طاہرہ اقبال کا تعلق ضلع ساہیوال کے ایک گاؤں سے ہے۔ انہوں نے پرائیویٹ طور پر تعلیم حاصل کی۔ادبی دنیا میں انہوں نے افسانوں کے ذریعے قدم رکھا ساتھ ہی ناول نگاری بھی شروع کی۔ “نیلی بار” طاہرہ اقبال صاحبہ کا ایک بڑا ناول ہے جو کہ پونے چھ سو صفحات پر مشتمل ہے اس کو جہلم بک کارنر نے شائع کیا ہے۔ اس ناول کو مستنصر حسین تارڑ ، اسد محمد خان ، ظفر اقبال اور الطاف فاطمہ جیسے لوگوں نے پسند کیا ہے۔اس ناول کا پیش لفظ تارڑ صاحب نے لکھا اور جسونت سنگھ سے ہونے والی گفتگو کا ذکر کیا جس میں سردار صاحب نے تارڑ صاحب کو بلونت سنگھ اور بیدی سے بڑا لکھاری کہا۔ اس پر تارڑ صاحب لکھتے ہیں کہ اگر سردار صاحب نیلی بار پڑھ لیں تو وہ طاہرہ اقبال کو مجھ سے بھی بڑا لکھاری مان لیں۔ تارڑ صاحب نے طاہرہ اقبال کی بے باکی کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں پنجاب کی قرۃ العین طاہرہ کہا ہے۔ تارڑ صاحب نے لکھا کہ بیشتر ناول گونگے ہوتے ہیں ،بولتے نہیں جبکہ طاہرہ اقبال کا ناول بولتا ہے۔ تارڑ صاحب کا اس ناول کو سراہنا اس ناول کی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے۔
نیلی بار کی کہانی کو سمجھنے سے پہلے ہمیں پنجاب بالخصوص وسطی پنجاب کے جغرافیہ کے بارے میں سمجھنا ہو گا۔ بار گھنے جنگل کو کہتے ہیں ۔ انگریز سرکار کے برصغیر آمد کے بعد یہاں نہری نظام متعارف ہوا۔ اس نہری نظام سے پہلے جنگل دو دریاؤں کے درمیان ہوتے تھے ان کو بار کہا جاتا تھا۔ وسطی پنجاب میں مختلف باریں تھیں جیسے کہ گنجی بار، ساندل بار ، کڑانہ بار اور نیلی بار وغیرہ ۔ نیلی بار کا علاقہ دریائے راوی اور دریائے ستلج کے درمیان واقع ہے۔ ساہیوال ، اوکاڑہ ، پاک پتن ، چیچہ وطنی اور وہاڑی کا علاقہ نیلی بار میں آتا ہے۔ طاہرہ اقبال کا ناول اس علاقے یعنی اس نیلی بار کی ہی کہانی ہے۔
یہ ناول دس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کا پہلا باب اس ناول کو ایک بڑا ناول بنانے کی مضبوط بنیاد رکھتا ہے۔ اس باب میں طاہرہ اقبال صاحبہ نے گاؤں کی ثقافت کا جس خوبصورتی سے نقشہ کھینچا ہے اور ایک شادی کا منظر پیش کیا ہے۔پنجاب کے گاؤں کی شادیوں کا ایک الگ رنگ ہے۔ گو کہ زمانے کی جدت سے ان میں بھی بہت زیادہ تبدیلی آ گئی ہے ۔ لیکن آج سے پندرہ بیس سال پیچھے بھی چلے جائیں تو اس وقت کی شادی کو آپ اس پہلے باب میں محسوس کر سکتے ہیں ۔ جس طرح وہاں پر عورتیں ماہیے اور ٹپے گاتی ہیں وہ اب بھی موجود ہے ۔ مصنفہ نے پنجابی زبان میں ان گیتوں کے اشعار کو لکھ کر اس منظر کشی میں حقیقی رنگ بھرا ہے۔ اگر تو آپ پنجاب کی ثقافت سے دلچسپی رکھتے ہیں تو یہ باب آپ کو اس حوالے سے بھرپور معلومات فراہم کرے گا۔ شادی کا یہ منظر پاکستان بننے سے کچھ سال بعد کا ہے۔ شادی کی رسم ورواج کے حوالے سے بھی کافی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے اور پھر گاؤں کی شادی فقط ایک گھر کی شادی نہیں بلکہ اس میں آدھا گاؤں کسی نہ کسی حوالے سے ذمہ داری کی حد تک شریک ہوتا ہے وہ بھی ہم یہاں محسوس کرتے ہیں ۔ شادی کے کھانے کے حوالے سے مردوں کی مصروفیات کس طرح کی ہوتی ہیں ان کی جھلک بھی ہم کو نظر آتی ہے۔ دلہن کی سہیلیاں دلہن کو جس طرح چھیڑتی اور اس کے آنسو سمیٹتی ہیں وہ بھی ہم کو نظر آتا ہے۔
تقسیم ہند کے حوالے سے جغرافیائی طور پر سب سے زیادہ متاثر پنجاب اور بنگال ہوئے تو جغرافیائی تبدیلی کا یہ دکھ بھی ہم کو محسوس ہوتا ہے۔ پھر نیلی بار میں دو طرح کے غیر مقامی لوگوں کا بسیرا ہو رہا ہے۔ ایک طرف تو راولپنڈی ، چکوال کی طرف سے آنے والے لوگ ہیں تو دوسری طرف جالندھر، لدھیانہ ، گورداسپور اور امرتسر سے آنے والے مہاجرین نے یہاں ڈیرا ڈال دیا ہے۔ یہ مہاجرین مقامی لوگوں کے لیے خصوصاً درد سر ہیں۔ ایک تو یہ بار کی رہتل (ثقافت) سے واقف نہیں دوسرا یہ بار میں رہ کر بھی لدھیانہ ، امرتسر اور جالندھر کو یاد کرتے ہیں اور اس کے گن گاتے ہیں۔ ان کا وجود سب سے زیادہ یہاں کے جاگیرداری نظام کے لیے خطرہ ہے کیونکہ یہ جاگیر داروں کے نسل درنسل غلام اور مزارع نہیں رہے اس لیے آداب سے واقف نہیں دوسرا پھر یہ یہاں کی سیاست جو کہ جاگیر داروں اور وڈیروں کا حق ہے میں بھی دخل انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس بات کا خوف بھی ہے کہ کہیں وہ مقامی لوگوں کا ذہن ہی نہ گندہ کر دیں اور نسل در نسل غلام چلنے والی اس کھیپ کو کہیں اپنے مالکان سے متنفر نہ کر دیں.
اس پہلے باب میں ہی طاہرہ اقبال صاحبہ نے جاگیرداری نظام اور اس سے وجود میں آنے والی طبقاتی تقسیم اور پھر اس جاگیردارانہ سماج میں عورت کی کمتر حیثیت اور اس کے استحصال کو بھی موضوع بنایا ہے ۔ ہمیں نظر آتا ہے کہ کیسے جاگیر کے بٹوارے کے خوف سے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی شادیاں نہیں ہونے دی جاتی پھر غریب کی حیثیت تو وڈیروں کے مال ڈنگروں سے بھی کم ہوتی ہے اور ان کی عورتیں تو گویا انسان ہی نہیں ہیں ۔ خود وڈیروں کو اپنی عیاشیوں کے لیے ہر ممکن سامان میسر ہوتا ہے۔ وہ جب چاہیے کسی کی عورت کو اٹھا لیں بلکہ پوری بارات لوٹ لیں تو بھی متاثرین احتجاج بلند کرنے کے قابل نہیں ہوتے.
پہلے باب میں ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ مصنفہ کی کہانی اور اس کے کرداروں پر بہت مضبوط گرفت ہے اور وہ اپنی مرضی سے قاری کو جس طرف لیکر جانا چاہیے لے کر چلی جاتی ہیں۔ لیکن اگلے ابواب میں یہ گرفت گو کہ قائم تو رہتی ہے لیکن پہلے کی نسبت کچھ ڈھیلی محسوس ہوتی ہے۔
کہانی کا آغاز ایک شادی سے ہوتا ہے جس میں دیہات کا رنگ جھلک رہا ہے اور یہ پاکستان بننے کے کچھ سال بعد ہی کی کہانی ہے۔ یہ بارات راستہ بھولتی ہے تو بالآخر اغواء کر لی جاتی ہے۔ اس کو ملک فتح شیر جو کہ وڈیرا بھی ہے اور قانون ساز اسمبلی کا رکن بھی اس کے لوگ اغوا کرتے ہیں ۔ بالآخر مال غنیمت فتح شیر کے سامنے لایا جاتا ہے لوگ اس کی منتیں کرتے ہیں تو وہ کمال مہربانی کر کے ان کا سامان چھوڑ دیتا ہے ساتھ ہی باراتیوں کو بھی چھوڑ دیتا ہے مگر دلہن اور اس کی تین سہیلیوں کو وہ پاس رکھ لیتا ہے۔ ملک فتح شیر کی بیوی رقیہ اپنے شوہر کی رنگ رلیوں سے ناصرف واقف ہے بلکہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ اسے کوئی اعتراض بھی نہیں بلکہ ایسی اغواء شدہ لڑکیاں ان کی ملازماؤں میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور پھر غنیمت میں لٹی ہوئی یہ ہی لڑکیاں ان ڈاکوؤں کو ایک رات کے لیے بطور انعام بھی دی جاتی ہیں جو بڑے ہاتھ مارتے ہیں۔ ست بھرائی جو دلہن اور اس کی تین سہیلیاں ملک فتح شیر کے ڈیرے پر پہنچ جاتی ہیں تو وہاں فتح شیر کا بیٹا عبدالرحمان اپنے باپ کی عیاشیوں پر سیخ پا ہوتا ہے جبکہ اس کی ماں اسے منع کرتی ہے۔ لیکن پھر وہ ست بھرائی کو بھگا کر لے جاتا ہے۔ ہمیں شروع میں نظر آتا ہے کہ عبدالرحمان اپنے باپ سے مختلف ہے مگر ست بھرائی کو وہ اپنے پاس الگ جگہ رکھتا ہے۔ گو کہ اس کا سلوک ست بھرائی سے اچھا ہے لیکن پھر بھی اس کا رشتہ ہوس کا ہی ہے۔ جلد ہی عبدالرحمان کی ہوس جب پوری ہو جاتی ہے تو اسے ست بھرائی میں پہلی سی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ پہلے وہ اس کے نخرے اٹھاتا ہے لیکن اب اس سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ملک عبدالرحمان ملک فتح شیر سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ست بھرائی اور اس کی سہیلیوں کے رشتے دار اپنے ذیل دار کے ذریعے ملک فتح شیر سے اپنی بیٹیوں کو چھڑانے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوتے ۔ یہاں ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ قافلے والے اس بات پر مطمئن ہیں کہ ان کے بیٹے چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ مطلب یہاں صنفی امتیاز کو بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ بیٹیوں کا اغواء ہونا افسوس ناک سہی مگر اس سے زیادہ افسوسناک یہ ہوتا کہ اگر بیٹے اغوا کر لیے جاتے. بہرحال سال دو سال بعد یہ لڑکیاں اپنے ورثاء کو واپس کر دی جاتی ہیں لیکن یہاں پر عبدالرحمان اپنے باپ سے اس طرح مختلف ہوتا ہے کہ وہ ست بھرائی کو زیور دیکر بھیجتا ہے جبکہ اس کی سہیلیاں خالی ہاتھ آتی ہیں۔ یہاں پر ان کے رشتے داروں کی ذہنی پستی کو دیکھا جا سکتا ہے جب وہ ست بھرائی کے زیورات دیکھتے ہیں تو اپنی لڑکیوں کو دیکھتے ہیں کہ شاید وہ بھی کچھ لے کر آئی ہوں مگر انہیں مایوسی ہوتی ہے۔ ست بھرائی کے ان زیورات کی وجہ سے اس کا سسرال بھی اس کو قبول کرتا ہے مگر وہ اپنے شوہر کو قبول نہیں کرتی بلکہ اب اس کے ذہن پر ملک عبدالرحمان ہی سوار ہے۔ ملک عبدالرحمان کے عشق میں وہ پاگل ہو جاتی ہے اور اس پر آسیب کا سایہ پڑ جاتا ہے۔ ست بھرائی کا یہ پاگل پن آگے بھی چلتا رہتا اور اگلے دو تین ابواب کا حصہ ہوتا ہے۔ ست بھرائی کی کہانی کے ساتھ ہی یہاں ملک فتح شیر کی بیٹی جو پہلے زائرہ فتح شیر اور بعد میں زارا فتح شیر ہوتی ہے کی چلتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک کردار پاکیزہ کا آتا ہے ۔ ان دونوں خواتین کا کردار بہت مضبوط ہے اور اس کے بعد کی کہانی زیادہ تر ان سے اور ان سے وابستہ کرداروں کے گرد ہی گھومتی ہے
ناول کی کہانی تقریباً ساٹھ سال تک پھیلی ہوئی ہے تو اس میں کئی کردار شامل ہوتے جاتے ہیں۔ زارا فتح شیر اور پاکیزہ کے علاوہ رقیہ بیگم کا کردار بھی اہم ہے۔ جبکہ فتح شیر ، ذیل دار ، ملک عبدالرحمان ، علی جواد المعروف مولانا محمد علی معاویہ اور پیر اسرار احمد شاہ کے مردانہ کردار بھی قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی چھوٹے موٹے کردار بالخصوص نیچ برادری کی خواتین اور مردوں کے ساتھ ساتھ ایک دلچسپ کردار فوجی نصیر کا ہے۔
صفورہ جو کہ ملک فتح شیر کی بہن ہے۔ اس کی فتح شیر شادی نہیں ہونے دیتا۔ اس شادی سے ڈر ہے کہ کہیں جاگیر نہ تقسیم ہو جائے۔ بالآخر ایک دن ایک نوکرانی کے ساتھ اچانک کسی چور راستے سے صفورہ حویلی سے باہر جاتی ہے جہاں ملک فتح شیر کے نجی قید خانے میں قید وحشی ڈکیت سے اس کا میلاپ ہوتا ہے۔ رقیہ جو اپنی نند پر نظر رکھے ہوتی ہے جب دیکھتی ہے کہ صفورہ کے ماہواری کے دن نہیں آ رہے جو کہ آ جانے چاہیے تھے تو خطرہ کا آلارم بجتا ہے اور وہ ملک کو اس کی اطلاع دیتی ہے۔ دائی سے تصدیق کے بعد اب ان کے لیے وڈیروں کے لیے مشکل نظر آتی ہے کہ وہ اس بات کو کیسے کور کریں تو ملک فتح شیر اس حمل کو ایک کرامت کا روپ دیتا ہے کہ اس کی کنواری بہن کو کسی نے چھوا تک نہیں اس کے باوجود وہ حمل سے ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صفورہ امام مہدی کو جنم دینے والی ہے یوں وہ اپنی ‘عزت’ بھی بچاتا ہے اور صفورہ کے لیے اعلان ہوتا ہے کہ وہ پاکیزہ ہستی ہے ، یہ دھرتی اس کے قابل نہیں ، مہدی کی پرورش کے لیے ضروری ہے کہ وہ لاہور میں داتا دربار کے سائے میں پلے۔ یوں اس کو رخصت کیا جاتا ہے اور راستے میں ہی اس کا کام تمام کر دیا جاتا ہے۔ اور یہ کام بھی وہ وحشی ڈکیت کرتا ہے۔ یوں صفورہ زندگی سے نجات حاصل کرتی ہے اور ملک فتح شیر بدنامی سے اور اس کا قصہ بھی گاؤں سے غائب ہو جاتا ہے۔ صفورہ کے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے جاگردار طبقہ اپنے مطلب کی بر آوری کے لیے مذہب کا سہارا لیتا ہے۔ یہ مذہب فروشی ہمیں ناول کے باقی کرداروں میں بھی نظر آتی ہے اور یہ مذہب فروشی ایک ایسا کاروبار جس میں طبقاتی تقسیم کی بھی قید نہیں جس کا جب بھی داؤ چلے وہ اس کو آزماتا ہے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں