• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عورت نے اپنے خلاف ریاست کا بیانیہ کیسے تسلیم کیا ؟۔۔سیّد علی نقوی

عورت نے اپنے خلاف ریاست کا بیانیہ کیسے تسلیم کیا ؟۔۔سیّد علی نقوی

عورتوں کے حقوق کی بات میں نے پوری شدت سے پہلی بار اس وقت سنی کہ جب جتوئی کی مختاراں مائی کا کیس منظرِ عام پر آیا تو ملتان اور جنوبی پنجاب میں این جی اوز کے وومن ایمپاورمنٹ کے پراجیکٹس کی بھرمار ہوگئی اور ہر کوئی سول سوسائٹی کا نمائندہ بن کر خواتین پر عدم تشدد کی بات کرتا نظر آتا تھا یہاں تک کہ پرویز مشرف کو انٹرنیشنل میڈیا نے مختاراں مائی سے متعلق سوال پوچھ پوچھ کر زچ کر دیا اور پرویز مشرف نے فرمایا کہ یہ عورتیں باہر کے ملکوں کی توجہ اور پناہ حاصل کرنے کے لیے اس طرح کے کام کرتی ہیں جس پر مختاراں مائی نے جواب دیا تھا کہ میں آج بھی پاکستان میں ہوں لیکن اب پرویز مشرف باہر پناہ لے چکے….
پاکستان میں خواتین کے تحفظ کی صورتحال بہت خراب ہے یہ کوئی نئی بات نہیں لیکن ہراسانی اور تشدد کی جو حالیہ لہر ہے وہ شدید ہے اس لہر کو سمجھنے کے لیے ہمیں نفسیاتی اور معاشرتی ماہرین کی ضرورت ہے کہ جو جو تجاویز وہ پیش کریں ان پر عمل کیا جائے مثلاً نور مقدم کیس کہ جس میں لڑکی اور لڑکے کا بظاہر ایک خوشگوار تعلق اس انجام کو پہنچے گا یہ سوچنا بھی مشکل تھا لیکن ہوا یہ کہ اس لڑکے نے نہ صرف لڑکی کو قتل کیا بلکہ اس کے سر کے ساتھ فٹبال کھیلتا رہا اب اس کے قانونی پہلو تو ہیں ہی لیکن اس کے بے پناہ نفسیاتی اور معاشرتی پہلو بھی ہیں جو میرے خیال میں زیادہ اہم ہیں۔

اسی طرح جو کچھ چودہ اگست کے دن مینارِ پاکستان کے سائے میں ایک ہجوم مختلف لڑکیوں کے ساتھ کرتا رہا جہاں ایک طرف انتظامیہ، پولیس اور حکومت کی ناکامی ہے وہیں اس سماج کی ایک مشترکہ ناکامی بھی ہے کہ ہمارے معاشرے کا فرد ہی نہیں بلکہ ہجوم بھی شعور کے اس درجے تک نہیں پہنچ سکے کہ جہاں ایک عورت کی توقیر کو سب سے اہم مان لیا جاتا ہے، یہ ہجوم نوجوانوں پر مشتمل ہوتا تو بھی بات تھی ادھیڑ عمر لوگ بھی بہتی گنگا میں نوجوانوں کے ساتھ ڈبکیاں لگاتے رہے کہ جن کے گھر میں اسی عمر کی بیٹیاں اور بہوئیں تھیں….
میں اپنے لڑکپن کے دنوں سے ایک بات سوچ سوچ کر حیران ہوتا تھا کہ جب میں لڑکوں کو لڑکیوں کی پشت پر ہاتھ لگاتے اور انکو مختلف طریقوں سے مَس کرتے دیکھتا تھا کہ ایک لمحے سے بھی کم کے لمس سے کسی کی کمر یا اس سے نیچے کے حصے کو چھو کر بھاگ جانے میں آخر وہ کون سا مزہ ہے جو حاصل کیا جا سکتا ہے آخر کار یہ سمجھ آیا کہ اس میں جسمانی نہیں بلکہ ذہنی لذت ہے اور ظاہر ہے اس لذت کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے اس کی معاشرتی، ذہنی، نصابی اور گھریلو تربیت کو لے کر کئی وجوہات ہیں ، آئیے ان وجوہات کو تفصیل سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں…

پاکستان میں چونکہ ڈیٹا سائنس نامی کوئی چیز پڑھائی نہیں جاتی اس لیے اعدادوشمار کے باب میں پاکستان ایک بوگس ترین جگہ ہے لیکن معلوم اعدادوشمار کے مطابق 1958 سے لیکر 1983 تک پاکستان میں خواتین کے خلاف ہراسانی اور تشدد میں کمی کی شرح سب سے بہتر رہی ہے یہی وہ زمانہ ہے کہ جب پاکستانی درسگاہوں میں خواتین بڑی تعداد میں داخلہ لیتی رہی ہیں، سن 1985 سے سن 1988 تک پاکستان میں باہر ملکوں سے آنے والی خواتین مسافروں کی تعداد میں 38 ٪ کمی ہوئی جبکہ 1988 کے بعد 1983 کے نسبت یہ کمی 51 فیصد تک گر گئی اور 2019 تک یہ تعداد 1983 کے نسبت تناسب میں 84 فیصد تک گر چکی ہے اگر آسان الفاظ میں بیان کروں تو بات یہ ہے کہ اگر 1983 میں پاکستان میں ایک سال میں 100 خواتین باہر کے ملکوں سے آتی تھیں تو 2019 میں صرف سولہ خواتین آتی ہیں اس میں جہاں ایک طرف امن و امان کی صورتحال کا ایک بہت بڑا ہاتھ ہے وہیں دوسری جانب خواتین کو لیکر ہراسانی لوٹ مار، ریپ، اغوا، قتل سب شامل ہے اور اس سب پر سب سے بڑھ کر پاکستانی ریاست کا جو رویہ خواتین کے ساتھ زیادتی کے ملزمان کی جانب رہا وہ باہر بیٹھے لوگوں میں مز ید تشویش پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے باہر کی دنیا کی خواتین یہاں آنے سے گریز کرتی ہیں۔۔
اگر آپ پاکستانی معاشرے کی اکثریت کی بات کریں جو کہ بظاہر مذہبی ہے وہاں میرے نزدیک مسئلہ گھر سے خراب ہو رہا ہے، بیٹے کی خواہش میں پہلے بیٹیوں کی لائن لگائی جاتی ہے، اور جب بیٹا پیدا ہو جائے تو اس کی بڑی بہنوں کو اس کا غلام بنا دیا جاتا ہے اچھا کھانا بھائی پہلے کھائے گا بعد میں بہنوں کو دیا جائے گا ہر اچھی چیز پر بھائی کا حق دراصل بہنوں کو یہ بتاتا کہ یہی زندگی کا واحد چلن ہے کہ جب وہ بھائی بہنوں کی گود میں پل پل کر آٹھ سال کا ہو جاتا ہے تو اُس آٹھ سالہ بھائی کی نگرانی اور حفاظت میں پچیس سال کی بہن باہر جا پاتی ہے ورنہ اس کا باہر جانا ممنوع رہتا ہے بھائی جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے اس کے پاس سائیکل، موٹر سائیکل آ جاتی ہے لیکن بڑی بہنیں ان آسائشوں سے محروم ہی رہتی ہیں یہ وہ خاموش پیغامات ہیں کہ جو ہمارے معاشرے کے اکثر گھروں میں بچیوں کو بچپن میں ہی موصول ہو جاتے ہیں۔
جن سکولوں میں ہماری ستر سے اسی فیصد بچیاں پڑھتی ہیں وہاں کا نصاب جو کچھ انکو بتاتا ہے وہ یہی ہے کہ عورت مرد کی پسلی سے بنی تھی اور اس کا کام مرد کو آسائش اور لذت پہچانے کے سوا کچھ نہیں ہے، نصابی کتب میں چھپنے والی ہر تصویر میں عورت کو دوپٹے میں لپٹا ہوا دکھا کر اس پر ایک ہی طرح کے لباس پہننے کی ذمہ داری عائد کر دی جاتی ہے جبکہ اس کے بر عکس مرد سے کسی بھی ایک لباس کے زیب تن کئے جانے کا ہماری درسی و نصابی کتب مطالبہ نہیں کرتیں، یہ تمام وہ نفسیاتی عوامل ہیں جو ایک عورت کو چند حدود میں مقید کرتے ہیں اور اس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف ان پر عمل کرے بلکہ وہ ان پر مطمئن بھی رہے….

ہمارا نصاب چونکہ مذہبی رجحانات کا نمائندہ نصاب ہے اس لیے اس کا سارا زور اس بات پر ہے کہ وہ اگر سائنس کی کتب بھی ہوں تو ان میں مذہب کا کوئی پہلو ضرور شامل ہو مثلاً اگر کیمسٹری کی کتاب ہے تو اس میں زور اس بات پر ہے کہ مسلمان کیمیا دانوں کے کارناموں پر روشنی ڈالی جائے اگر فزکس ہے تو مسلمان سائنسدانوں کے کارنامے اجاگر کئے جائیں اگر بائیو ہے تو مسلمان بیالوجسٹ کون کون یہ بتایا جائے اسی طرح جب اسلامیات پڑھائی جاتی ہے تو اس میں یہ بتایا جاتا ہی کہ اللہ کے مرد کو عورت پر حاکم مقرر کیا ہے اور عورت پر مرد کی اطاعت واجب ہے، یہی بچی جب بڑی ہوتی ہے اور شادی کا مرحلہ آتا ہے تو دراصل یہ مالک کی تبدیلی کی ایک رسم ہے یہ مالک زیادہ با اختیار ہے کیونکہ وہ اب جنسی عمل بھی سرانجام دے گا جو باپ اور بھائی نہیں کرتے تھے اب اس کی زندگی کا مقصد اپنے شوہر کی جنسی خواہش کی تکمیل کے سوا کچھ نہیں ہونا چاہیے اور علما کا حکم یہ ہے کہ اگر اونٹ کی کوہان پر سواری کے دوران بھی مرد عورت سے مباشرت کا مطالبہ کرے تو وہ رد نہیں کر سکتی اور اگر وہ رد کرے گی تو تمام رات فرشتے اس پر لعنت کریں گے….
یہ ہے وہ تربیت کہ جو پاکستان کے ستر سے اسی فیصد گھروں میں ہم بچیوں کی کرتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ قیدی کو اپنی قید، بیٹریوں اور ہتھکڑیوں سے پیار ہو جاتا ہے وہ اس قید کو ہی کل دنیا تصور کر لیتا ہے اور اس طرح کی ذہنی قید کی حالت کی عورتیں آپ پاکستانی سوشل میڈیا پر جا بجا دیکھ سکتے ہیں کہ جو مکڈونلڈ کھاتی ہوں گی، لمز اور آئی بی اے سے پڑھی ہونگی، برینڈز کے کپڑے پہنتی ہوں گی، ہاتھ میں آئی فون بارہ پلس ہوگا، پچاس لاکھ کی گاڑی ہوگی لیکن وہ سوال یہی پوچھتی ہیں کہ آخر چودہ اگست کو اقبال پارک جانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟؟ جب باہر نکلو گی تو لڑکے توچھیڑیں گے؟؟ تمہاری کھلے گلے کی قمیض دیکھ کر مرد کیسے کنٹرول کرے؟؟ اور یہی باتیں جب انکا بیٹا انکے ساتھ بیٹھا برگر کھاتے ہوئے سنتا ہے تو وہ بڑا ہو کر ظاہر جعفر بنتا ہے، وہ شاہ رخ جتوئی بنتا ہے، وہ وہ بنتا ہے کہ جس کی پراڈو سے گلی کی کوئی بھی جاتی ہوئی لڑکی محفوظ نہیں رہ پاتی کیونکہ اس نے بچپن میں ماما سے سنا تھا کہ جو لڑکیاں سڑکوں پر گھومتی ہوں وہ اسی لیے ہیں کہ وہ مردوں کا نشانہ بن جائیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے شہری علاقوں میں بھائی اپنی گرل فرینڈ سے بہن کی دوستی کرا سکتا ہے لیکن بہن کے بوائے فرینڈ کا دوست نہیں بن پاتا بہنیں اپنے بھائی کے افیئر چلانے میں اسکی مدد بھی کرتی ہے لیکن یہ سہولت آج تک کسی بھائی کو دیتے نہیں دیکھا غیرت تو تب بھی آنی چاہیے کہ جب بہن سے اس سلسلے میں مدد لی جاتی ہے لیکن یہ یک رخی غیرت بھی صرف اس انتہائی اسلامی معاشرے میں ہی دیکھی جا سکتی ہے…

Advertisements
julia rana solicitors london

اس وقت پاکستانی سوشل میڈیا پر موجودہ ایسی ہی کسی ماں کے لاڈلے اور اپنے سے کئی سال چھوٹے بھائی کی نگرانی میں پلنے والی بہنیں یہی سوال کرتی نظر آتی ہیں کہ رات کو موٹر وے پر اکیلی نکلی ہی کیوں؟؟ ماں باپ چھوٹی زینب کو چھوڑ کر باہر گئے ہی کیوں؟؟ اس لڑکی نے کسی نا محرم سے دوستی کی ہی کیوں؟؟ یہ ٹک ٹاکر مینار پاکستان گئی ہی کیوں؟؟ لڑکیاں کھلی چنگ چی میں بیٹھی ہی کیوں؟؟ جب ایک عورت یہ سوال کرتی ہے تو یہ تمام سوال صرف یہ بتاتے ہیں کہ عورت نے ریاست کا بیانیہ مان لیا ہے وہ بیانیہ کہ جو اس کے خلاف ہے، جو اس پر وہ وہ پابندیاں لگاتا ہے کہ جس کا مطالبہ وہ اسی معاشرے میں رہنے والے مردوں سے نہیں کرتا ایک ماں جب بیٹی کی تعلیم اس لیے چھڑوا دیتی ہے کہ باہر اس کی عزت کو خطرہ ہے تو وہ بیٹے کو یہ بتا رہی ہوتی ہے کہ جا میں نے اپنی بیٹی کی عزت محفوظ کر لی اب جو دل کرے کر اور وہی بیٹا جب کسی کی عزت دری کر کے پنچایت میں پہنچتا ہے تو اسکی جان بچانے کو وہی گھر میں چھپا کر رکھی بارہ، تیرہ، چودہ سالہ بہن کسی ساٹھ، ستر سالہ کو دے دی جاتی ہے…. جو جو لوگ اس طرح کے سوال کرتے ہیں ان سے ایک سوال ہے کہ ابھی چار دن پہلے گوجرانوالہ میں ایک جوان لڑکی کی لاش کو قبر سے نکال کر اس کی بے حرمتی کی گئی اور بعد میں لاش کھیت میں چھوڑ دی گئی کیا اب سوال یہ ہو گا کہ اکیلی کو دفنایا ہی کیوں؟؟ وہ مرد کے جس کے ہاتھوں سے نہ بچہ محفوظ ہے نہ بکری، بلی، کتیا، گدھی اس سے آخر کوئی سوال کیوں نہیں پوچھا جاتا یہ سوال پوچھنے والے اس وقت کہاں چلے جاتے ہیں کہ جب کچھ دن پہلے مولویوں کی کچھ داڑھی مونچھ والے لڑکوں کے ساتھ ویڈیوز لیک ہوئی تھیں؟؟ یہ وہی معاشرہ ہے کہ جہاں کوٹھے پر بیٹھی لڑکی وحشیا اور اس کا گاہک معزز کہلاتا ہے، یہ وہ معاشرہ ہے کہ جہاں ایک ماں کبھی اپنے بیٹے کو یہ نہیں سمجھاتی کہ باہر ہر لڑکی کو عزت کی نگاہ سے دیکھا کرو، ہر لڑکی کی عزت تیری بہن کی عزت جیسی ہے جبھی منٹو نے کہا تھا کہ ہم عورت صرف اسی کو سمجھتے ہیں کہ جو ہمارے گھروں میں ہوں باقی تو گوشت کی دوکانیں ہیں جن کے باہر ہم کتوں کی طرح کھڑے رہتے ہیں….
اگر اس معاشرے میں آپ عورت کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس معاشرے کی عورت کو یہ احساس دلائیے کہ اس کا وجود باعث نعمت و برکت ہے نہ کہ باعثِ شرم عورت کو یہ بتانا ہوگا کہ وہ افضل ہے نہ کہ مفضول ہمارے والدین کو اپنے بیٹوں کو یہ بتانا ہوگا کہ اگر تو نے کسی بھی لڑکی کو گندی نظر سے دیکھا تو ہم تمہارے ساتھ نہیں تمہارے خلاف کھڑے ہوں گے اس معاشرے کو اس معاشرے کے مردوں کو یہ بارو کرانا ہوگا کہ اب اگر پبلک میں یہ تماشا ہوتا نظر آیا تو تم زندہ بچ کر نہیں نکل پاؤ گے اگر یہ نہ کیا تو وہ دن دور نہیں کہ جب یہ چنگ چیوں پر چڑھنے والا کراؤڈ آپکے بیڈ روم کے دروازے توڑ کر اندر داخل ہو جائے گا اور شاید کوئی آپ سے پوچھے کہ تم رات کو سوئے ہی کیوں؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply