رمضان کی آمد اور مہینے کی مسلمانی۔۔سکندر پاشا

رمضان کی آمد آمد ہے، کراچی جیسے شہر میں رمضان کی رونقیں عروج پہ ہوتی ہیں۔ اس شہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی راتیں جاگتی ہیں۔ لیکن اس مہینے میں کچھ زیادہ ہی رونق ہوتی ہے اور سحری تک یہ رونق برقرار رہتی ہے، دن میں خاصا سناٹا ہوتا ہے اور ایک پرسکون سا ماحول بنا ہوتا ہے۔ دفاتر کے اوقات میں بھی معمولی تبدیلی اور کام کاج کرنے والے لوگ بھی اس مہینے میں  اپنے معمولات میں رد و بدل کر دیتے ہیں تاکہ رمضان کے روزے اچھے اور پر سکون گزریں۔

مساجد بھی نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، خاص طور پر رمضان کے آخر عشرے میں یہ روح پرورفضاء قائم ہوجاتی ہے جس میں شبینہ کی محفلیں، عبادات و اذکار اور روشنیوں کی چکا چوند میں نہائی ہوئی مساجد کے خوبصورت نظارے اس مہینے میں ایک خاص دینی، روحانی اور ملی جذبے سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ رونقیں عید کا چاند دیکھنے کے بعد ماند پڑجاتی ہیں جس کا انتظار گیارہ مہینے کیا جاتا ہے۔

الغرض رمضان ایک ایسا مہینہ ہے کہ انسان کی کیفیات پر اثر انداز ہوجاتا ہے اور خدا کی بندگی میں انسان کی یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ صحیح معنوں میں عبادت کی حلاوت کو محسوس کرتا ہے اور جب انسان کو تقوی حاصل ہوجائے تو خدا کی عبادت، اطاعت اور فرماں برداری میں لذت بھی محسوس ہوتی ہے۔

حضور علیہ السلام نے شعبان کے آخری دن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع کر کے خطبہ دیا اور اس میں رمضان کی عظمت و برکت کو بیان کیا اور یہ بھی بتایا کہ اس ماہ مبارک میں ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس ماہ مبارک کا روزہ اللہ تعالی نے فرض کیا ہے اور اس کے قیام کو سنت موکدہ بنایا اور نفل کو فرض اور فرض کو ستر فرض کے برابر قرار دیا ہے، یہ صبر کا مہینہ ہے جس کے بدلے جنت ہے اور یہ ہمدردی و غم خواری کا مہینہ ہے اور اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ حضور علیہ السلام کی ایک حدیث مبارکہ میں یہ مضمون وارد ہے کہ “ہر چیز کی زکوۃ ہے اور جسم کی زکوۃ روزہ ہے۔”

یوں تو مکمل رمضان رحمتوں و برکتوں کا مجموعہ ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عشرہ اولی کو رحمت، عشرہ ثانیہ کو مغفرت اور عشرہ آخرہ کو جہنم سے خلاصی کا  مہینہ قرار دیا ہے۔
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ “ساری عبادتوں کا دروازہ روزہ ہے۔” دیکھا جائے تو روزہ ایک با مشقت سی عبادت ہے کہ انسان کئی گھنٹے تک محض خداوند کی خوشنودی کے لئے بھوکا اور پیاسا رہتا ہے تو ظاہری و باطنی طور پر اس کے اثرات اس پر اثر انداز ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے اس کا دل منور ہوجاتا ہے اور پھر عبادت کی رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔ مگر یہ تب ہوتا ہے کہ جب آپ کا روزہ صرف برائے بھوک اور پیاس نہ ہو بلکہ اللہ کی رضامندی کے لئے ہو اور اس کو عبادت سمجھ کر رکھا جائے۔

حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ رمضان میں چار چیزوں کی کثرت کرو۔ دو باتیں ایسی ہیں کہ تم اس کے ذریعے اپنے رب کو راضی کروگے اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ تم ان سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ پہلی دو باتیں “ایک لا الہ الااللہ کی گواہی دینا اور استغفار” اور دو چیزیں جن سے بے نیاز نہیں ہوسکتے “اللہ سے جنت میں داخلے کا سوال اور جہنم سے اللہ کی پناہ مانگنا ہے۔”

رمضان کے بقیہ معمولات کے ساتھ ساتھ حضور علیہ السلام رمضان المبارک کا آخری عشرہ اعتکاف فرماتے تھے اور یہ حضور کی مستقل سنت تھی۔ صحابہ کرام کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ اعتکاف کے بارے میں بہت سے فضائل حدیث مبارکہ میں وارد ہوئے ہیں اور حضور سے اس سنت پر ہمیشہ عمل بھی ثابت ہے۔ ایک سال حضور سفر پہ تھے تو رمضان کا اعتکاف نہ کرسکے، اگلے سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن اعتکاف کیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

الغرض ایسا مبارک مہینہ ہے کہ انسان اگر ایک مہینہ ان نیک اعمال پر مداومت اختیار کرتا رہے تو اس کے لئے رمضان کے بعد بھی عمل کرنے میں آسانی ہوتی ہے لیکن اس کو بدبختی کہیئے یا کچھ اور کہ رمضان کے بعد ان اعمال میں سستی پڑجاتی ہے اور عید کے دن ظہر سے ہی مساجد ویران ہوجاتی ہیں۔ جہاں ایک مہینہ بہت سے اعمال کئے ہوتے ہیں وہیں ان کو اس قدر بےقدری سے ترک کردیا جاتا ہے کہ جیسے  ایک مہینہ یہ اعمال بوجھ بن کر سر پہ سوار تھے، خدا کی پناہ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گویا کہ ہم “ایک مہینے  کے مسلمان ہیں” اور وہی کام دھندے پھر سے شروع کردیتے ہیں جس کو ہم محض رمضان میں کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو سوچیئے کہ رمضان میں کئے گئے اعمال کا کیا ہوگا؟ اور اگر آپ رمضان کے بعد بھی وہی اعمال کرتے ہیں اور وہی کیفیات آپ کے دل و دماغ پہ چھائی ہوئی ہیں تو سمجھئے کہ رمضان کا مقصد حاصل ہوگیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply