• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا اپوزیشن غیر ملکی ایجنڈے پر کام کررہی ہے؟۔۔محمد عامر خاکوانی

کیا اپوزیشن غیر ملکی ایجنڈے پر کام کررہی ہے؟۔۔محمد عامر خاکوانی

جس خط کا حوالہ عمران خان دے رہے تھے، مجھے اس میں کبھی کوئی شبہ نہیں تھا۔
اندازہ تھا کہ ایسا ممکن نہیں کہ کوئی فیک خط بنا دیا جائے، یقینی طور پر کسی سفارتی ذریعہ سے ایسا کچھ آیا ہوگا۔ یہ ممکن ہے کہ جس پاکستانی سفیر یا سفارت کار نے وہ خط بھیجا ہو، اس نے دوسرے فریق کا مفہوم سمجھنے میں کچھ غلطی کی ہو، مگر سفارت کار اپنی معلومات،مشاہدات اور فیڈ بیک کی بنا پراس قسم کے خط بھیجا کرتے ہیں، یہ روٹین کی سفارتی پریکٹس ہے۔
ان لوگوں پر مجھے حیرت تھی جو یہ سوال اٹھاتے تھے کہ آج کے دور میں بھی کوئی خط کیوں بھیجے گا؟ ان بیچاروں کو شائد علم ہی نہیں کہ آج کے دور میں تو الٹا اس کی اہمیت زیادہ ہے۔ کیا دوسرے ملک کی جانب سے پیغامات واٹس ایپ پر موصول ہوا کریں یا فیس بک کے سٹیٹس کے ذریعے ؟ آج بھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک ملک کا وزیرخارجہ یا کوئی سفارت کار دوسرے ملک جا کر اپنے سربراہ کا تحریری پیغام پہنچاتا ہے، کبھی یہ پیغام زبانی بھی ہوتا ہے۔ جب ای میلز وغیرہ ہیک ہو جاتی ہیں ، ایسے میں مینوئل تحریری پیغامات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
مجھے اس خط کے وجود میں کوئی شک نہیں تھا۔ اس خط کے مندرجات آج عمران خان نے سینئر صحافیوں سے بھی شیئر کر دئیے ہیں، بعض وزرا اور مبینہ طور پر اعلیٰ عسکری قیادت سے بھی شیئر کیا جا چکا ہے۔
کہنے کا مقصد ہے کہ ایسا خط یقیناً ہوگا، اس کے مندرجات بھی جیسا کہ وزیراعظم نے بتائے ، ویسے ہی ہوں گے ،ممکن ہے کوئی ملفوف یا کھلی دھمکی ہو۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ امریکی یا یورپی یونین والے عمران خان کو پسند نہ کرتے ہوں، ان کی خواہش ہو کہ موجودہ وزیراعظم تبدیل ہوجائے۔ یہ عین ممکن ہے۔
اس کے باوجود میں یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اپوزیشن کسی غیر ملکی ایجنڈے کے تحت سرگرم ہے اور یہ تحریک عدم اعتماد کسی غیر ملکی ایجنڈے یا فنڈنگ سے پیش کی گئی ۔ میرے خیال میں ایسا نہیں اور ایسا کہنا غلط بلکہ نامناسب ہے۔
میرے نزدیک میاں نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی حب الوطنی میں کوئی شبہ نہیں۔ ان کا میں ناقد رہا ہوں اور بہت بار نہایت سخت الفاظ میں تنقید کی، انہیں پسند نہیں کرتا، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان لیڈروں کو ملک دشمن ، غدار یا غیر محب وطن کہہ دیں۔ یہ غلط اور زیادتی ہوگی۔
تحریک عدم اعتماد یکایک نمودار نہیں ہوئی، اس کا ایک پورا تسلسل اور ٹائم لائن ہے۔
دو سال پہلے مولانا فضل الرحمن نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنا دیا، جس میں دیگر اپوزیشن لیڈر بھی شریک ہوئے، اے این پی کی شمولیت بھرپور تھی۔ تب کون سا غیر ملکی مداخلت والا خط آیا تھا یا تب امریکی ناراضی کا عنصر کہاں تھا؟ تب تو امریکہ افغانستان میں پوری طرح جم کر بیٹھا تھا۔
چیئرمین سینٹ سنجرانی صاحب کے خلاف تحریک اعتماد آئی جو اپوزیشن کے چودہ پندرہ اراکین کی بدعہدی اور سیاسی غداری کی وجہ سے ناکام ہوگئی ۔ اس وقت کون سا غیر ملکی مداخلت والا معاملہ چل رہا تھا؟ نہیں قطعی نہیں، کہیں پر ایسی بات نہیں تھی۔
پیپلزپارٹی تو ہمیشہ سے اسی تحریک عدم اعتماد کی بات کرتی تھی کیونکہ زرداری صاحب کو اپنے جوڑ توڑ کی صلاحیت اور خریدوفروخت کے وسیع تجربے پر اعتماد تھا، ان کے پاس فنانسرز کی بھی کمی نہیں ۔ ن لیگ اور مولانا تب اس لئے گریزاں تھے کہ انہیں اندازہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی کھلی سپورٹ کے باعث حکومت گرانا اور ان ہاؤس چینج لانا ممکن نہیں۔
ابھی سینٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کے اسلام آباد سے سینیٹر بنانے میں بھی اپوزیشن نے یہ شو آف پاورکیا کہ تحریک انصاف کے کچھ اراکین منحرف ہو کر اندر سے ان کے ساتھ ہیں۔ وہ تو وزیراعظم نے مستعفی ہونے کی دھمکی دے کر اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالا اور چیئرمین سینٹ کے انتخابات میں نہایت مضحکہ خیز طریقے سے کچھ ووٹ مسترد کر کے گیلانی صاحب کو ہرایا گیاا ور اس کے بعد وزیراعظم نے اعتماد کا ووٹ بھی لے لیا۔ اپوزیشن نے وہ ساری موو اپنے طور پر کی تھی، اس میں تب کہاں سے غیر ملکی فیکٹر تھا؟
آج بھی اگر اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہونے کے بجائے حکومت کے ساتھ کھڑی ہوتی تو ہر صورت میں تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجاتی۔ ایم کیو ایم اور باپ پارٹی کے تب حکومت سے الگ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا تھا اور نہ ہی منحرف اراکین کا ٹولہ یوں دیدہ دلیری سے سندھ ہاؤس دعوتیں کھاتا نظر آتا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہونا تھا اور تحریک عدم اعتماد پیش ہوتے ہی اگلے دو تین دنوں میں اس پر ووٹنگ ہوجاتی اور اپوزیشن کو ایک بار پھر منہ کی کھانا پڑتی۔
عمران خان کی ممکنہ نظر آتی سیاسی شکست (جب تک اس مسئلے کا آفیشل وائنڈ اپ نہ ہوجائے، ہم کچھ حتمی نہیں کہہ سکتے ) کے پیچھے اصل فیکٹر اسٹیبلشمنٹ کا ان سے الگ ہونا ہے اور ان کے پاس پنجاب میں ایسی مضبوط شخصیت کا نہ ہونا جو اپوزیشن کے سیاسی حربے ناکام بنا سکتا۔
اگر دس دن پہلے چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ کر لیا جاتا، یہ کڑوا گھونٹ بھر لیا جاتا تو یقینی طور پر آج نقشہ مختلف ہوتا۔ اگر جہانگیر ترین حکومت کے ساتھ ہوتے تو شائد یہ بحران پیدا ہی نہیں ہونا تھا۔
سیاسی بیانیہ کے طور پر غیر ملکی سازش کا ڈھول بجانے اور مظلومیت کا تاثر پیدا کرنے یا عوامی ہمدردی حاصل کرنا الگ بات ہے، مگر بہرحال عمران خان اپنی سیاسی غلطیوں سے یہ جنگ ہارے یا (ہارتے نظر آ رہے) ہیں۔ اس کی ذمہ داری غیر ملکی فیکٹر پر نہ ڈالی جائے۔ یہ دیانت دارانہ تجزیہ نہیں ہوگا۔
اس کے علاوہ میں یہ ماننے کو تیار نہیں کہ شریف خاندان، زرداری صاحب یا مولانا فضل الرحمن کسی ملک دشمن ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، یا وہ امریکی یا کسی غیر ملکی سازش کے آلہ کار ہیں۔ میں ان کا ناقد اور سیاسی اعتبار سے مخالف ہوں، مگر بہرحال ان کی حب الوطنی اور ملک دوستی پر شک کرنے کو تیار نہیں۔
عمران خان اور اپوزیشن ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں اور کسی بھی صورت میں یہ دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے ، اس مقصد کے لئے کسی بھی انتہائی سیاسی حملے تک جا سکتے ہیں مگر دونوں فریق غدار یا ملک دشمن نہیں ۔ عمران خان یہودی ایجنٹ ہے اور نہ ہی نواز شریف یا دوسرے امریکی ایجنٹ ۔
پی ٹی آئی کے پرجوش حامی جو مرضی رائے رکھیں، مگر میری سوچ اور رائے واضح اور یکسو ہے اور میں اسے منطقی دلائل اور ٹھوس شواہد سے ثابت کر سکتا ہوں۔
میرا ماننا ہے کہ اب ہمیں ملک میں غدار غدار کھیلنا بند کر دینا چاہیے۔ سب لیڈر اور سب جماعتیں محب وطن ہیں۔ موقف ہر ایک کے الگ ہوسکتے ہیں، طریقہ کار اور حکمت عملی بھی ۔
یہ سیاسی جنگ اور اقتدار کی کشمکش ہے، اسے سیاسی انداز سے لڑنا چاہیے۔ لیڈر جذباتی ہوں اور نہ ہی ان کے کارکن سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے گریبان میں ہاتھ ڈالیں۔ میچور بی ہیو کرنا چاہیے۔ کب تک ہم لیڈروں کی اموشنل بلیک میلنگ کا شکار ہوتے رہیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply