڈنا ہوگا۔ عام بول چال کی زبان پر غور کرنا ہوگا، ادبی پنجابی کی تو کوئی دھول بھی نہیں چھو سکتا، یہ میں بحٰثیت ایک اُردو سپیکنگ چیلنج کرتا ہوں۔

اپنے پنجابی دوستوں سے بصد احترام یہی کہوں گا کہ آپ بیکن ہاوس والوں پر بھلے اعتراض کریں اور چاہے جاگ پنجابی جاگ کے نعرے بھی لگایں لیکن ایک بار تسلی سے غور بھی کریں کہ ہم نے خود اس زبان کے ساتھ کیا کیا ہے؟

معذرت اگر میری بات گراں گذرے لیکن یہ میرا مشاہدہ ہے۔ دل چاہ رہا ہے کہ آخر میں عمار کاظمی بھائی کا کچھ ماہ قبل پوسٹ ہونے والا ایک سٹیٹس بھی یہاں نقل کروں جس میں اُنہوں ںے نقشہ کھینچا تھا کہ ریسٹورنٹ میں کچھ لوگ ویٹر کو بلانے سے پہلے کیا لفظ استعمال کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوشل میڈیا پر متحرک پنجابی دوستوں کو بیکن ہاوس کے خلاف احتجاج سے زیادہ اس وقت یہ کرنا چاہئے کہ سوشل میڈیا پر ہی ایک کیمپین شروع کریں اور اِس تاثر کو زائل کرنے کیلئے میدان میں آئیں۔ جتنی پنجابی مجھے آتی ہے، اُس کے حساب سے کافی مدد میں بھی کر سکتا ہوں، میری ماں بولی نا سہی، میری محبوب بولی تو ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جاگ پنجابی جاگ۔۔۔ نور درویش

  1. بیکن ہائوس والا معاملہ سراسر زیادتی ہے، زبانیں اظہار کا خوبصورت زریعہ ہوتی ہیں ، یہ بولنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اسے گالی دینے کیلئے استعمال کرے یا محبت کے لفظوں کی مالا پروئے ۔ گالیاں تو کسی بھی زبان میں دی جاسکتی ہیں اور دی بھی جاتی ہیں چاہے وہ عربی ہو یا انگریزی ہو۔ فرنچ ہو یا جرمن ۔ پنجابی زبان پر پابندی کے حوالے سے اتنی سی عرض ہے کہ سرائیکی زبان کے اہل دانش نے ایک عرصے سے اپنی جداگانہ قومی و لسانی حیثیت کیلئے تحریک چلائی ، پنجابی اور سرائیکی دانشوروں کے درمیان زبان کےمسئلے پر مکالمہ شروع ہوا جو مباحثہ کی شکل اختیار کرتا گیا ، پنجابی دانشوروں نے سرائیکی مخالفت میں اپنی زبان کی ترویج اور اس کی حفاظت کیلئے ضروری اقدامات کو پس پشت ڈال کر صرف سرائیکی زبان کو پنجابی کا لہجہ قرار دینے پر طاقت صرف کی ، اس عرصے میں سرائیکی زبان میں ہزاروں کی تعداد میں بغیر سرکاری سرپرستی کے کتب شائع ہوئیں ، کروڑوں لوگ سرائیکی ادب کی طرف متوجہ ہوئے ، ادب پروان چڑھا اور آج سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ہر سال سرائیکی زبان میں ایم کرکے فارغ التحصیل ہورہے ہیں ،نئے لکھنے والے سامنے آرہے ہیں ، اگر پنجابی دانشور حضرا ت پنجابی زبان کا پرچار کرنے اور نئی نسل میں زبان کی اہمیت بیان کرنے پر توجہ دیتے تو ایسا نہ ہوتا۔ یہاں کی اصل زبانوں کو ہم نے ’علاقائی‘ قرار دے کر سرکاری سرپرستی سے محروم کیا ہے اگر متفقہ طور پر اردو کے ساتھ انہیں بھی ’’قومیا‘‘ لیا جائے تو کیا فرق پڑے گا ؟

Leave a Reply