یومِ استحصالِ کشمیر۔۔آغرؔ ندیم سحر

پانچ اگست کشمیر میں کرفیو کوایک سال ہو گیا اور اس ایک سال میں کشمیریوں پر کس طرح کا ظلم روا رکھا گیا‘سوچ کر اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔پاکستانی وزیر اعظم جو خود کو کشمیر کا سفیر کہتے ہیں،انہوں نے اس ایک سال میں کشمیر عوام کی آزادی کے لیے کتنا کردار ادا کیا،اس پر ایک سوالیہ نشان ہے۔میں جب پیچھے ایک سال کو واپس مڑ کر دیکھتا ہوں کہ ہم نے کشمیری عوام کے لیے کیا تیر مارا؟تو یقین جانیں چند منٹ کی خاموشی،وزیر اعظم اور دیگر کابینہ کی طرف سے ٹویٹر پر دیے گئے چند بیانات اور کھوکھلے نعروں کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ایسا کیوں ہوا؟۔

اگر ہم کشمیر کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تھے تو ہمیں اتنے دبنگ بیانات دینے کی کیا ضرورت تھی؟۔کیا ایسے بیانات اور چند منٹ کی خاموشی جیسے فیصلوں سے ہماری کریڈیبلٹی متاثر نہیں ہوئی؟۔یقیناً ایسا ہی ہوا،میں کشمیر کی سیاحت کے دوران جب وہاں کی یوتھ سے ملا تو یقین جانیں ایک طالبہ کے اس جملے نے مجھے مکمل خاموش کروا دیا کہ”پاکستان کشمیر کو آزاد کروانا ہی نہیں چاہتا کیونکہ ان کی ساری سیاست تو اسی ایک مسئلے پر کھڑی ہے“۔یہ جملہ یقیناً  اپنے اندر درجنوں ایسے سوالات کو جنم دے رہا ہے جس کا جواب یقیناً ہمارے لاڈلے اور ہینڈ سم وزیر اعظم کے پاس بھی نہیں ہوگا۔میں کئی دن سے اس ایک جملے پر غور کر رہا ہوں اور اسی نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ یہ سب اسی وجہ سے ہوا کہ ہم نے اپنی کریڈبلٹی ڈاؤن کر لی،ہم نے کشمیری عوام کی بے بسی کا مسلسل مذاق بنایا،ان کی خواہشات اور امنگوں پہ بات کرنے کی بجائے ہر دوسرے مہینے دو منٹ کی خاموشی کروا دی۔آپ ہمارے اخلاص  کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ کشمیر میں کرفیو کو ایک سال بیت گیا اور ہمارے وزیر خارجہ نے کشمیری عوام کو ایک سال بامشقت قید کی جزا میں اسلام آباد میں ایک روڈ کا نام ”کشمیر روڈ“رکھ دیا۔کیا ایسے کاموں سے یا فیصلوں سے کشمیر کی آزادی ممکن ہے؟یا ایسے فیصلوں سے ہم کشمیری عوام کو خود سے منتفر نہیں کر رہے؟۔میرا جواب تو ہاں میں ہے کیونکہ میں کشمیر ی نوجوانوں کے درجنوں منہ توڑ سوالات کا سامنا کر کے آیا ہوں،کیا اس سوال کا جواب ہمارے پاس ہے کہ کشمیر کی نوجوان نسل ہم سے اس قدر نالاں کیوں ہے کہ وہ سمجھنے لگے ہیں کہ ”پاکستانی خود ہی اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں“؟۔

میں نے گزشتہ کالم”کشمیری عوام کے لیے“میں کہا تھا کہ اگر وزیر اعظم آزاد کشمیر فاروق حیدرکا خیال ہے کہ وہ خود اس مسئلے کو اقوامِ متحدہ میں اچھے اور بہترین طریقے سے پیش کر سکتے ہیں تو انہیں وہاں کی نمائندگی ملنی چاہیے۔اور میرا ذاتی خیال بھی یہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے ناتواں کندھوں پر یہ بوجھ مزید نہیں اٹھا سکتے کیونکہ ان کے سامنے اپنے ملک کے بے شمار مسائل اور چیلنجز موجود ہیں لہٰذا وہ پاکستانی مسائل سے نمٹیں اور اگر کشمیر کی آزادی یا کرفیو کے خاتمے کے لیے تقریروں اور ٹویٹس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے تو انہیں ”سفیرِکشمیر“کے منصب سے اخلاقی طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔ کیونکہ یہ مسئلہ مزید الجھتا جا رہا ہے اور ایسے میں ہم مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کے عوام کو بھی خود سے متنفر کر ہے ہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلے کئی سال ہمیں اس کے ”آفٹر شاکس“بھگتنا پڑ جائیں۔کشمیری نوجوان نسل اپنے مستقبل کے بارے کس درجہ پریشان اور سنجیدہ ہے،اس کا اندازہ کشمیری نوجوانوں کے سوشل میڈیا پر دیے جانے والے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے اور ایسے میں ہم ایک خوبصورت اور ذہین نسل کو اپنے خلاف کر رہے ہیں۔

اس میں قطعاً کوئی برائی نہیں کہ اگر یہ معاملے ہماری پہنچ سے باہر ہے تو ہم سڑکوں اور گلیوں کا نام کشمیر سے موسوم کرنے کے،کشمیری عوام کو واضح الفاظ میں کہہ دیں کہ یہ جنگ آپ کی ہے اور آپ نے خود ہی لڑنی ہے،پھر دیکھیے گا کہ مقبوضہ میں کتنے برہا ن وانی اور نائیکو پیدا ہوتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کہے گا کون؟۔ ہمیں اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ پاکستان گزشتہ دو سالوں میں مسائلستان بن گیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ کپتان کے وہ کھلاڑی ہیں جن پر عمران خان نے خود سے بھی زیادہ بھروسہ کر لیا تھا یعنی اندھا اعتماد اور پھر اس ٹیم نے ثابت بھی کر دیا کہ کپتان اس معاملے میں واقعہ ”اندھا“ ثابت ہوا۔سو ایسے میں بیرونی ممالک کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے اپنے ملک کے مسائل سے نمٹنا چاہیے تاکہ اگلے تین سالوں میں کچھ ڈیلیور کیا جا سکے ورنہ میرے سمیت کئی صحافی جنہوں نے ہمیشہ خان کے فیصلوں کا احترام کیا کیونکہ ہمیں لگتا تھا کہ ایماندار قیادت،ایماندار قوم بنا دیتی ہے لیکن یہ اصول غلط ثابت ہوابلکہ ایماندار وزیر اعظم کو بھی نااہل ٹیم نے شکست سے دو چار کر دیا لیکن معاملہ ابھی بھی حل ہو سکتا ہے کہ اگر اگلے تین سال کپتان کھلاڑیوں کی پرفارمنس پر اندھا اعتماد کرنے کی بجائے خود سے بھی زیادہ توجہ دے۔

Advertisements
julia rana solicitors

باقی جہاں تک معاملہ بے بس اور بے کس کشمیر کا ہے تو اس کے لیے چین جیسا لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ بھارت ایک ایسا جاہل بھوت ہے جو باتوں سے نہیں لاتوں سے سمجھنے کا عادی ہے اور اس کی گواہ ہماری ماضی کی تاریخ ہے۔آج ایک سال بعد بھی جب وزیر خارجہ شایہ محمودقریشی وہی پرانا مضحکہ خیز بیان دوھراتے ہیں کہ”انڈیا نے اگرانتشار پھیلانے کی کوشش کی تو منہ توڑ جواب دیں گے“،تو یقین جانیں ہماری ہنسی نکل جاتی ہے۔قریشی صاحب سے کوئی عقل مند آدمی ضرور پوچھے کہ جناب آپ کی لغت میں انتشار کا مطلب کیا ہے؟۔ کیا ہم اس وقت منہ توڑ جواب دیں گے جب نعوذ بااللہ پورا کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا؟۔گزشتہ ایک برس میں اسی طرح کے بیانات اور اسی طرح کی عجیب و غریب صورت حال دیکھنے اور سننے کو ملی۔کل تک ہم مولانا فضل الرحمن کو اس بنیاد بر برا بھلا کہتے تھے کہ وہ سرکاری مراعات تو کھاتے رہے مگر کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ پر رہ کر بھی ان سے کوئی قابلِ قدر فیصلہ نہ ہو سکا۔آج ہم اور کشمیری عوام پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں بھی یہ کہنے پہ مجبور ہو گئے ہیں کہ کشمیر کی لاچارگی اور بے بسی کے خاتمے کے لئے یہ حکومت بھی کچھ نہ کر سکی۔میری جناب کپتان اور وزارتِ خارجہ سے دست بستہ گزارش ہے کہ اگر کشمیر کا معاملہ حل نہیں کروا سکتے تو خدا کے لیے مضحکہ خیز بیان بازی سے توگریز کریں،یقین جانیں اگر ہماری سڑکوں کے نام تبدیل کرنے یاہماری خاموشی سے کشمیر آزاد ہو سکتا ہے کہ پاکستانی قوم مہینہ بھر بھی خاموشی رہنے کے لیے تیار ہیں اور ہم پورے پاکستان کی سڑکوں کے نام کشمیر سے موسوم کرنے کے لیے تیار ہیں مگر اب چند منٹ یا مہینوں خاموشی سے نہیں بلکہ یہ معاملہ شور مچانے اور جوابی کروائی کرنے سے حل ہوگا۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply