مدرسین کی فکر معاش اور مدارس کو لاحق خطرات۔۔۔۔عبدالغنی

مدرسے کی فضاء سے باہر آئے ایک سال ہوگیا ہے ۔ اس سے قبل چار سال تدریس کی ، تدریس کرتے ہوئے ذہن میں یہ خیال تھا کہ معاشی طور پر خود کفیل ہو کر دین کا بہتر طور پر کام کر سکوں گا ۔ ابھی معاشی طور پر  خود کفیل ہوں اور اچھی پوسٹ پر ہوں اس کے ساتھ سکول وکالج کی سطح پر دین کا کام بھی کررہا ہوں لیکن مدرسے طرز پر دین کی محنت میں دوبارہ آنا بہت مشکل معلوم ہورہا ہے ۔ اس لئے جو لوگ تو معاشی طور پر خود کفیل ہونے کا سوچتے ہیں یا اس کے لئے محنت کرتے ہیں بہت اچھا کرتے ہیں لیکن جب آپ مسجد و مدرسہ کے علاوہ کوئی اور فیلڈ چن لیتے ہیں تو مسجد و مدرسہ میں کام کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ ہر فیلڈ مکمل وقت مانگتی ہے ۔اس لئے مدارس و مساجد سے وابستہ حضرات کی جس قدر ہوسکے قدر اور حوصلہ  افزائی کرنی چاہیے کہ وہ مشکلات کے باوجود اس سے وابستہ ہیں اور ان کو یہ مشورہ کہ  اس کو چھوڑ کر بہتر معاش کی  فکر کریں، دینی تعلیم کے اس صورت میں ہونے کو معطل کرنے والی بات ہے ۔

ایک معتد بہ قابل لوگوں  کو اس کے ساتھ ضرور وابستہ ہونا چاہیے البتہ ان وابستہ لوگوں کے لئے جس قدر ممکن ہو بہتر معاش کا بندوبست کرنا چاہیے ، کیونکہ ہمارے  ملک ، اسلامی تشخص ، دینی روایت اور تہذیب و تمدن کے اعتبار سے یہ لوگ ایک اعلی شعبے  سے منسلک ہیں جس میں ان چیزوں کی بنیادوں کی حفاظت کی جاتی ہے ۔  اس لئے ان کی اچھی معاشی فکر نہ ہونے سے  یہ لوگ اس میدان کے ساتھ کماحقہ منسلک نہیں رہ پائیں گے اور ان چیزوں کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہوگا جن کو یہ لوگ سنبھالے ہوئے ہیں ۔

مدارس کے نصاب و نظام کی بعض چیزوں کے ساتھ متفق نہ ہوتے ہوئے بھی   دینی علوم اور ان کی درس و تدریس جس محنت  کےساتھ مدارس میں ہورہی ہے  ان کا  وجود  اسی حالت میں ضروری  ہے ۔ مدارس کے اندر داخلی طور پر تو  کچھ اصلاحات   ہونی چاہئیں لیکن خارجی طور پر ان کے وجود کو ختم کرنے کی بات یا سوچ کسی طرح بھی درست نہیں ہے ۔ بعض مدارس میں ایسے تجربات کئے جاچکے ہیں  کہ ان کو ختم کرکے اور ان کی اس صورت کو   تبدیل کرکے ان میں ملک کے جید علماء کے ذریعے دینی تعلیم کی کوشش کی گئی ہے جو کہ عملاًًً  ناکام رہے ہیں ۔ اس لئے دینی علوم کی بقاء کے لئے مدارس کا اسی حالت میں باقی رہنا ضروری ہے تاوقتیکہ حکومت قرآن و سنت کی تعلیم  کی ذمہ داری خود لے اور اس کو سرکاری سطح پر احسن انداز میں پورا کرے ۔

مدارس کو خارجی طور پر جو خطرات لاحق ہیں سو ہیں لیکن ان سے زیادہ  نقصاندہ داخلی خطرات ہیں ۔  یہ داخلی خطرات ہی دراصل خارجی خطرات کو تقویت دیتے ہیں ۔ ان داخلی  خطرات میں ایک بڑا خطرہ مدارس میں  اصول مساوات کا نہ ہونا ہے ۔مدرسین معاشی تنگی میں بھی گزارہ کرسکتے ہیں لیکن جب عدم مساوات کو دیکھتے ہیں تو پھر شاید یہ گزارہ ایک مجبوری بن جاتی ہے ۔  مدرسین کو سادگی ، کفایت شعاری اور دین کے لئے قربانی کاد رس دینے والے  ذمہ داران اور مہتمم   کی آسائش اور تکلفات  سے پُر زندگی بھی مدرس کے منہ کا تالہ تو نہیں  کھولتی لیکن اس کو بہت کچھ سوچنے پر ضرور مجبور کرتی ہے ۔ ان لوگوں کی  خاموشی جو اپنے اندر طوفان لئے ہوئے ہے اس سے ڈر لگتا ہے کہ اگر اس سے تالہ ہٹ گیا تو مہتمم  اور  ان کی  نسلوں کے محفوظ مستقبل کا کیا ہوگا ؟

مدارس میں مہتمم کی ذمہ داری بہت بڑی ہوتی ہے  کہ اس کو سارے مدرسے کی معاشی کفالت کا بوجھ برداشت کرنا ہوتا ہے اور  اس کے ساتھ داخلی سطح پر  تعلیمی  نظام کی نگہداشت بھی کرنا ہوتی ہے ۔ اس لئے ان کو اس کا اضافی نعم البدل ضرور ملنا چاہیے، ان کی سہولیات ان کی محنت کے بقدر ایک مدرس کے برابر یقیناًًً  نہیں ہوسکتیں  لیکن کیا مدرس کے لئے بھی ملک کی عمومی صورتحال کے مطابق مشاہرہ ہونا چاہیے یا اس کی مجبور ی اور ان کی تعداد کی کثرت کو دیکھتے ہوئے جو طے کردیا جائے وہی ٹھیک ہے ؟

ایک مہتمم کے بچوں کا مستقبل ضرور محفوظ ہونا چاہیے کہ اس نے ساری زندگی مدرسے کے لئے وقف کردی  ، اس کے بیٹے کو مدرسے کا مہتمم ضرور ہونا چاہیے کہ وہ نہ ہوگا تو کون ہوگا  ظاہری بات اس کے تقرر میں پھر سے مسائل ہوں گے اور اس ملک میں کوئی ایسا شفاف نظام یا باصفا لوگ تو ہیں نہیں جو بہت اچھی تقرری کا معیار قائم کرسکیں اس لئے اسی کا ہونا بہتر ہے۔ مان لیا اس کے بچے اہل ہوں یا نااہل ہوں، مہتمم انہی کو ہونا  چاہیے لیکن کیا  ایک مدرس کے بچوں کا بھی مدرسے پر کوئی حق بنتا ہے کہ نہیں ؟ بچے تو دور کی بات کسی مدرس کو جاب سکیورٹی  نہیں ہے ،  دس پندرہ سال ایک مدرسہ میں گزارنے کے باوجود اس کا مہتمم  اس کو ایک اشارے میں مدرسے سے باہر نکال سکتاہے۔ مدرسے سے نکالنے کے لئے کو ئی خاص قانون کی ضرورت نہیں بلکہ مہتمم کی نظر عتاب ہی کافی ہے  ۔

مدرسے کے نظام کو بہتر رکھنے کے لئے  ضروری ہے کہ اس کے ذمہ دارکے پاس مکمل اختیار ہوں ورنہ نظام نہیں چل پائے گا ، مدرسین و عملہ ٹھیک طرح کام نہیں کریں گے لیکن  کیا اس کی ہر بات ہی اصول قرار پائے گی درست ہو یا غلط ؟ اس مہتمم کے صحیح ، غلط کو جانچنے پرکھنے والی بھی کوئی اتھارٹی ہونی چاہیے کہ نہیں ؟  ایسی کسی اتھارٹی کا کہیں کوئی وجود نہیں ہے ۔ وفاق المدارس  تک اس میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتاہے ۔اس لئے ضرورت ہے کہ  مدارس میں ذمہ دارا ن کے احتساب کا بھی کوئی میکا نزم ہو اور یہ لوگ بھی اصولوں کے پابند ہوں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ  مدرس ، امام مسجد ، مؤذنین اور خدا م مساجد  کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ہر طرح کی کوشش کی جائے ۔ اس سلسلے میں سرمایہ دار حضرات سے بھی گزار ش کرنا چاہوں گا کہ اداروں کے ذمہ داروں سے  شخصی تعاون کے ساتھ ان کی  بنیادوں میں دبی ہوئی  اینٹوں کا بھی خیال کیا کریں ، عمارت کی ظاہری صورت گری میں تو ان کا کوئی کردار نہیں نظر آتاہے لیکن  عمارت انہی کے سہارے کھڑی ہوتی ہے ۔

Facebook Comments

عبدالغنی
پی ایچ ڈی اسکالر پنجاب یونیورسٹی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply