ایم بی بی ایس میں داخلہ ہُوا تو میڈیکل کالج کے پہلے دن اناٹومی کی کلاس تھی۔ اناٹومی کے ڈیمونسٹریٹر ڈاکٹر تیمور بولے کہ آج تو آپ بہت خوش ہیں کہ میڈیکل میں داخلہ ہو گیا، لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔جب میں پاس آؤٹ ہوا تھا، تو پورے پنجاب میں ہر سال کوئی دس ہزار ڈاکٹر نکلتا تھا، جب آپ نے پاس آؤٹ ہونا ہے تو یہ تعداد کوئی20 ہزار کے لگ بھگ ہوگئی ہوگی ۔تب یہ فیلڈ اتنی بھر چکی ہو گی کہ آپ نے رونا ہے۔ہم نے سوچا کہ ڈاکٹر تیمور یونہی ڈرا رہے ہیں، پر نہیں ۔۔وقت نے ثابت کیا کہ وہ بالکل ٹھیک تھے ۔
اب سر کی فرسٹ ائیر ایم بی بی ایس میں کہی گئی باتیں سچ ثابت ہوئی ہیں تو عقل ٹھکانے آ گئی ہے۔ اب ہر سال صوبہ پنجاب میں ہر سال کوئی 15 سے20 ہزار ڈاکٹر نکل رہا ہے، جب سرکاری نوکریوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ 5 ہزار ہے ۔ تو تقریباً ہر سال دس ہزار ڈاکٹرز کو سرکاری نوکری نہیں ملتی، نوکری نہیں ملتی تو تجربے کے نمبر نہیں ملتے، نمبر نہیں ملتے تو آگے پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ نہیں ملتی ،یوں مسئلہ روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔
جب سے سرمایہ دار طبقہ میڈیکل فیلڈ میں آیا ہے، اس فیلڈ کا بیڑا غرق ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر عاصم کے دور میں اس نے سرمایہ داروں کو کہا کہ اتنے پیسے بطور سکیورٹی دو، تو تم لوگ نئے میڈیکل کالج کھول سکتے ہو۔سرمایہ داروں نے دھڑا دھڑ میڈیکل کالج کھولے، یوں لاکھوں لیکر ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں لگائی گئیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ ہمارا بیٹا گریجوایٹ ایم بی بی ایس کی ڈگری لیکر کیا کرے گا؟ اب آپ یقین مانیے کہ پرائیوٹ ایم بی بی ایس کی سب سے کم فیس ایک کروڑ پچیس لاکھ ہو چکی ہے، جبکہ ڈاکٹرز بعد میں صرف تیس ہزار روپے میں نوکری کر رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ۔ جن کو نوکری مل جاتی ہے، ان کو آگے ٹریننگ نہیں ملتی، جو کنسلٹنٹ بن جاتے ہیں، ان کے لیے کوئی سروس اسٹرکچر ہی نہیں ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں۔
لاہور کے ایک پرائیوٹ ٹیچنگ ہسپتال میں ایم سی پی ایس کی 9 سیٹوں کے لئے 2100 درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جو 9 ڈاکٹرز منتخب ہوئے، ان کی سفارشیں سب سے زیادہ ہیوی تھیں، خطرناک بات یہ ہے کہ یہ 9 کی 9 سیٹیں اَن پیڈ ہیں، یعنی کہ ایک اَن پیڈ سیٹ کے لیے تقریباً 234 ڈاکٹرز کے درمیان مقابلہ تھا، وہی سلیکٹ کیے گئے جو کہ ان میں سے زیاہ پاوے تھے۔ یاد رہے ابھی ایم سی پی ایس صرف ایک ڈپلومہ ہے، جس کی صرف چھوٹے شہروں میں تھوڑی بہت ویلیو ہے۔
یہ نقصان ہوتا ہے جب آپکی پروڈکشن آپکی ڈیمانڈ سے کہیں زیادہ ہو۔ جب گلی محلوں میں میڈیکل کالجز کُھلے ہوں، کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہو تو، یہی ہوتا ہے۔ جہاں آج سے چند برس پہلے، پورے پنجاب میں کوئی 2500 ڈاکٹر نکلتا تھا، اب اسی صوبہ پنجاب سے تقریباً ہر سال 15 سے 20 ہزار ڈاکٹر نکل رہا ہے ، سرکاری ہسپتال اتنے ہی ہیں، تو سب کو نوکری کیسے ملے گی؟ نوکری نہ ملی تو سی آئی پی میں میرٹ کیسے بنے گا ؟۔ اب پنجاب میں یہ حال ہو چکا ہے کہ لوگ 25سے 30 ہزار میں پرائیویٹ نوکری کر رہے ہیں، جو کہ ملی بھی سفارش کی وجہ سے ہے۔ اگر چھوڑتے ہیں تو مزید 500 ڈاکٹر لائن میں لگا ہوا ہے۔ اب لوگ ایم ایس، ایم ڈی اور ایف سی پی ایس کی ٹریننگ مکمل کر کے ایڈہاک نوکری کے لیے در بدر رُل رہے ہیں اور کوئی پُرسان حال نہیں ۔
پہلے پنجاب میں صرف سرکاری میڈیکل کالجز تھے، تو ڈیمانڈ کے لحاظ سے پروڈکشن کم تھی لیکن گزارہ ہو جاتا تھا، پھر میڈیکل کالج کی بھرمار ہوئی، رہی سہی کسر چائنہ، روس اور دیگر فارن میڈیکل گریجوایٹس نے پوری کر دی۔ اب ہر طرف ڈاکٹر ہی ڈاکٹر ہیں، اور سرکاری نوکری نامی کوئی چیز ہے ہی نہیں ۔ اب حالات یہاں تک تشویشناک ہو چکے ہیں کہ لوگ سرکاری نوکری کے لئے کلرکوں کے پاس رشوت لیکر جاتے ہیں، وہ آگے سے جواب دیتے ہیں کہ ہم پہلے ہی پیسے پکڑ چکے ہیں۔ ٹریننگ کی سیٹیس بہت کم ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان بھر میں بالخصوص پنجاب میں برین ڈرین ہو رہا ہے۔ جیسے ہی کوئی باہر کا ٹیسٹ کا اعلان ہوتا ہے، صرف دس منٹ میں ساری سیٹیں بُک ہو جاتی ہیں، اور لوگ نیپال یا دوبئی جا کر پیپر دیکر آتے ہیں۔
جو لوگ ٹریننگ کر رہے ہیں یا کنسلٹنٹس بن چکے ہیں، وہ بھی پاکستان میں اپنے مستقبل کے بارے میں مطمئن نہیں، وہ بھی بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں ۔پچھلے چند مہینوں نے پنجاب کی تاریخ میں سب سے زیادہ ایکس پاکستان لیویز کے لیے درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ تو اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک عام ڈاکٹر اس سسٹم سے کتنا مایوس ہو چکا ہے۔
اس کا ایک حل تو ہے کہ باہر کے ٹیسٹ دئیے جائیں، جن کی فیسوں میں بے انتہا اضافہ ہو چکا ہے کہ ایک عام ڈاکٹر افورڈ ہی نہیں کر سکتا، اب بیرون ملک کے ٹیسٹوں کی فیس دینے کے لیے پیسے چاہئیں، پیسے کے لیے نوکری چاہیے، جو کہ ہے نہیں، اب بیچارہ ایک عام ڈاکٹر جائے تو جائے کہاں ؟۔جو بیچارے کنسلٹنس بن چکے ہیں، ان کے لیے بھی آگے نوکری نہیں، جبکہ پیچھے سے ہر سال 20 ہزار ڈاکٹروں کی نئی کھپت آتی جا رہی ہے، جن کا سرکاری کالجز میں میرٹ نہیں بنتا وہ کروڑوں لگا کر پرائیوٹ ایم بی بی ایس میں داخلہ لے لیتا ہے، جو باقی بچتے ہیں وہ ڈاکٹر بننے کے لئے بیرون ملک داخلہ لے لیتے ہیں یوں صورتحال ویسے کی ویسے رہتی ہے۔
اس صورتحال سے بچاؤ کے لیے کچھ تجاویز درج ذیل ہیں۔
فی الفور نئے پرائیوٹ میڈکل کالجز پر پابندی عائد کی جائے۔ فارن ایم بی بی ایس پر پابندی لگائی جائے۔ پنجاب میں ٹریننگ کی سیٹیں بڑھائی جائیں۔ سرکاری نوکریوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ ڈاکٹرز کا سروس اسٹرکچر بہتر کیا جائے۔ میڈیکل کالجز پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لیے نیا سسٹم بنایا جائے۔ محکمہ صحت ایک ایسا مربوط نظام مرتب کرے کہ نئے اور پرانے ڈاکٹرز دونوں کو یکسر مواقع ملیں۔ اگر ہم نے ابھی ایمرجنسی اقدام نہ اٹھائے تو وہ دن دور نہیں جب یہاں بچے ہوئے ڈاکٹرز بھی پاکستان چھوڑ دیں گے۔
لیکن اس سب کے باوجود بھی ایف ایس سی پری میڈیکل والے بھی ہیں جن کا بس نہیں چل رہا کہ بس کسی طریقے سے ایم بی بی ایس میں داخلہ مل جائے پھر ہماری زندگی سیٹ ہو جائے گی، جی ٹھیک ہو گیا۔ کاش ایسا ہوتا، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ حالات یکسر اس کے اُلٹ ہیں۔ چند بڑوں کی غلطیوں نے اچھے خاصے پروفیشن کو کہاں لا کے چھوڑا ہے، جہاں امید کی روشنی تو کیا دور دور تک کوئی جگنو ہی نظر نہیں آ رہا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں