دکھوں کا در کیا کھلا رہے گا ۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

انفرادی کرب کا تعلق بھی بیشتر اوقات اجتماعی کرب کے ساتھ ہوتا ہے۔ البتہ نفسیاتی کرب کی وجوہ کا شاید کوئی کونہ ایسا ہوتا ہو جو معاشرے کی ابتلاء کے کسی حصے میں پیوست ہو۔ سال کے آخری مہینوں میں کچھ مغربی ملکوں کے چین سٹورز میں ” بلیک فرائیڈے” منایا جاتا ہے۔
یہ سال میں ایک ایسا “جمعہ” ہوتا ہے جب “نیم شب” کو سپر سٹورز کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور آٹھ گھنٹوں کے لیے اشیائے صرف کی قیمتیں کئی گنا کم کر دی جاتی ہیں۔ لوگ جو سرشام ہی ایسے سٹورز کے باہر جمع ہونے لگتے ہیں، سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں دھکم پیل کرتے ہوئے دروازے کھلتے ہی سٹورز میں داخل ہوتے ہیں اور بلا سوچے سمجھے چیزوں پر ہاتھ صاف کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس دوران لوگوں کی ایک بڑی تعداد جانوروں سے بھی بدتر رویے کا اظہار کرتی ہے۔ لڑائیاں ہوتی ہیں، کمزور اور بے بس لوگوں کے تاحتٰی چھوٹے بچوں کے ہاتھوں سے چیزیں چھینی جاتی ہیں یا چھینے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان لوگوں میں کی اکثریت بھی معاشی طور پر کم خوشحال یا بدحال گھرانوں سے ہوتی ہے۔ یوں نسبتا” خوشحال معاشروں کی نچلی پرتوں کے آلام بھی باہم ہوتے ہیں چاہے معاشرے میں کتنی ہی آگاہی، شعور اور دسترس کیوں نہ پیدا کر دی جائے۔
پھر ایسے ملکوں کی تو بات ہی کیا کرنی جہاں ایک طرف تو معاشرے کی اکثریتی اور اقلیتی پرت میں معاشی فرق بہت زیادہ ہو وہاں سماجی سہولیات تک رسائی بھی انہیں کی ہو جو خوشحال ہیں۔ مہنگائی کا یہ عالم ہو کہ درمیانہ طبقہ بھی بہت سی اشیائے صرف خریدتے ہوئے ہچکچاتا ہو۔ ان کروڑوں لوگوں کی تو اوقات ہی کیا جو بس زندگی گذار رہے ہوتے ہیں۔ بیمار ہو جائیں تو علاج نہیں کروا سکتے۔ ذہین ہوں تو تعلیم کا حصول ضیق جاں بنا ہوتا ہو۔
گذشتہ پیرے میں جو لفظ کروڑوں لکھا ہے یہ تعداد صرف ایک ملک پاکستان کے لوگوں کی ہے جنہیں کھانے کو گوشت بقر عید کے موقع پر بھی شاید ہی مل پاتا ہو۔ جن لوگوں کو روٹی کے لالے پڑے ہوں کیا وہ ناانصافی پر مبنی کسی نظام کو تلپٹ کر کے رکھ سکتے ہیں؟ اور کیا تلپٹ کرنے کے بعد کوئی بہتر نظام رائج کر سکتے ہیں؟ آپ یقینا” پہلے انقلاب فرانس کی مثال دیں گے اور یہ بھول جائیں گے کہ انقلاب فرانس کی کوکھ سے نپولین نے جنم لیا تھا جو ایک عام فوجی افسر سے شہنشاہ فرانس بن گیا تھا اور ماسکو تک مار کرتا چلا آیا تھا، بالآحر قید ہو کر ایک جزیرے پر گمنامی کی موت مرا تھا۔ پھر آپ روس کی مثال دیں گے جہاں بالشویک انقلاب آیا تھا مگر یہ بھول جائیں گے اس انقلاب کے بعد کتنے بے گناہ لوگ موت کے منہ میں ڈالے گئے تھے۔ ایسے بے گناہ لوگوں کی تعداد بھی کروڑ سے زیادہ ہے۔
علاوہ ازیں ساری دنیا بظاہر مزدوروں کی حکومت کہلائی جانے والی حکومت، جسے دراصل دانشور اور سیاستدان چلاتے تھے، کے خلاف ہو گئی تھی پھر ایک بڑی جنگ ہوئی اس میں بھی کروڑوں لوگ لقمہ اجل بنے تھے۔ لیکن آپ تھکیں گے کہاں، چین کی مثال دیں گے یہ بھول کر کہ صرف لانگ مارچ میں ہی لاکھوں لوگ مارے گئے تھے۔
اس سے پہلے کہ آپ کوئی اور مثال دیں یہ بھی دیکھ لیں کہ سوویت یونین کا مقدر کیا ہوا۔ 29 نومبر 2015 کو روس کے نیشنل ٹی وی پر دکھایا گیا ہے کہ زندگی کے لیے انتہائی ضروری مجہز ایمبولینس کو آپ چار ہزار روبل کرائے پر لے کر بھونپو بجواتے ہوئے سرعت رفتاری کے ساتھ ہوائی اڈے پہنچ سکتے ہیں۔
منہ چھپا کر بتانے والا ڈاکٹر بتاتا ہے کہ تنخواہ کم پڑ جاتی ہے تو کیا کریں۔ اس سوال پر کہ کیا ٹریفک پولیس نہیں پوچھتی، جواب یہ کہ ٹریفک پولیس والے ڈاکٹر تھوڑا نہ ہوتے ہیں۔ چین میں کروڑ ہا کسان اور چھوٹی صنعتوں کے لاکھوں مزدور کیسی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں، مت پوچھیے۔
کیا دکھوں کا در کھلا رہے گا؟ امید پر دنیا قائم ہے۔ بالکل مساوی سماج تو ہو نہیں سکتا مگر ایسا سماج ضرور ہو سکتا ہے جہاں بہت بڑی اکثریت ترس ترس کر زندگی نہ گذارے البتہ “بلیک فرائیڈے” پر آٹھ گھنٹوں کے لیے کچھ لوگ چاہے جانور بن جائیں۔ ایسے سماج کی تشکیل کی خاطر بہت دکھ سہنے پڑتے ہیں جو ہمارے ملکوں میں لوگ سہہ رہے ہیں مگر ان دکھوں کے ردعمل کو منظم کیے جانے کی غرض سے کسی ایسی سیاسی پارٹی کا ہونا بھی ضروری ہے جو ان بہت سے لوگوں کا دکھ سمجھتی ہو اور اسے کم کرنے کا تردد بھی کر سکے۔
ایسی پارٹی کوئی نہیں ہے۔ مزدور کسان کا نام سبھی لیتے ہیں۔ جاگیرداری سرمایہ داری ختم کیے جانے کی بات سبھی کرتے ہیں جو خود بھی جاگیروں اور کارخانوں کے مالک ہیں۔ کچھ لوگ ہوا کرتے تھے، درد دل رکھنے والے۔ معاشرے کو بدل دینے کی خواہش کرنے والے مگر آج سے دو تین دہائیاں پیشتر تو وہ اپنی اپنی اناؤں کا شکار ہو کر اپنی اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنائے رہے۔ پھر اغیار نے انہیں راغب کیا اور انہیں ان کے اپنے اپنے مندر بنا کر دے دیے۔ یہ مندر این جی اوز کہلاتے ہیں۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں وہ اقدامات نہ ارتقائی ہیں نہ انقلابی بلکہ اصلاحی ہیں، جن پر وہ خوش ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کی اپنی زندگیاں سپھل ہو چکی ہیں۔ وہ غیر ملکوں میں مختلف سرگرمیوں میں شریک ہونے جاتے ہیں۔ پنج ستارہ ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں اور سیر اس کے علاوہ۔ جب تک انہیں کسی قسم کے جھوٹے انقلاب جیسے کہ “رنگین انقلابات” یا ” بہار عرب” جیسے انتشاراتی مبینہ انقلاب کا ایندھن نہیں بنایا جاتا وہ یہی سمجھتے رہیں گے کہ “ہوگا وہ کوئی اور جو قربان ہوا تھا”۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے لوگوں کو آگاہ کیا جائے، پھر منظم کیا جائے یعنی جماعت تشکیل جائے اور پھر قدم قدم ارتقاء کی جانب بڑھنے کی مہم چلائی جائے۔ دکھ بہت سہنے ہونگے مگر پٹ بھیڑے جا سکتے ہیں البتہ درز رہ جائے گی تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply