پاکستانی شیعہ وہ بدقسمت کمیونٹی ہے جسے ایران کے ساتھ مذہبی تعلق کی وجہ سے پچھلے 33 سالوں میں تقریبا” 30 ہزار لاشیں اٹھانی پڑیں- ان معصوم, بے گناہوں کی قاتل وہ سوچ ہے جو ایران کی مخالفت میں سعودی تیل کی کمائی سے پورے خطہ میں پھیلائی گئی- دوسری طرف اس کا آغاز وہ ایرانی انقلاب تھا جسے اسلامی قرار دے کر پوری دنیا میں پھیلانے کی کوشش کی گئی مگر درحقیقت اس کے پیچھے وہ سوچ کارفرما تھی کہ انقلاب کو ایرانی کی بجائے اسلامی قرار دے کر ایرانی سپریم لیڈر “ولی فقیہ” کی حیثیت مسلم دنیا کے عالمی قائد کے طور پر منوائی جائے- ظاہر ہے سعودی عرب کی بادشاہت نے اپنے لئے خادم الحرمین الشریفین کا خطاب منتخب ہی اس لئے کیا ہے کہ وہ خود کو اسلامی دنیا کا قائد اور خلیفہ المسلمین منوا سکیں-
ایرانی ولایت فقیہ کا نظام خالصتا” ایرانی عوام کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے- عام ایرانی لوگ اپنے ووٹوں سے ایرانی شہریت کے حامل 84 ممبران پر مشتمل مجلس خبرگان کا انتخاب کرتے ہیں جو ایرانی شہریت کے حامل عالم دین کا بطور ولی فقیہ انتخاب کرتے ہیں- ولی فقیہ کے مواخذہ یا اس کی راہنمائی کے لئے ایک شوری نگہبان بھی ہے جو ایرانی شہریت کے حامل علماء کا انتخاب کرتی ہے- اس مکمل ترین ایرانی نظام میں ایک بھی غیر ایرانی شریک نہیں ہوتا مگر اس کا نفاذ غیر ایرانیوں پر کرنے کے لئے نفسیاتی مذہبی دباؤ ڈالا جاتا ہے یا اس کی ترغیب دی جاتی ہے- اس وقت بھی پاکستان میں ولایت فقیہ کے نمائندگان کے طور پر علامہ ساجد نقوی راولپنڈی اور علامہ جواد نقوی لاہور میں سرگرم عمل ہیں-
ایرانی انقلاب کے سنہ 1979ء میں برپا ہونے کے بعد ہی سوویت یونین کی فوجوں نے افغانستان پر چڑھائی کر دی تو ایرانی انقلاب کو قریبی ریاستوں اور خلیج فارس کی شیعہ آبادی میں نافذ ہونے کو روکنے کے لئے سعودیہ کو نادر موقع مل گیا- سعودی تیل کی دولت سے شیعہ مخالفت میں انتہا پسندانہ وہابی سوچ کو فروغ دیا گیا- بڑے پیمانے پر انتہا پسند وہابیوں کو مسلح تربیت دی گئی, ان کے اذہان میں شیعہ دشمنی کا بیج بویا گیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ شیعوں پر مسلح حملے کریں- افغان جنگ میں سعودی عرب کا کردار افغانستان کی آزادی کے لئے نہیں بلکہ ایرانی انقلاب کو پھیلنے سے روکنے کے لئے مسلح, جارحانہ وہابی انتہا پسند گروہوں کو پیدا کرنے اور ان کو تقویت پہنچانے تک ہی محدود رہا- وقت کے ساتھ سعودی قیادت نے اس افغان جنگ معاملے سے خود کو علیحدہ کیا لیکن پاکستانی آمر جنرل ضیاء, جنرل حمید گل وغیرہ کی ذاتی مدد سے پھیلائی ہوئی نفرت اور تکفیریت کو محدود کرنا اس کے بس میں نہیں رہا- یہ سوچ عام لوگوں سے نکل کر اب بیوروکریسی, اسٹیبلشمنٹ اور زندگی کے ہر شعبہ میں پھیل چکی ہے-
سعودی ولی عہد کا اقرار کرنا کہ مغرب خصوصا” امریکہ کے کہنے پر 1980ء کی دہائی میں وہابی انتہا پسندی کو فروغ دیا اور وہ جدیدیت کی طرف جا رہے ہیں, اس لئے بھی بےمعنی ہو چکا ہے کہ ابھی بھی سعودیہ نے ایران دشمنی اور شیعہ مخالفت پر اپنی پالیسی ترک نہیں کی- افغانستان معاملہ سے خود کو الگ کرنے کے بعد سعودیہ نے ایک دفعہ پھر اس معاملہ میں اپنی strong انٹری دی ہے کیونکہ حال ہی میں ہونے والی ایک پیش رفت جس کا تعلق براہ راست مشرق وسطیٰ سے ہے، جب طالبان نے اپنا دفتر قطر میں قائم کیا جس کے بعد خطے میں اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے طالبان اور افغان امن عمل سعودیہ کے لئے اہم بن گیا ہے اور چونکہ یہ سب پاکستان کی براہ راست مدد کے بناء ممکن نہیں ہے اس لئے سعودیہ کے لئے پاکستان کی اہمیت زیادہ ہو چکی ہے-
دوسری طرف یمن ہو یا شام، عراق ہو یا بحرین و نائجیریا- شیعہ سنی کشمکش جہاں جہاں نظر آتی ہے وہاں سعودی عرب اور ایران کے پس پردہ ملوث ہونے کے الزامات کبھی کھلے بندھوں اور کبھی ڈھکے چھپے الفاظ میں لگائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی صورت حال مختلف نہیں ہے اور گذشتہ تقریباً تین دہائیوں سے ملک میں فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے مسئلہ کو دبے دبے الفاظ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان ‘پراکسی وار’ یا بالواسط لڑائی کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کی طرف سے فرقہ وارانہ تنظیموں کی مالی معاونت کے بارے میں عوامی حلقوں میں پائی جانے والی بے چینی سفارتی مصلحتوں کے باوجود عوام کے لبوں پر بھی آ جاتی ہے۔
پاکستان ایران کا نہ صرف ہمسایہ ملک ہے بلکہ پاکستان کے ابتدائی 35-36 برسوں میں ایران کے ساتھ بہت قریبی تعلقات رہے ہیں۔ اس لئے سعودیہ کی حالیہ بڑی انویسٹمنٹ اور پاکستان کی بڑی شیعہ آبادی کی وجہ سے پاکستان اس پوزیشن میں نہیں ہے ایران کے ساتھ معاملات کو اس نہج پر لے جائے جہاں اس وقت سعودیہ اور ایران کھڑے ہیں- سعودی قیادت کو یہ بات سمجھ آ چکی ہے کہ پاکستان ایک حد تک ہی سعودیہ کی حمایت کرے گا- اس لئے فی الحال مشرق وسطیٰ میں پاکستان کی حمایت حاصل کرنا اور خصوصاً پاکستان کی بڑی تعداد میں شعیہ آبادی اس کو سعودی عرب کے نقطہ نظر سے اہم بناتا ہے۔
اس تمام صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی قیادت اپنی اہمیت کو سمجھے اور پہچانے- بےشک سعودیہ سے قریبی اور برادرانہ تعلقات کو بہت زیادہ فروغ دیا جائے مگر کبھی بھی خود کو اس پوزیشن میں نہ پہنچایا جائے کہ خطہ میں سعودی مخالف کیمپ ایران, قطر, یمن, عراق, شام, ترکی اور روس یہ سمجھیں کہ پاکستان ان سے کسی طرح کی دشمنی کر رہا ہے- ہمیں تجارتی تعلقات کے ذریعہ مشرق وسطی میں جاری لڑائی میں خود کو ہرگز فریق نہیں بنانا چاہئے بلکہ اس کے برعکس مشرق وسطی میں جاری اس کشمکش کے خاتمہ کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے-
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں