آٹزم کو سمجھنا ایک عام انسانی فہم کے لئے بہت مشکل ہے اور اِس مشکل کا سامنا کرنا والدین کے لئے بھی آسان نہیں۔ خاص کر ماں کیونکہ ماں بچے کے بہت قریب ہوتی ہے، بچہ جتنا ماں سے اٹیچ ہوتا ہے اتنا ہی اپنی اریٹیشن کا ملبہ ماں پر ہی ڈالتا ہے اس کی وجہ یہ ہوتی کہ وہ سمجھتا ہے سوائے ماں کے کوئی اس بوجھ کو برداشت نہیں کر پائے گا۔ یہی وجہ ہے وہ ماں کو کبھی کبھی نقصان بھی پہنچا دیتا ہے۔ وہ یہ جان بوجھ کر نہیں کرتا۔
کیونکہ اسے خود بھی اس بات کا شعور اور ادراک نہیں ہوتا کہ اس کے جارحانہ رویے اور فعل سے قریبی رشتے کس قدر اذیت اور تکلیف کے مراحل سے گزرتے ہیں.
“خالی دماغ شیطان کا گھر”
یہ قول آٹزم پر بالکل فِٹ بیٹھتا ہے۔
جب تک یہ مصروف رہتے ہیں تب تک ان کے دماغ میں اس طرح کی بے چینی نہیں ہوتی لیکن جیسے ہی ان کو یہ احساس ہوتا ہے ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے تو یہ لوگ اوور تھنکنگ یا نیگیٹو تھنکنگ کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
عام انسان کا ذہن جسمانی تھکاوٹ کو سمجھتے ہوئے، اُسے نیند کی وادی میں پہنچا دیتا ہے جبکہ ایک آٹسٹک شخص کا ذہن اس بندش سے آزاد ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی یہ لوگ ساری رات جاگتے رہتے ہیں۔ جسم کی بے چینی ذہن کی بے چینی کو ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پاتی۔ ایک ہی جگہ پر بیٹھے بیٹھے تنگ پڑ جاتے ہیں ۔ سونے کی کوشش کرتے ہیں تو ٹھیک سے سو نہیں پاتے۔ اس لئے کبھی کبھی ان کے دماغ کے سکون اور نیند کے لئے ادویات بھی دی جاتی ہیں۔
ہر وقت ڈپریس رہن، عجیب عجیب سی باتوں کو سوچنا اور عجیب سے سوالات کرنا اور جواب نہ ملنے پر اپنے آپ سے اور اپنے ارد گرد موجود لوگوں سے راضی نہ ہونا۔ ان کو اپنے ساتھ ہونے والی اس سچویشن کا ذمہ دار ٹھہرانا۔
اِن کو کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ موجود لوگ اس رویے سے تنگ بھی پڑ سکتے ہیں۔
کبھی کبھی ان کی سننے کی حس اتنی حساس ہو جاتی ہے کہ ان کو اپنے ساتھ بات چیت کرنے والوں کی نارمل پِچ کی آواز بھی اعصاب پر ہتھوڑے برساتی محسوس ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں اکثر ان کا رد عمل غصے کی صورت میں نکلتا ہے۔
اِن کو لگتا ہے کہ لوگ انہیں سمجھ نہیں پارہے۔ اس کے ارد گرد موجود سبھی لوگ غلط ہیں لیکن وہ ٹھیک ہے۔
ہر آٹسٹک فرد دوسرے فرد سے مختلف ہوتا ہے۔ کچھ افراد بولنے اور بات سمجھانے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ کچھ افراد آئی کانٹیکٹ نہیں کر پاتے۔ انہی میں سے چند افراد بلا کے ذہین ہوتے ہیں۔ اگر ان کے ارد گرد موجود اس بات کو سمجھ لیں کہ ان کی دلچسپی کا مرکز کیا ہے؟تو وہ ان کی بہترین رہنمائی کرکے ان کو بہترین زندگی گزارنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
ان کے اندر بہت کچھ کرنے کا جذبہ بھی ہوتا ہے لیکن ٹھیک سمت نہ ملنے کی وجہ سے ان کا دماغ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پھر یہ مایوس اور ڈپریس رہنے لگتے ہیں۔ان میں سے چند افراد کو اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس جہاں میں ان فِٹ ہیں۔
کبھی کبھار یہ لوگ اپنی لگن میں اتنے محو ہو جاتے ہیں کہ ان کو آس پاس کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ اکثر یہ ایک ہی کام کو بار بار کرتے ہیں۔ جب تک اس سے مطمن نہیں ہو جاتے۔ایک ہی جیسے کپڑے جوتے پہننا چاہتے ہیں۔ ایک ہی رنگ کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لاتے ہیں۔ ایک جیسا کھانا کھانے کی خواہش کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مشہور سائنسدان نیوٹن ،آئن اسٹائن اور ہاکنگ بھی آٹزم جیسی موروثی کیفیت میں مبتلا تھے۔ ہم اس کو بیماری نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ ایک کیفیت کا نام ہے اور اکثر یہ کیفیت موروثی ہوتی ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق اگر بچے کے دادا یا نانا کے جینز میں یہ جرثومے موجود ہیں تو وہ اس کی اولاد کی اولاد میں منتقل ہونگے۔
کنگ کالج لندن سے تعلق رکھنے والے معاون تحقیق دان ایوی کے مطابق، انسانی نفسیات کے حوالے سے ایسا پہلی بار بتایا جارہا ہے کہ دادا اور نانا کی زندگی گزارنے کا انداز ان پر اثر انداز ہو سکتا ہے’۔
اس تحقیق کے مطابق جینز میں موجود ابنارمل سیلز آپ کے بیٹے یا بیٹی کو تو نقصان نہیں پہنچاتے لیکن آنے والی نسلوں میں آٹزم کے خطرات پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
آئن سٹائن سمیت سبھی آٹسٹک نامور شخصیات اگر دنیا میں کچھ کر پائی ہیں تو اس میں اُن کے آس پاس کا ماحول اور اُن میں موجود لوگوں کا تعاون تھا۔۔۔
اگر آئن سٹائن ، بل گیٹس ، نیوٹن ، ہاکنگ پاکستان ، انڈیا یا بنگلہ دیش جیسے ممالک میں پیدا ہوتے تو ان کو پہنچی ہوئی سرکار ، اللہ والے اور سائیں جیسے القاب سے نوازا جاتا ۔
ہم پہنچی ہوئی سرکار اور بابوں کی تلاش میں رہنے والی قوم ہیں اور ایسے بچوں کے علاج کے لئے ہم اُنہیں پہنچی ہوئی سرکار وں کے مزاروں پر حاضری صرف اسی غرض سے دیتے ہیں کہ شاید ماتھا ٹیکنے، دیے کا تیل خریدنے، مزار کی جالی کے ساتھ دھاگہ باندھنے، منت اور چڑھاوے چڑھانے سے ہمارا سائیں بچہ ٹھیک ہو جائے گا جبکہ یہ بچہ اس موروثی کیفیت کا شکار ہوتا ہے۔
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اگر نیوٹن پاکستان میں پیدا ہوتا تو جس درخت کے نیچے وہ بیٹھا تھا اُسے ضرور” درختاں والی سرکار یا سیباں والی سرکار کے نام سے یاد کیا جاتا۔
وہ تو اس کی قسمت اچھی تھی کہ پہنچی ہوئی سرکاروں کی دھرتی پر پیدا نہیں ہوا،ہمارے ہاں آٹسٹک لوگوں کو عموماً پیر فقیر اور مجذوب ہی مانا جاتا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ یہ آٹسٹک لوگ کبھی کبھی اتنی اعلیٰ و ارفع بات کر جاتے ہیں کہ عام آدمی اس کا گماں بھی نہیں کر سکتا اور کبھی کبھی ایسی عجیب و غریب حرکات کرتے ہیں کہ جنہیں سوائے اِن کے ماں باپ کے کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔

آخر میں یہی کہنا چاہوں گی اگر آپ کے آس پاس ایسے لوگ موجود ہیں تو اُن کو سمجھنے کی کوشش کیجئے کیونکہ وہ آپ کو اور آپ کی کہی ہوئی باتوں کو اُس طرح سے نہیں سمجھ پاتے، جس طرح ہم سمجھ بُوجھ والے اُن سے توقع کر بیٹھتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں