• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اس کائنات میں اگر کوئی پریشان ہے تو مسلمان۔۔اسد مفتی

اس کائنات میں اگر کوئی پریشان ہے تو مسلمان۔۔اسد مفتی

فرانس اور بیلجئم کے بعد اب ہالینڈ میں بھی برقع پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ہالینڈ کی حکومت نے برقع،نقاب،حجاب،یا جلباب سمیت چہرہ ڈھکنے والے لباس یا پورے چہرے کو چھپانے والے سکارف یا ہیلمٹ کے پہننے پر بھی پابندی عائد کردی ہے،ہالینڈ کی وزیر داخلہ الزبتھ سپیس کا کہنا ہے کہ کابینہ کا یہ فیصلہ ہے کہ برقع،نقاب،حجاب وغیرہ جن سے چہرہ نظر نہ آئے کے پہننے پر مکمل پابندی ہوگی،انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ یہ پابندہ صرف برقع یا دیگر اسلامی ملبوسات پر نہیں،بلکہ یہ پابندی چہرہ چھپانے والی ہر چیز پر ہی ہوگی۔
ان کے پہننے سے زیادہ سے زیادہ 380یوروجرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
وزیر داخلہ نربتھ سپیس نے کہا ہے کہ یہ بات اہم ہے کہ کھلی سوسائٹی میں لوگ بغیر کسی بندھن رکاوٹ یا مردے ے ایک دوسرے سے ملیں۔
ستمبر 2019میں پابندی کی تجویز ریاستی کونسل کو بھی بھیجی گئی تھی،جس نے اس تجویز کو ملتوی کردیا تھا۔
بہر حال اب پوری طرح اس قانون کو نافذ کردیا گیا ہے۔
مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو یہاں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اس سے قبل فرانس،سوئٹزرلینڈ،بیلجئم میں برقع حجاب،نقاب یا جو بھی کہہ لیں پر پابندی عائد کرچکے ہیں،باقی ملکوں میں پردہ،برقع،حجاب اور نقاب کس حال میں ہے،آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
بیلجئم میں برقع پر پابندی سے متعلق قانون پر عمل درآمد 23جولائی 2019 سے شروع ہوگیا ہے،جبکہ اپریل میں فرانس نے بھی حجاب پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر ڈیڑھ سو یورو کا جرمانہ عائد کررہا ہے،ایسے افراد جو خواتین کو چہرہ ڈھانپنے پر مجبور کریں گے،انہیں 30ہزار یورو جرمانہ او ر دو سال تک کی سزا سنائی جائے گی،یاد رہے کہ فرانس میں 65لاکھ کے لگ بھگ مسلمان بستے ہیں،جو یورپ کے کسی بھی ملک سے زیادہ تعداد میں ہیں۔
مغربی یورپ میں ہالینڈ،بیلجئم اور فرانس کے علاوہ اٹلی اور سوئٹزرلینڈ میں   بھی برقع پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔اور پارلیمنٹ نے منظوری دی ہے،سوئٹزرلینڈیورپ کا پانچواں ملک ہے جہاں پر برقع پر پابندی عائد کردی گئی ہے،کہ وہاں کی پارلیمنٹ میں دائیں بازو کی شدت پسن جماعت نے برقع پر پابندی کی قرارداد پیش کردی گئی ہے۔جس کی تائید میں 102ووٹ ملے ہیں،جبکہ 77ارکان پارلیمنٹ نے اس قرار داد کی ممانعت کی ہے،
اٹلی کی ایک پارلیمانی کمیٹی نے ایک ایسے سودے کی منظوری دے دی ہے۔جس کے تحت ملک میں خواتین کے نقاب پہننے پر پابندی عائد کردی جائے گی۔اس بل کو حکومتی اتحاد کی حمایت حاصل ہے،اور جلد ہی وہ اس بل پر ووٹنگ کرے گی،اس بل کے مطابق اٹلی میں کسی بھی ایسے برقع،حجاب یا نقاب پر پابندی عائد کردی جائے گی،جس سے چہرہ چھپتا ہو،اگراطالوی پارلیمنٹ نے یہ بل منظور کرلیا(جس کے 85فیصد چانسز ہیں تو)پردہ کرنے پر ڈیڑھ سو سے تین سو یورو جرمانہ اور کمیونٹی سروس کی سزا دی جائے گی۔
یورپ سے دور آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز میں برقع پوش خواتین کے لیے لازمی ہوگیا ہے کہ وہ پولیس کے حکم دینے پر اپنے چہرے سے نقاب ہٹائیں،پولیس کسی بھی باپردہ خاتون کو کہہ سکتی ہے (آپ اسے حکم مانیں یا گزارش)نقاب،پردہ،ہیلمٹ،یا دوسری مذہبی پوشش کو ہٹا کر اپنی شناخت کروائیں،چہرے سے نقاب ہٹانے پر 220آسٹریلین ڈالر جرمانہ،اور ایک سال کی سزا ہوسکتی ہے،تاہم اگر کسی کو کھلے عام اپنی شناخت ظاہر کرنے پر اعتراض ہے تو وہ تخلیے میں اپنے شناخت ظاہر کرسکتے ہیں،لیکن چہرہ سے نقاب ہٹانا ضروری ہے،
آسٹریلیائی ریاست وکٹوریہ نے بھی نیو ساؤتھ ویلز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک نیا قانون نافذ کیا ہے جو ہوبہو ساؤتھ ویلز کے قانون سے ملتا جلتا ہے،یعنی پولیس کو برقع پوش مسلم خواتین کو چہرے سے نقاب اٹھانے کا حکم،خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔
آسٹریلیا کے پڑوسی ملک نیوزی لینڈ میں بھی چہرے کا نقاب اور حجاب تنازع کا سبب بنا ہوا ہے،جہاں سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی طالبہ کو ایک پُرہجوم بس سے اتار دیا گیا تھا،کہ بس کے ڈرائیور نے اس کے نقاب پر اعتراض کیا تھا بس سے اتارنے کے بعد جو ہر سعودالشوبتی نامی یہ طالبہ سڑک پر ہی زاروقطار ورنے لگی،اس واقعہ سے دو روز قبل اسی کمپنی این زیڈ بس سروس کے ایک ڈرائیور نے ایک پاکستانی عورت کو چہرہ سے نقاب ہٹانے کا “حکم “دیا تھا۔
پے در پے اس نوعیت کے واقعات کس جانب اشارہ کررہے ہیں،اس کے لیے کسی کالج کی ڈگری کی چنداں ضرورت نہیں ہے،ایک مثبت امر یہ ہے کہ نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ برقع یا نقاب اسلامی عقیدے کا ایک حصہ ہے اور مسلم خواتین کو اس کا حق حاصل ہے،فریقین کو ایک دوسرے کے عقائدو مذاہب کا احترام لازم ہے،لیکن وزیراعظم نے اس بات کی بھی وضاحت کردی ہے،کہ بعض حالات میں اور بعض مقامات پر سکیورٹی اسباب کی بنا پر برقع اتارناچہرے سے نقاب ہٹانا ازحد ضروری ہوجاتا ہے،ادھر این زیڈ سروس کے جنرل مینجر نے کہا ہے کہ کمپنی کے ڈرائیور کا اعتراض مذۃبی بنیادوں پر قطعی نہیں تھا،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ نفسیاتی مرض کا شکار ہیں،اور وہ برقع اور نقاب کو دیکھتے ہی خوف زدہ ہوجاتے ہیں،اور بسوں میں خود کش حملہ آوروں کا تصور کرکے ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں،
یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان بنیادوں پر ڈرائیوروں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی،اور نہ یہ ایسا کوئی قانون ہے۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ شناخت اور پہچان کی تجارت نہیں ہوسکتی،اور دنیا میں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ بے وقوف پُر یقین اور عقلمند شک و شبہ میں گِھرے رہتے ہیں۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply