پاکستانی نوجوانوں کا خاموش المیہ/امتیاز احمد

پانچ چھ برس پہلے میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ صورتحال اتنی تیزی سے گمبھیر ہوتی چلی جائے گی۔ لیکن گزشتہ چھ ماہ سے جیسے جیسے میں زیادہ غور کر رہا ہوں، ویسے ویسے مجھ پر نئے حقائق آشکار ہو رہے ہیں۔
مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے لیکن اس سے بڑھ کر مسئلہ یہ ہے کہ اس حوالے کبھی کچھ پڑھنے میں سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کبھی کسی کو اس موضوع پر سنجیدگی سے بات کرتے ہوئے سنا ہے۔
چھ ماہ پہلے اچانک میں نے غور کیا کہ واٹس ایپ ہو یا مسینجر وغیرہ، مجھے اکثر رات کو میسج موصول ہوتے ہیں اور ان میسجز کا وقت بھی پاکستان کے مطابق رات کوئی دو تین بجے ہوتا ہے۔
اب ان میسجز میں کوئی صنفی تقسیم نہیں ہے، لڑکیاں بھی شامل ہیں اور لڑکے بھی۔
ایک دن میں نے ہمت کر کے ایک قریبی دوست سے پوچھ ہی لیا کہ تم آج آفس نہیں گئے تھے؟ اس کا جواب تھا کہ ابھی آفس میں ہی ہوں۔
میرا دوسرا سوال تھا کہ پھر تم صبح تین بجے کیسے جاگ رہے تھے؟
جواب تھا کہ میری تو یہی روٹین ہے کہ ایک دو گھنٹے سو کر اٹھ جاتا ہوں، پھر صبح ایک دو گھنٹے سو جاتا ہوں۔
پھر میں نے دو خواتین سے پوچھا تو ان کا جواب بھی اس جواب سے ملتا جلتا تھا۔ آپ کے لیے شاید نہ ہو لیکن میرے لیے یہ حیرانی کی بات تھی کہ آپ کیسے ملازمت بھی کر رہے ہیں یا یونیورسٹی وغیرہ بھی جاتے ہیں لیکن نیند آپ کی وقفوں میں اور وہ بھی فقط چند گھنٹوں کی ہے۔
اس کے بعد میں نے مزید غور کیا تو مجھے اپنے خاندان کے اکثر نوجوان لڑکے لڑکیوں کی بھی یہی روٹین نظر آئی۔
میری نظر میں ابھی تک ایسی کوئی اسٹڈی نہیں گزری، جس سے یہ پتا چلتا ہوں کہ پاکستانی نوجوانوں میں نیند کے مسائل کس قدر شدید ہو چکے ہیں یا صورتحال کیسی ہے؟
ہو سکتا ہے صرف میرے ہی جاننے والوں کو ان مسائل کا سامنا ہو یا پھر میرے دیکھنے کا زاویہ غلط ہو۔
کئی برس پہلے جب امی تہجد کے لیے اٹھ جایا کرتی تھیں تو میرا اکثر سوال ہوتا تھا کہ آپ اتنی سویرے سویرے کیسے اٹھ جاتی ہیں؟
امی یا ابو جی کا جواب ہوتا تھا کہ جب تم ہماری عمر میں پہنچو گے تو تم بھی اٹھ جایا کرو گے، بڑھاپے میں نیند خود بخود کم ہو جاتی ہے۔
لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ یہ بڑھاپے کا فرق کہیں گم ہوتا جا رہا ہے۔ نوجوان لڑکیاں لڑکے ابھی تیس سے اوپر نہیں پہنچے لیکن نیند کا حال وہی ہے، جو بزرگوں کا ہوتا ہے۔ میں اپنے کئی صحافی دوستوں اور کاروباری حضرات کے اس المیے سے تو کافی دیر سے آگاہ یا واقف ہوں کہ انہیں نیند کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن نوجوانوں میں اس مسئلے کا ہونا خطرناک رجحان ہے۔
میرے ایک نوجوان رشتہ دار ہیں۔ آٹھ نو برس پہلے کی بات ہے۔ میں ملنے گیا تو پتا چلا کہ وہ شام نو بجے ہی سو چکے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اتنی جلدی کیوں؟ اس کے بڑے بھائی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ وہ ”اس کا پیکیج ٹائم‘‘ گیارہ بجے شروع ہوتا ہے۔
اس وقت میں بھی مسکرا دیا تھا لیکن اب بے ترتیب نیند کا آنا اس لڑکے کا مسئلہ بن چکا ہے۔ بال ابھی سے مجھ سے زیادہ سفید ہیں اور جسم موٹاپے کا شکار ہے۔
اسی طرح ایک خاتون دوست ہیں، انہیں بھوک نہیں لگتی، اسٹریس ہے، بے چینی ہے، بات بات پر غصہ آتا ہے اور نیند چوبیس چوبیس گھنٹے آنکھوں سے دور رہتی ہے۔
میں اپنے جاننے والوں میں ایسے درجنوں لڑکیوں اور لڑکوں کی مثالیں دے سکتا ہوں، جو نیند کے شدید مسائل کا شکار ہو چکے ہیں لیکن ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نارمل ہے۔ میں ابھی تک ان میں سے کسی ایک کو بھی یہ باور نہیں کرا پایا کہ یہ نارمل نہیں ہے۔
پاکستان کے نوجوان راتوں کو کیوں جاگنا شروع ہو چکے ہیں؟ اس کی وجوہات درجنوں ہو سکتی ہیں اور میں ان وجوہات کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
لیکن اس مسئلے کے نتائج بڑے خوف ناک ہیں۔ مستقل بنیادوں پر ہماری نئی نسل ڈپریشن کا شکار ہو کر وقت سے پہلے بوڑھی ہو جائے گی۔
نیند کی کمی سے آپ اپنا کام دھیان سے نہیں کر پاتے، چڑچڑے پن کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں، بات بات پر غصہ آنے لگتا ہے، وزن شدید بڑھنا یا کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
سوچوں کے ارتکاز کی کمی کے ساتھ ساتھ یادداشت کے مسائل پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں، ردعمل سست ہو جاتا ہے، آپ بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔
بیماریوں کی فہرست طویل ہے لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مسئلہ بڑھے گا تو حالات سنگین ہوتے چلے جائیں گے۔
ہمیں کبھی کہا جاتا تھا کہ رات کو اٹھ کر پڑھنا بہت مفید عمل ہے۔ ایک کہانی بھی پڑھی تھی کہ قائد اعظم کس طرح رات کو جاگ کر پڑھائی کیا کرتے تھے۔
مجھے اب احساس ہوتا ہے کہ چاہے پڑھائی ہی کیوں نہ ہو، نوجوانوں کو رات کو جاگنے کی عادت ڈالنا یا ترغیب دینا کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ٹھیک ہے رات کو تنہائی کی وجہ سے یکسوئی نصیب ہوتی ہے لیکن مستقل بنیادوں پر ایسا کرنا کوئی صحت مند رجحان نہیں ہے۔
پلیز اگر آپ میں یہ مسائل ہیں تو کسی نہ کسی ماہر ڈاکٹر سے لازمی رجوع کیجیے! جس مسئلے کو آپ بطور معمولی عادت لے رہے ہیں، چند برس بعد یہ سنگین ہو کر آپ کا سکون اور چین برباد کر سکتا ہے۔ رات کو مسلسل جاگتے رہنا آپ کو ”اُوور تِھنکنگ‘‘ کے مسئلے کی طرف لے جائے گا۔
مجھے ایک قصہ یاد آ گیا۔ میں لاہور کے کلمہ چوک میں واقع دا رینیسنس سکول میں مظہر نت صاحب سے جرمن زبان سیکھا کرتا تھا۔
ہماری ایک میڈیم صفیہ ہوتی تھیں، جو جرمنی سے تعلیم حاصل کر کے واپس گئی تھیں اور ہمیں جرمن زبان پڑھاتی تھیں۔ کافی بوڑھی تھیں اور ایک رات انہیں پتا چلا کہ وہ گھر کی چابیاں کہیں گم کر بیٹھی ہیں۔
مظہر صاحب نے مشورہ دیا کہ آپ یہیں ساتھ والے کمرے میں بڑے صوفے پر سو جائیں اور صبح صبح کوئی چابی والا بھی مل جائے گا۔
اس کے بعد ہم چند لڑکوں اور مظہر صاحب نے کمپوٹر پر سی ڈی لگائی اور فلم دیکھنا شروع کر دی۔ ساڑھے گیارہ بجے ہوں گے کہ میڈیم صفیہ انتہائی غصے میں ہمارے پاس آئیں۔ پنجابی میں ڈانٹتے ہوئے انہوں نے ایک جرمن فقرہ بولا، ”جس قوم کے لڑکوں کو ابھی تک یہ ہی نہیں پتا چلا کہ سونا کب اور اٹھنا کب ہے؟ انہوں نے کیا خاک ترقی کرنی ہے؟‘‘
مجھے اب میڈیم صفیہ کا یہ فقرہ اکثر یاد آتا ہے۔ ترقی کا اس سے تعلق نہ بھی ہو لیکن رات کی نیند آپ کے مزاج کو پرسکون بنا دیتی ہے۔
ابھی وقت ہے، اپنی ترتیب کو بدلنے کی کوشش کریں۔ کبھی کبھار جاگ لینا، یا فلم دیکھ لینا، دوستوں کے ساتھ گپیں لگا لینا وغیرہ سبھی کرتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ہفتے کی ساتوں راتیں یہی ترتیب اپنائیں گے تو آپ صحت اور مزاج کے ایسے مسائل سے دوچار ہو سکتے ہیں، جو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply