سماجی درندگی اور تہذیبی خلاء۔۔آغر ندیم سحر

14 اگست کو مینارِ پاکستان پر ایک واقعہ ہوا جس نے پورے پاکستان اور پنجاب حکومت کو ہلا کے رکھ دیا، یعنی یہ سسٹم محض ایک ویڈیو کی مار نکلا۔میں اس موضوع پر اس لیے بھی نہیں لکھنا چاہ رہا تھا کہ میرے کالم سے قبل اس ایشو پہ نہ صرف بہت کچھ لکھا جا چکا بلکہ اس واقعے کو ملکی و غیر ملکی میڈیا کی طرف سے غیرمعمولی کوریج بھی مل گئی اور پوری دنیا عائشہ بیگ کی حمایت میں کھڑی ہو گئی۔میں بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ اس ایشو پرمیں بھی پوری دنیا کے ساتھ کھڑا ہوں کہ ایسے واقعات حقیقت میں ملکی شناخت پر بدنما دھبہ ثابت ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے اس واقعے کے بعد ایک دفعہ پھر پوری دنیا میں یہ تاثر دیا گیا کہ پاکستان خواتین کے حوالے سے ایک غیرمحفوظ مقام ہے،دنیا بھر کی فیمنزم تحریکوں کو ایک دفعہ پھر موقع مل گیاکہ پاکستان کی ساخت اور شناخت پر سوالیہ نشان لگائیں اور پاکستان کو بھرپور طریقے سے بدنام کریں۔ صرف یہی نہیں بلکہ فندڈ این جی اوز کے ہنگاموں اور احتجاجوں کی فہرست بھی جاری ہونے والی ہوگی کیونکہ شر پسند عناصر کو ایسے موقعے بہت کم ملتے ہیں جن سے پاکستان کو  غیر محفوظ ثابت کیا جائے۔

جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا کہ میرا موقف بالکل واضح ہے کہ جو عائشہ اکرم کے ساتھ ہوا(اگرچہ اس کہانی پر بھی سوالیہ نشان ہے)ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا‘پھر عائشہ اکرم کو ایف آئی آر پہ ایڈریس غلط لکھوا کہ خود کو مشکوک نہیں بنانا چاہیے تھا‘مزید اس پر عائشہ کی درجنوں (سابقہ) ویڈیوز جن سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ معاملہ ایک طرف سے خراب نہیں بلکہ تصویر کا دوسرا رخ‘پہلے سے زیادہ دھندلا اور میلا ہے مگر میں اس معاملے میں مزید نہیں لکھنا چاہتا کیونکہ عائشہ اکرم کے ساتھ جو ہوا‘وہ یقینی طور پر غلط ہے مگر اس واقعے کی آڑ میں ملک پاکستان کو جس دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے‘یہ بھی اچھا نہیں۔اس ملک میں نوجوانوں کی شرح تقریباً ۵۶ فیصد ہے‘اس لحاظ سے ٹوٹل آبادی میں تقریباً چودہ کروڑ نوجوان ہیں‘یوں چار سو نوجوان محض 0.000279%فیصد بنتے ہیں یعنی ایک فیصد بھی نہیں۔اس ایک فیصد کی وجہ سے ہم پچھلے چھے دن سے 65فیصد نوجوانوں کو گالیاں دے رہے ہیں‘کیا اس ایک فیصد کی غلطی کی وجہ سے تمام مرد وں کودرندہ کہنے سے ایسے مسئلے حل ہو جائیں گے،ہم واقعی عجیب قوم ہیں‘ہمیں جو سوشل میڈیا دکھاتا ہے‘ہمیں وہی سچ لگتا ہے اور ہم اس پر من و عن یقین کر لیتے ہیں۔

ہمارے دانشوروں‘صحافیوں اور قلم کاروں نے بجا فرمایا کہ ہماری نئی نسل کو آخر کیا ہو گیا ہے کہ جس سے یہ تہذیبی خلا ء پیدا‘ہمارے مرد جنسی درندگی کا مظاہرہ کیوں کرنے لگے؟۔آخر ہم سے تربیت میں کہاں کمی رہ گئی‘ہمارا تعلیمی نظام کیا اس قدر بانجھ ہو چکا کہ وہ ڈگریوں کے علاوہ نئی نسل کو کچھ نہیں دے سکا۔شایدہم”دشمن کے بچوں کو“ تعلیم یافتہ بناتے رہ گئے اور ہمارے بچے اس بنیادی تربیت سے محروم رہ گئے جو آدمیت سے انسانیت کا سفر طے کرواتی ہے۔ہم یہ الزام کسے دیں کہ لاہور کی سڑکوں اور پارکوں پر ”جنسی غنڈہ گردی“کرتی (ایک فیصد)نئی نسل اس پٹڑی سے اتر چکی ہے جس پر چل کر یہ ایک باشعور اور تہذیب یافتہ قوم بن سکتی تھی۔اس واقعے نے میرے سامنے بہت سارے سوالات رکھ دیے جن کا جواب شاید آپ سب کے پاس ہو۔کیا ہمارے سماجی شعور کی موت کا ذمہ دار تعلیمی نصاب ہے یا اس کے ذمہ دار والدین بھی ہیں؟‘کیا ہمارے اندر رتہذیبی خلا ء اس لیے پیدا ہوا کہ ہم نے اپنی تاریخ‘تہذیب اور کلچر سے منہ موڑ لیا؟۔ہم نے اپنی تاریخ اور نصاب میں ہیروز کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنا کر پیش کیا تو یہ سانحہ ہوا؟،خیر کچھ بھی ہو‘میں اب بھی یہی کہوں گا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ہمیں بہت پہلے انتظامت کر ہینے چاہیں تھے۔

ہمارے ہاں اس واقعے کے بعد دو گروہ بن گئے‘دائیں بازو والے اس واقعے کو مذہب سے جوڑ رہے ہیں‘ان کا خیال ہے یہ سب اس لیے ہوا کہ ہم نے نئی نسل کو مذہبی تعلیمات سے دور کر دیا اور بائیں بازو والے اس واقعے سے ہزار طرح کی کہانیاں بنا رہے ہیں‘کہانیوں سے یاد آیا کہ اس بات پر ہم سب کیسے اختلاف کر سکتے ہیں کہ ٹک ٹاک بناتی‘فلائنگ کس کرتی‘محبت کو فروغ دیتی عائشہ یا دیگر ایسی ٹک ٹاکرز کو اپنی حدود کا تعین کرنا چاہیے‘انہیں کم از کم یہ ضرور سمجھ جانا چاہیے کہ اگرچہ ہم سب پاکستان کو لبرل ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں مگر یہ پاکستان ہے‘یہاں کا کلچر اور یہاں کا ماحول ابھی اس قدر آزاد خیال نہیں ہوا کہ کوئی خاتون پارک میں چار سو لوگوں کو مدعو کر کے‘اپنی ریٹنگ کے لیے”فلائنگ کس“کرتی رہے اور یہ ماحول خاموش بیٹھا رہے۔مجھے پورا یقین ہے کہ میرے کالم کے بعد مجھے یہی کہا جائے گا کہ میں نے عائشہ کی معصومیت اور مظلومیت پر انگلی اٹھائی ہے لہٰذا میں بھی ان نوجوانوں جیسا ہوں جن کی تعداد ایک فیصد بھی نہیں بنتی۔

میں اس موضوع پر قطعاً نہ لکھتا مگر مجھے انتہائی تکلیف ہوئی کہ ہم ایک ویڈیو کو سامنے رکھ کر پورے سسٹم کو مفلوج ثابت کر رہے ہیں‘ایک ویڈیو سے پورے پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں حالانکہ میں بار بار یہی کہوں گا کہ جو عائشہ کے ساتھ ہوا وہ انتہائی غلط ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک فیصد سے بھی کم نوجوانوں کی غنڈہ گردی کی وجہ سے ہم باقی چونسٹھ(64) فیصد نوجوانوں کو ”درندہ“کہنے لگ جائیں۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم کانوں کے اتنے کچے ہو گئے کہ سوشل میڈیا یا ایک خاص لابی ہمیں جو کچھ دکھاتی ہے‘ہم اس پر تحقیق کیے بغیر من و عن یقین کر رہے ہیں۔معاملات دونوں طرف سے خراب ہیں‘ہمیں نہ صرف نئی نسل کی تربیت کرنی ہے‘انہیں عورت کا احترام سکھانا ہے‘انہیں ماں‘بہن اور بیٹی کی تعظیم سکھانی ہے بلکہ ہمیں ماں‘بہن اور بیٹی کو بھی ان کے فراض بتانے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قرآن مجید میں کئی آیات میں خدائے لم یزل نے واضح انداز میں فرمایا کہ پردہ ہی عورت کی پہچان ہے‘میرے لنڈے کے لبرل دانشوروں کو یہ بات بہت غصہ دے رہی ہے کہ ہم اس واقعے میں مذہب کو کیوں لا رہے ہیں حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس ساری بگاڑکی اصل وجہ یہی ہے کہ نئی نسل کو ہم نے پوری پلاننگ کے ساتھ مذہبی تعلیمات سے دور کر دیا‘پوری پلاننگ کے ساتھ ہم نے اپنا تعلیمی نظام مفلوج کیا کہ کہیں ہم باشعور اور ذمہ دار نسل نہ تیار کر لیں‘ایسے میں پھر ہمیں نئی نسل کی درندگی پر بین کرنے کی بجائے اپنے مظلومیت پر بین کرنا چاہیے کہ گزشتہ چوہتر سالوں میں ہم نے پاکستان کو واقعی پاکستان بنایا یا پھر اس قوم کو ”پاک سر زمین کا“صرف لالی پاپ دیا‘فیصلہ آپ خود کریں۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply