• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسلام آباد میں جاری تخت کا کھیل۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

اسلام آباد میں جاری تخت کا کھیل۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

پاکستان میں سیاست پر بات کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے، چند گھنٹے پہلے جن مفروضوں کی بنیاد پر اچھی خاصی رائے قائم کی ہوتی ہے، ایک حقیقت آ کر ان سب کو غلط ثابت کر دیتی ہے۔ کہا جاتا تھا کہ جنگ کا کوئی ضابطہ نہیں، مدمقابل کو گرانا ہے، جس طرح سے مرضی گرائیں۔ اب اپنے ہاں بھی لگ یوں رہا ہے کہ میدانِ سیاست نہ ہوا، جنگ کا میدان ہوگیا، جہاں بغیر کسی اصول کے بس اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ ویسے جنگ اور سیاست اس معنی میں تو ایک ہیں کہ ہر دو طاقت اور حکومت کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ پہلے یہ جنگ تیروں اور تلواروں سے لڑی جاتی تھی، اب اقتدار کے حصول کے ذرائع تبدیل ہوچکے ہیں اور اب سیاست کے ذریعے اقتدار کو حاصل کیا جاتا ہے۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ الیکشن سے ذرا پہلے پی ٹی آئی بلکہ خان صاحب نے عروج پکڑا تو ایسے ایسے لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہوئے، جن کے بارے میں پارٹی چھوڑنے کا سوچنا بھی نادرست لگتا تھا۔ مخدوم جاوید ہاشمی جیسے نڈر لوگ جو مشرف کی آمریت سے ٹکرا گئے، مگر تبدیلی کی ہوا کا مقابلہ نہ کرسکے اور پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔اب ہوا کا رخ تبدیل ہوچکا ہے تو ہر آدمی پر شک کیا جا رہا ہے اور ابھی سوشل میڈیا پر چل رہا ہے کہ فخر امام نے استعفیٰ دے دیا اور ساتھ ہی اس کی تردید بھی آرہی ہے۔

تحریک عدم اعتماد نے اسلام آباد جیسے خاموش شہر کی سیاست میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ ہر طرف تبصرے اور تجزیئے جاری ہیں، کون کدھر جا رہا ہے، اپوزیشن اور حکومت اپنے اپنے پتے بڑی ہوشیاری س کھیل رہی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں پنجاب کی پگڑی چوہدری لے اڑے ہیں۔ چوہدریوں نے اپنے پتے بڑی ہوشیاری سے استعمال کیے ہیں اور حیران کن طور پر وہ لینے میں کامیاب ہوگئے، جو بظاہر ناممکن نظر آرہا تھا۔ پرویز الہیٰ کو وزارت اعلیٰ دینے کے فیصلے نے ایک بات واضح کر دی ہے کہ عمران خان صاحب بھی بلیک میل ہو جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خان صاحب کوئٹہ کے مظلوم و مجبور لوگوں کو کہا کرتے تھے کہ وزیراعظم کو بلیک میل نہیں کیا جا سکتا۔

میں سوچ رہا تھا کہ قدرت کا نظام کتنا عالی شان ہے، وہ سوچنے سمجھنے والوں کو اپنی طاقت کا مظاہر دکھاتا رہتا ہے۔ عمران خان صاحب اپنا اقتدار بچانے کے لیے ہر وہ قدم اٹھانے کو تیار بیٹھے ہیں، جس کے خلاف وہ تقاریر کیا کرتے تھے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ سیاست آئیڈیلزم کی بنیاد پر نہیں حقائق کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ عمران خان صاحب بھلے اپنی تقاریر میں بڑی بڑی باتیں کر جائیں، مگر جب وہ حقائق کی دنیا میں آتے ہیں تو ان کے مطابق ہی فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک بات خان صاحب کو یاد رکھنی چاہیئے کہ وجہ جو بھی ہو، ایک طریقے سے پی ٹی آئی سے پنجاب کی قیادت چھین لی گئی ہے۔ مرکز میں کیا ہوتا ہے؟ اس کا فیصلہ چند دنوں بعد آجائے گا اور ویسے تو کہنے والے کہتے ہیں کہ پنجاب میں بھی چوہدریوں کے لیے وزیراعلیٰ بنوانا آسان نہیں ہوگا۔ علیم خان صاحب کا گروپ مسلم لیگ نون کے ساتھ اپنے معاملات فائنل کر رہا ہے، اگر وہ پی ٹی آئی کے خلاف ووٹ کرتے ہیں تو اگرچہ بعد میں انہیں نتائج بھگتنے ہوں گے، مگر وہ چوہدریوں کو وزیراعلیٰ نہیں بننے دیں گے۔

پارلیمنٹ میں نمبر گیم کا کھیل عروج پر چل رہا ہے۔ حکومت رات کو نمبر پورے کرکے سوتی ہے اور صبح دوچار آگے پیچھے ہو جاتے ہیں۔ چوہدریوں کی چند سیٹیں پکی ہوئی ہیں تو باپ کی سیٹیں ہاتھ سے نکل گئی ہیں۔ ویسے عمران خان نے بلیک میل ہونے میں تھوڑی دیر کر دی ہے، اگر یہ دو ہفتے پہلے بلیک میل ہو جاتے تو باپ اور کچھ اندرونی مخالفین پی ٹی آئی کو چھوڑ کر نہ جاتے۔ سیاست میں فیصلہ اور وقت پر فیصلہ بڑا اہم ہوتا ہے۔ اگر خان صاحب بزدار صاحب کو پہلے سال ہی تبدیل کر دیتے تو علیم خان گروپ سے اتنے فاصلے ہی نہ بنتے، کیونکہ ان کے بنیادی اختلافات تو بزدار صاحب سے تھے۔ ویسے بزدار صاحب کو داد بنتی ہے کہ انہوں نے اپنے پارٹی صدر کو بچانے کے لیے چوں چرا نہیں کی اور استعفیٰ دے دیا۔ پرویز خٹک اسمبلی توڑنے کے عمران خان کے فیصلے کے خلاف ڈٹ گئے تھے اور چند ماہ پہلے بھی اجلاس میں عمران خان کو کھری کھری سنا دیں تھیں، اس حوالے سے بزدار صاحب کافی فرمانبردار واقع ہوئے ہیں، استعفیٰ عندالطلب حاضر کر دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگرچہ عمران خان صاحب کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کافی عرصے سے جاری ہے، مگر اب ابال کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے۔ عمران خان صاحب نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ایک رخ دیا ہے۔ بین الاقوامی اسٹبلسمنٹ بالخصوص امریکہ بہادر کافی ناراض ہے، عمران خان صاحب کا بین الاقوامی میڈیا پر امریکی اشاروں پر پالیسی تبدیل کرنے سے واضح اور واشگاف انکار ان سے ہضم نہیں ہو رہا۔ عین یوکرین جنگ کے موقع پر روس کا دورہ بھی ایک گستاخانہ عمل ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ بار بار کے مطالبے کے باوجود پاکستان نے سرکاری طور پر روس کی مذمت نہیں کی اور اقوام متحدہ میں بھی ایسی ووٹنگ سے غیر حاضر رہا ہے۔ یہ امریکی پالیسی کے لیے بڑا دھچکا ہے کہ پاکستان، انڈیا اور چائینہ بظاہر متضاد پالیسی رکھنے والے یہ ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ یوکرین کے معاملے میں امریکی پالیسی کے ساتھ نہیں ہیں۔ ان حالات میں یہ امریکی اور یورپی خواہش ہوگی کہ پاکستانی وزیراعظم کو تبدیل کر دیا جائے اور ماضی قریب کا امریکی کردار اس کی تائید کرتا ہے۔ دن کم ہیں، دیکھیں تحریک عدم اعتماد پر کیا بنتا ہے۔؟

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply