• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شرعی فوجداری قوانین  میں  عورتوں   کی استثنائی حیثیت۔۔ڈاکٹر محمد عادل       

شرعی فوجداری قوانین  میں  عورتوں   کی استثنائی حیثیت۔۔ڈاکٹر محمد عادل       

تعارف

اللہ تعالیٰ نے  تمام جانداروں  کی طرح انسانوں کو  بھی مرد و عورت کی شکل میں پیدا فرمایا ہے اور ان میں ہر ایک جنس کو مختلف خصوصیات سے نوازا ہے ۔ دونوں کواپنی خلقت و قوت کے مطابق  مختلف امور کی انجام دہی کی ذمہ داری تفویض فرمائی۔ایک طرف مرد پر عورت کا نان نفقہ، رہائش وغیرہ  کو واجب فرمایا ہے،جبکہ عورت پر گھریلوں ذمہ داریاں  عائد کر دی ہیں  اور اس کو شوہر کے مال واولاد کا نگران بنایا ہے۔ خلقت، خصوصیات اور ذمہ داریوں میں اختلاف کی وجہ سے  دونوں  کے لئے شرعی احکامات میں بھی فرق رکھا گیا ہے،عورت کو  بہت سے احکامات میں  مردوں کے مقابلے میں نرمی دی گئی  اور اس میں  اس کی جسمانی ساخت ،خلقت و قوت  کا لحاظ  رکھا گیا ہے۔جبکہ  مالی امور میں مرد کو  فوقیت دی گئی ہے  اور اس میں اس پر عائد ہونے  والے  مالی ذمہ داریوں کا لحاظ رکھا گیا۔

زیرِ نظر مضمون  میں  شریعت اسلامی کے فوجداری قوانین میں سے عورتوں کے  چند مخصوص احکامات کو جمع کیا گیا ہے،تاکہ دیکھا جا سکے کہ  شریعت اسلامی میں ان کی فطرت کا کب لحاظ رکھا گیا ہے اور اکثر مقامات پر ان کو بھرپور رعایت دی گئی ہے۔

ذیل میں ان قوانین کے متعلق نمبر وار بحث کی گئی ہے۔

1: جبر واکراہ کے متعلق عورتوں کی  استثنائی حیثیت

اکراہ سےمراد یہ ہے کہ کسی کو اختیار سے محروم کرکے اس کی  رضا کے بغیر  زبردستی کوئی کام کرا لیا جائے([1])۔

اکراہ کی دوقسمیں ہیں:پہلی قسم  یہ کہ کسی  جسمانی نقصان کا اندیشہ ہو جیسے قتل، عضو قطع ہونےیا ضرب مبرح  جس  سے عضو تلف ہونے کا خدشہ ہو وغیرہ۔ جبکہ دوسری قسم    قید و حبس   یا   معمولی مار  کی دھمکی دینا ہے([2])۔

مکرہ علی الزنا (جس کو زنا پر مجبور کیا گیا ہو )پر ثبوت کے باوجود حد جاری نہیں کیا جائے گا۔اکراہ کے ثبوت میں مرد و عورت کے حکم میں فرق کیا گیا ہے۔عورت کو زنا پر مجبور کیا جائے تو تمام ائمہ کے نزدیک اس پر حد واجب نہیں ہوگی([3])۔یہاں تک کہ اگر کسی شخص نے  کسی متعین عورت سے زنا کا  اقرار کیا اور عورت نے اکراہ کا دعویٰ کیا تو اس  کا  یہ دعویٰ قبول کیا جائےگا اور  مرد  کوحد زنا  لگائی جائے گی جبکہ عورت حد زنا سے محفوظ رہے گی([4])۔اکراہ و جبر کے حوالے سے عورت کو خصوصی رعایت  دی گئی ہے۔

2: حد حرابہ میں  عورت کی استثنائی حیثیت

حد حرابہ (رہزنی) کا بیان سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۳۳ میں کیا گیا ہے:

ترجمہ: جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیئے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا (بھاری) عذاب تیار ہے۔

راہزنوں میں سے کسی ایک نے قتل کیا   اورباقی کسی   نے اس  کا  ساتھ نہ دیا اور نہ ہی قتل کرنے میں   اس کی مدد کی تب بھی  تمام پر حد  حرابہ جاری کر دی جائے گی۔کیونکہ یہ قتل  محاربہ کی جزا ہے جس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں  کے  سہولت کار بنے ہیں([5])۔ لیکن عورت  پر حد حرابہ جاری نہیں کی جائے گی۔اگر عورت نے مرد راہزنوں کے ساتھ مل ڈاکہ ڈالا تو مردوں پر حد حرابہ جاری کی جائے گی اور عورت پر حد جاری نہیں ہوگی۔اگرچہ دوران ڈاکہ صرف عورت نے قتل کیا ہو اور دوسروں نے قتل نہیں کیا لیکن مردوں کو قتل کیا جائے گا اور عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا ([6])۔ حد حرابہ کے معاملے میں بھی عورتوں کو خاص رعایت دی گئی ہے۔

3: قسامت میں عورت  کی استثنائی حیثیت

قسامۃ سے مراد وہ مخصوص قسمیں ہیں جو اہل محلہ سے اس وقت لی جاتی جب ان کے محلہ میں کوئی لاش پائی جائے([7])۔ قسامۃ کی  صورت یہ ہوتی ہے کہ اگر کسی محلہ میں کوئی لاش پائی جائے اور مقتول كا ولی اہل محلہ پر قتل کی دعویداری کر رہا ہو تو  اہل محلہ سے  پچاس قسمیں لی جائے گی جس میں ہر ایک قسم کھا  کرکہے گا کہ  میں نے قتل نہیں کیا اور نہ میں قاتل کو جانتا ہوں۔ قسم لینے کے لئے افراد کو منتخب کرنے کا اختیار مقتول کے ولی کو حاصل ہوگااور اگر پچاس سے کم افراد ہو تو  بعض افراد سے مکرر  قسم لینے کااختیار بھی حاصل ہوگا ،جبکہ مدعی سے قسم نہیں  لی جائے گی([8])۔اہل محلہ نے  قسم کھا کر قتل سے لاعلمی کا اظہار کیا  تو  ان پر دیت لازم کر دی  جائے گی جو ان کی مددگار برادری تین سال میں ادا کرے گی جبکہ قسم سے انکار کرنے والوں کو قسم کھانے تک قید میں رکھا جائے گا([9])۔

قسامۃ کے باب میں عورت کو یہ رعایت دی گئی ہے کہ ایک عورت  اکیلی  ایک گھر میں رہائش پذیر  ہو اور اس گھر  میں لاش پائی جائے ،لیکن قاتل معلوم  نہ ہو،تو عورت  سے قسم لی جاے گی لیکن مردوں کے برعکس اس پر دیت لازم نہیں ہوگی۔ بلکہ دیت کی ادائیگی نزدیکی قبائل  پر واجب ہوگی۔

4: گواہی کے متعلق  عورت کی استثنائی حیثیت

عام طور پر تین قسم کے  مقدمات عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے ہیں:

  1. حدود اللہ اور قصاص میں صرف مردوں کی گواہی مقبول ہوتی ہیں۔حد زنا میں چار اور دیگر حدود اور قصاص میں  دو مرد گواہ  درکار  ہوتے ہیں۔یہ حکم سورۃ النساء کی آیت نمبر ۱۵  سمیت دیگر آیات واحادیث سے چابت ہے۔
  2. عام حقوق و معاملات  میں  مرد اور عورتوں دونوں کی گواہی مقبول ہوتی ہیں ، ان مقدمات  میں  دو مرد یا  ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی  کافی ہوتی ہے۔یہ حکم سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر  ۲۸۲ میں مذکور ہے۔
  3. عورتوں کے مخصوص معاملات میں صرف عورتوں کی گواہی مقبول ہوتی ہیں۔عورتوں کے مخصوص امراض  اور مباشرت وغیرہ کے بارے  میں ایک عورت کی گواہی  قابل قبول ہوتی ہے۔

یوں کہا جائے کہ زنا  وبدکاری  جس کے متعلق  سرعام بحث کرنا کسی عورت کے لئے  انتہائی مشکل  تو ان کو اس سے  استثنیٰ دے دیا  ، دوسری قسم میں اسے ایک معاون  عورت کی سہولت دے کر اس کی رعایت رکھی گئی جبکہ  تیسری قسم میں محض ایک عوترت کی گواہی کو کافی  سمجھا گیا ہے۔

5: عورت کی دیت مرد کی دیت کے نصف دیت کے برابر ہوگی

دیت اس مال کو کہا جاتا ہے جو قاتل مقتول کے ولی کو دیتا  ہے([10])۔قتل عمد  کے علاوہ قتل کی دیگر  چار قسموں   شبہ عمد ، خطا و قائمقام خطا اور قتل بالسبب  میں قاتل پر دیت واجب ہوتی ہے۔ لیکن یہ تمام دیتیں  قاتل کے عاقلہ( مددگار برادری )پر  واجب ہوتی ہے۔

قتل کی صورت میں  دیت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک تین چیزوں یعنی اونٹ ،سونا  اور چاندی سے ادا کی جائے گی۔اونٹوں میں دیت کی مقدار سو(۱۰۰) اونٹ ، سونے میں  ہزار (۱۰۰۰) دینار اور چاندی میں  دس ہزار (۱۰۰۰۰) درہم ہے([11])۔

عورت کی دیت مرد کے دیت کے نصف کے برابر ہوگی۔ لہٰذا عورت کی دیت ۵۰ اونٹ  یا ۵۰۰ دینار یا ۵۰۰۰ ہزار درہم ہوگی([12])۔اس کی دلیل یہ حدیث مبارک  ہے:

“عورت کی دیت مرد کے نصف دیت کے برابر ہوگی([13])۔”

اسی طرح سیدنا علی ؓ فرماتے ہیں ہیں:

” عورت کی دیت جان اور جان سے کم میں ،مرد کی نصف دیت کے برابر ہے([14])۔”

اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ن نے خاندان کی مالی ضروریات مرد کے ذمے لازم کی ہیں اور عورت  کو اس سے معاف رکھا ہے۔ دیت اسی مالی  نقصان کو پورا کرنے کے لئے  ہوتی ہے ،چونکہ  اس حوالے سے مرد زیادہ اہمیت رکھتا ہے لہٰذا   اس کی دیت زیادہ ہوتی ہے ۔

نتائج

اسلام دین فطرت ہے اور اس  میں ہر جنس کی جسمانی ساخت اور قوت وقدرت کو دیکھ کر اس کی فطرت کے مطابق  احکامات لاگو کئے گئے ہیں۔

زیرِ نظر آرٹیکل میں شرعی فوجداری قوانین میں سے عورتوں کے ساتھ مخصوص قوانین  میں سے پانچ (۵) کو زیرِ بحث لایا گیا۔  جن میں عورتوں کو مردوں کے  مقابلے  میں خصوصی رعایت دی گئی ہے، جس خلاصہ درج ذیل ہے:

  1. اکراہ کی صورت میں عورت پر حد جاری نہ ہوگا ،اگرچہ مرد نے اقرار کیا ہو اور اس پر حد جاری ہوئی  ہو۔
  2. حد حرابہ میں مردوں کے ساتھ عورت ہو تو عورت سے حد ساقط ہوگا جبکہ مردوں پر حد جاری ہوگی ۔
  3. اکیلی رہنے والی عورت کے گھر پر ایسی لاش پائی جائے جس کا قاتل معلوم نہ ہو ،تو مرد کے برعکس عورت پر دیت کی ادائیگی لازم نہ ہوگی۔
  4. حدود قصاص کے مقدمات میں ان کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔
  5. عام مقدمات میں ان کو معاون کی سہولت دی گئی ہے۔
  6. مرد کی دیت زیادہ مقرر کی گئی تاکہ اس کےذمے  جو مالی ذمہ داریاں تھی جو اس کی بیوی اور دوسروں کے سر آگئی ، اس کی انجام دہی میں ان کے لئے آسانی ہو۔

حواشی وحوالہ جات

[1]                   العنایۃ شرح الہدایۃ ،۹ :۲۳۲

[2]                   تخقۃ الفقہاء،۳ :۲۷۳

[3]                   الفتاوی الھندیۃ ، ۲ :۱۵۰

[4]                   بدائع الصنائع ، ۷ :۶۲

[5]                   فتح القدیر،۵ :۴۲۷

[6]                   النهرالفائق، ،۳ :۱۹۳

[7]                   تحفة الفقهاء، ۳ :۱۳۱

[8]                   بدائع الصنائع، ۷ : ۲۸۶

[9]                   النتف فی الفتاوی السغدی، ۲ :۶۷۹

[10]                 العناية،۱۰ :۲۷۰

[11]                بدائع الصنائع،۷ :۲۵۴

[12]                تحفۃ الفقہاء،۳ :۱۱۳

[13]                 سنن الکبریٰ للبیہقی، رقم الحدیث: ۱۶۳۰۵

Advertisements
julia rana solicitors

[14]                 سنن الصغیرللبیہقی، ، رقم الحدیث: ۳۰۶۷

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عادل
لیکچرار اسلامک اسٹڈیز باچا خان یونیورسٹی چارسدہ خیبر پختونخوا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply