گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے/چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

گزشتہ دنوں شاید حالیہ سہ ماہی کے ہی ایک ڈرامے کا کلپ وائرل تھا جس میں شوہر اپنی بیوی کو کہہ رہا ہے کہ میری بہن اور ماں سے معافی مانگو مگر بیوی انکار کر دیتی ہے جس پر شوہر اسے تھپڑ مار دیتا ہے۔ جواب میں بیوی بھی ایک زناٹے دار تھپڑ اپنے شوہر کو رسید کر دیتی ہے۔

عوام کی کثیر تعداد ڈرامے کے اس سین پر تنقید کر رہے تھے حالانکہ یہ کوئی اتنی انوکھی بات نہیں ہے۔ ایسی پریکٹس ہمارے معاشرے میں عام ہے، بالخصوص دیہاتی  کلچر میں کچھ زیادہ ہی ہے۔ صرف یہی نہیں ہے کہ شوہر حضرات بیویوں پر تشدد کرتے ہیں، میں نے بہت دفعہ یہ مشاہدہ کیا کہ شوہر نے بیوی کو مارا تو کئی بار بیوی نے بھی شوہر کو مارا۔ البتہ اکثر و بیشتر بیوی کی جانب سے یہ ردعمل کے طور پر ہوتا ہے۔ ایک بار تو میں اور میرے چچا نے جا کر ایک صاحب کو بچایا جس کی بیوی نے اسے نیچے لٹا رکھا تھا اور خود اسکے اوپر بیٹھ کر تھپڑوں کی بارش کر رہی تھی۔

کئی بار یوں ہوا کہ دیور جیٹھ نے مل کر اپنی بھابھی کو پھینٹی لگا دی۔ ساس اور نند نے مل کر بہو کو مارا، بہو نے ساس کے سر میں چمچ رسید کر دیا جس وجہ سے ہسپتال لے کر جانا پڑا۔ یہ سب ہمارے معاشرے میں عام ہے، آپ شاید نہیں جانتے ہونگے مگر میری  پروفیشنل لائف میں ایسے سینکڑوں کیسز میں یہ مشاہدات سامنے آئے کہ  ہمارے لئے یہ معمول کی بات ہے۔

دیکھیں مفادات کا ٹکراؤ فطرت انسانی ہے مگر ایسے پُرتشدد گھریلو جھگڑے تربیت کی کمی سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہماری تہذیب، ہماری اخلاقیات یا ہمارا دین کبھی بھی ایسے جسمانی تشدد کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، خواہ کسی بھی طرف سے ہو۔ ایسے جھگڑے گھریلو پالیٹکس کا نتیجہ ہوتے ہیں ،آپ ان کی جڑ کو اگر پکڑیں تو پچانوے فیصد کیسز میں آپ کو اس کی بنیاد میں ساس بہو سمیت تمام خواتین کی سازشیں ہی نظر آئیں گی، لہٰذا سب سے پہلے گھر کی خواتین کی تربیت کی ضرورت ہے جس کیلئے سیشنز ہونے چاہئیں لیکن ہمارے ہاں اسکا رجحان ہی نہیں ہے۔

اب اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے ہمارے ہاں بہت سے لوگ لڑکی کی تربیت تو کرتے ہیں کہ شوہر کی تابعدار رہنا ہے مگر لڑکے کی تربیت کرتے ہوئے ہمارے دماغ پر پردہ آ جاتا ہے کہ جو عورت تمہاری بیوی بن کر آ رہی ہے وہ بھی بالکل اسی طرح کی انسان ہے جیسے تمہاری بہن ،اور اُس نے ایک دن کسی کی دلہن بن کر جانا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب بات کو سمیٹ کر اصل پہلو کی جانب آتے ہیں، گھروں میں جھگڑے تو ہوتے رہتے ہیں مگر شوہر حضرات کو انھیں اس نہج تک نہیں لے کر جانا چاہیے کہ بات جسمانی تشدد تک پہنچ جائے اور سارے ہمسائے اور محلے دار روز روز یہ تماشا دیکھتے رہیں، گھر کے افراد کو پہلے ہی معاملہ سلجھا لینا چاہیے یا معاملہ صاف کر لینا چاہیے جس میں شوہر کا کردار بہت اہم ہے کہ رشتوں میں ایک توازن برقرار رکھے۔ معاملات کو ذرا حکمت سے لے کر چلے۔ اگر کوئی سمجھے تو گھر کو بچانے کیلئے گھر الگ کر لینا کوئی مہنگا سودا نہیں ہے آدھے جھگڑے یہیں ختم ہو سکتے ہیں۔ اگر پھر بھی معاملہ سلجھ نہ رہا ہو تو بےشک فیملی کے دو چار بڑوں کو بلا کر مل بیٹھ کے دونوں میاں بیوی کو سلجھے طریقہ سے الگ ہو جانا چاہیے تاکہ جب آپ زندگی میں ملیں تو دلوں میں کدورتیں اسقدر شدید نہ ہوں کہ آپ وہ چند لمحے کڑھتے ہی رہیں کیونکہ اپنے بچوں کی وجہ سے بعد میں بھی آپ نے گاہے گاہے ملتے ہی رہنا ہے۔ باقی عدالت سے خلع لینے کا آپشن تو خواتین کیلئے ہر وقت کھلا ہی ہے جو بہت آسان بھی ہے مگر اس کا بےدریغ استعمال بھی نامناسب ہے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply