ہمیں ہندوستان کو بچانا ہوگا۔۔۔۔۔ابھے کمار

آزادی ملنے سے دو سال قبل بمبئی  میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے، دلتوں اور دیگر محروم طبقات کے مسیحا ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے سیاسی جماعت کو یہ نصیحت کی تھی کہ اکثریت حاصل کرنے کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ حکومتِ  وقت جو چاہے کرے۔اس اہم مسئلہ پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے امبیڈکر نے کہا کہ جمہوریت میں سرکار اُس پارٹی کی بنتی ہے جو اکثریت حاصل کرتی ہے، مگر یہ اکثریت ریلیٹو ہوتی ہے۔ یہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی۔ اس لیے کوئی بھی سیاسی جماعت اکثریت حاصل کرکے  اپنی مرضی دوسروں پر نہیں تھوپ سکتی ہے۔ مگر آج کل حکمران  جماعت ان باتوں کو فراموش کرتی جا رہی ہے۔

جو لوگ یہ بے تکی بات کرتے ہیں کہ ایک بار کوئی سیاسی جماعت انتخابات جیت لیتی ہے اور اکثریت حاصل کرکے  سرکار بنا لیتی ہے تو وہ تنقید سے پاک ہو جاتی ہے۔ حلانکہ ایسی بات کر کے وہ بہت سارے تلخ حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ذرا پوچھیے اُن سے کہ اکثریت کیسے حاصل ہوتی ہے؟ کیوں کچھ سماجی گروپس  ایک وقت کے بعد اقتدار سے باہر ہوجاتے ہیں  اور کچھ دوسرے سماجی گروپس پورے سسٹم پر قابض ہو جاتے ہیں؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ آزاد بھارت میں ۴۰ فیصد کے قریب آبادی والا دلت اور مسلم سماج سے کوئی وزیر اعظم کے منصب تک نہیں پہنچا ہے، وہیں آٹےمیں نمک کے برابر اعلی ذات اور طبقے سے آنے والے لوگ ہر بار وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہو جاتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ مسلم سماج سے آنے والے لوگوں کی تعداد سال در سال پارلیمنٹ اور اسمبلی میں کم ہوتی جا رہی ہے؟ کیا متناسب نمائندگی کے بغیر ہندوستانی جمہوریت مضبوط اور انکلوژوہو سکتی ہے؟ اگر نہیں تو اسے اپنانے میں بہت ساری سیاسی جماعتوں کو کیا دقّت ہے؟

ان سوالات کا جواب آپ تب ہی تلاش کر پائیں گے جب آپ جمہوریت کی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔امبیڈکر ان نقاط سے بخوبی باخبر تھے۔لہٰذا وہ بار بار یہ دہراتے تھے کہ حکمراں سیاسی جماعت و سماجی گروپ کو اپنی طاقت کے زور پر اپنے حریفوں کو دبانا نہیں چاہیے۔یاد رکھیے کہ کوئی بھی سرکار ایک مخصوص ذات یا طبقے کی سرکار ہوتی ہے، جو کبھی بھی سبھی لوگوں کے مفادات کو پورا نہیں کر سکتی ہے۔

ان باتوں پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے امبیڈکر نے کہا کہ جب اقلیت، دلت اور دیگر پسماندہ طبقات اپنے واجب مطالبات کو لے کر تحریک کھڑا کرتے ہیں تو اعلی ذات کے لوگ اسے مسلکی اورکمیونل کہہ کر خارج کر دیتے ہیں۔ وہیں اعلی ذات کے لوگ اپنے خود کے مفادات کے لیے شور مچاتے ہیں تو وہ اس کو قومی مفاد کا نام  دے دیتے ہیں۔ جو کچھ امبیڈکر کے زمانے میں دیکھنے کو ملا وہ آج بھی دہرایا جا رہا ہے۔ آج بھی نام نہاد دیش بھگت اپنے مفاد کو پورا کرنے کے لیے راشٹر کی دہائی دیتے ہیں اور جو اُن سے اپنی غیر اتفاقی ظاہر کرتا ہے اُسے دیش دروہی کہا جا رہا ہے۔کیا یہ سب کچھ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے؟

یہ بھی تو حقیقت ہے کہ کوئی بھی حکمراں جماعت کبھی بھی تمام رائے دہندگان کا ووٹ حاصل  نہیں  کر پاتی ہے۔ اس بات سے بھی انکار کرنا مشکل ہے کہ سماج کے اندر مختلف سماجی طبقات کے مفادات ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ کئی بار تو ان کے بیچ آپسی اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت یا حکومت صحیح معنوں میں اِن تمام مفادات کو ایک ساتھ پورا نہیں کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بصیرت رکھنے والے لیڈروں کی یہ کوشش رہتی ہے  کہ ان جھگڑوں کو کم کیا جائے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی جائے۔

سمجھدار لیڈران جب سرکار بنانے کا عمل شروع کرتے ہیں تو ان تمام باتوں کو فراموش کردیتے ہیں کہ کس نے اُن کو ووٹ دیا اور کس نے نہیں دیا۔ ان کا موقف بی جے پی کی لیڈر مینکا گاندھی کی طرح تنگ نظر نہیں ہوتا۔ وہ کبھی یہ نہیں کہتے کہ جنہوں نے اُن کو ووٹ نہیں دیا وہ نوکری مانگنے کے لیے اُن کے پاس نہ آئیں۔مختصراً، اکثریت حاصل ہوجانے اور حکومت بنا لینے کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ سرکار جو چاہے کرے اور جنہوں نے اُنہیں ووٹ نہیں دیا اُن کی سلامتی کی پرواہ نہ کرے۔

مگر افسوس کی بات ہے کہ حکمران جماعت سے جڑے ہوئے عناصر اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ پانچ سالوں کے لیے اُنہیں کچھ بھی کرنے کا لائسنس مل گیا ہے۔ان کو اس کا تکبر اور گھمنڈ ہے کہ انتخابات جیت کر انہوں نے سب کو خاموش کر دیا ہے اور ان کا مقام مقدس ہوگیا ہے۔

مگر کسی بھی صحت مند جمہوریت میں سیاسی جماعت رائے دہندگان مذہب، ذات پات اور فرقہ کی بنیاد پر انتخابات نہیں لڑتی ہے۔اگر لڑنا بھی چاہے تو آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہندوستان میں بھارتی ہندو پارٹیاں یا قومی مسلم پارٹی کا قیام عمل میں نہیں آیا۔

اگر بھگوا عناصر ان باتوں کی اہمیت کو سمجھتے تو وہ اقلیتوں اور دلتوں کے ساتھ انصاف کرتے۔ اگر اُن کو اس مسئلے کی سمجھ  ہوتی تو وہ جھارکھنڈ کے کسی مسلم بھائی کو جے شری رام کہنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتے اور پھر مزاحمت کرنے پر اُنہیں  بے رحمی سے نہیں مارتے۔

تین طلاق کے مسئلہ کو لیجیے۔یہاں بھی حکمراں جماعت کی طرف سے زور زبردستی کی جا رہی ہے اور مشاورت کا راستہ نہیں اپنایا جا رہا ہے۔ سرکار کو بھی معلوم ہے  کہ زیادہ تعداد میں مسلم بھائی  ایک محفل میں تین بار طلاق، طلاق، طلاق بول کر  طلاق کو غلط مانتے ہیں۔ سب یہ سمجھتے ہیں کہ کسی عورت کو اچانک ٹھوکر مار کر گھر سے باہر نکال دینا ایک غیر انسانی عمل ہے۔ مگر اس کے باوجود مسلم سماج تین طلاق کے مسئلے پر حکمرا ن کے ساتھ اقلیتی سماج نہیں کھڑا ہے۔ یہ اس لیے کہ بھگوا جماعت کے بارے میں یہ تصور لوگوں کے ذہن میں بیٹھا ہوا ہے کہ بھگوا حکومت اس مسئلے کو ختم کرنے کے بجائے شور مچانے اور سیاست کرنے میں زیادہ یقین رکھتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم سماج اصلاح سے کترا رہاہے۔ کترا اس لیے رہا ہے کہ اس کو اس بات کا ڈر ہے کہ اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ ان کے مسائل کو دور کرنے سے زیادہ اُن کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت ہندوستان کے تشخص اور جمہوریت کی روح کے خلاف کام کر رہی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جس حکومت نے امن، بھائی چارگی، عوام کے رفاحی کاموں سے منہ موڑا ہے، اُسے عوام نے اسے خارج کر دیا ہے۔دوسرے الفاظ میں کہیں  تو حکومت کی مضبوطی اس کی فوجی طاقت سے کم اور عوام کے اعتماد کو جیتنے کی صلاحیت پر زیادہ منحصر ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جو سرکار کسی بھی فرد کو انصاف دینے میں ناکام ہے وہ عوام کے بیچ اپنی پکڑ کھو رہی ہے۔

انصاف نہ  کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ شرپسند کے حوصلے آج کافی بلند ہیں اور وہ محروم طبقات کو مسلسل ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ ان کو اس بات کا خوف بالکل بھی نہیں ہے کہ اگر انہوں نے قانون کو توڑا تو پولیس اور انتظامیہ ان کو سزا دے گی۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ سرکار میں بیٹھے لوگ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور معصوموں کو ستایا جا رہا۔ حال کے دنوں میں جس طرح جھارکھنڈ میں اقلیتی سماج سے تعلق رکھنے والے ایک بھائی کو جے شری رام کے نام پر پیٹا گیا وہ اس بات کی علامت ہے کہ موجودہ سرکار اکثریت حاصل کر تکبر میں مبتلا ہے اور وہ خود کو قانون اور آئین سے اوپر سمجھ بیٹھی ہے۔

یہ سب رجحانات ہندوستان اور جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔ لہٰذا سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا کے تشخص کو بچانا ہم سب کا فرض ہے۔ کوئی بھی سرکار یہ سیاسی جماعت کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے سکتا ہے کہ وہ آئیڈیا آف انڈیا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(مضمون نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں)

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply