تقیہ انفرادی سطح پر اپنی جان، مال اور عزت بچانے کا ایک شرعی حیلہ ہے۔ ’’تقیہ‘‘ کے جواز و عدمِ جواز کا فیصلہ حالات کو دیکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ تقیہ بسا اوقات جائز، کبھی واجب تو کبھی حرام ہوتا ہے۔ اسلام میں ہر جگہ پر جان کی قربانی دینا بھی لازم نہیں، اِسی طرح جہاں حق بات کہنا لازم ہو وہاں جان بچانا بھی درست نہیں۔ اگر ہر مقام پر تقیہ کر کے جان بچانا درست ہوتا تو جہاد کی نوبت ہی نہ آتی۔ اہلِ تشیع کے بنیادی اُصولوں (اُصولِ مذہب/فروعِ مذہب) میں تقیہ شامل نہیں۔ تقیہ، بداء کی طرح، مکتبِ تشیع کے امتیازات سے ہرگز نہیں ہے۔ سبھی اسلامی مکاتب میں بداء کا نظریہ اور تقیہ کا جواز موجود ہے، لیکن وہاں یہ الفاظ رائج نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر سُنی مکتب میں معلق قضا کا تصور پایا جاتا ہے، اِسی کو شیعہ بداء کا نام دیتے ہیں، اِسی طرح توریہ کر کے ظالم سے جان بچانے کا عمل سبھی مسالک میں جائز ہے، اِسے شیعہ تقیہ کا نام دیتے ہیں۔ اسلامی مسالک کی باہمی چپقلش کی وجہ سے ایک دوسرے کے نظریات کو غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے، تب ہی غلط فہمیاں موجود ہیں۔ اِسی طرح کی غلط فہمی تقیہ سے متعلق بھی موجود ہے۔ سُنی مکتب کے علماء کا خیال ہے کہ شیعی علمی میراث میں بھی تقیہ کے اثرات موجود ہیں۔ اگر تقیہ کی حقیقت کو سمجھا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شیعی عقائد و فقہ تقیہ کے اثرات سے محفوظ ہیں۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
شیعی کتبِ حدیث میں بسا اوقات آئمہ اہلِ بیت سے ایسی روایت مروی ہوتی ہے یا سُنی محدثین نے آئمہ اہل بیت سے کچھ ایسے اقوال نقل کیے ہیں جو سُنی فقہ کے موافق ہیں تو اُن کی توجیہ عام طور پر شیعہ محدث یُوں کرتے ہیں کہ امام نے ایسا تقیہ کرتے ہوئے کہا۔
اِس بات کو مکمل سمجھا نہیں گیا۔ ایسی روایات جن میں شیعہ محدثین نے یہ جواب دیا ہے کہ یہ روایات تقیہ والی ہیں، وہ دو طرح کی ہیں:
۱۔ بعض اوقات آئمہ اہلِ بیت ؑنے ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنے پر سائل کو اُس کے مذہب کے موافق جواب دیا ہے۔ اب کسی سائل کو اُس کے مذہب کے موافق جواب دینے کو شیعہ محدثین نے لکھا ہے کہ ایسا تقیہ کرتےہوئے ( سائل کے شر سے بچنے یا اُس سے بحث نہ کرنے یا اُس کی ذہنیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے) کیا گیا ہے۔
۲۔ بسا اوقات احکام میں وسعت کو یُوں بیان کیا گیا ہے کہ ایک حدیث میں کہا گیا کہ یہ کام کر لو تو دوسری میں منع کیا گیا ہے۔ اِس ظاہری تعارض کو حل نہ کرنے پر شیعہ محدثین میں سے بعض نے ایک روایت کو تقیہ پر محمول کیا ہے، جو ہماری دانست میں درست نہیں ہے۔ مثال کے طورپر غُسلِ جمعہ پر دونوں طرح کی روایات موجو د ہیں، علماء نے نتیجہ نکالا کہ غُسلِ جمعہ مسنون ہے۔ یہ نہ تو واجب ہے، نہ ہی حرام۔
اِس حوالے سے خواہش ہے کہ شیخ الطائفہ الطوسیؒ کی اختلافی احادیث اور اُن کے حل پر مشتمل کتاب “الاستبصار” کا مطالعہ کروں اور اُن سب مقامات کو دیکھا جائے جہاں شیخؒ نے ایک روایت کو تقیہ پر حمل کیا ہے، وہاں یہی دو صورتیں ممکن ہیں کہ یا تو ایک متعارض روایت میں سائل کو اُس کے مذہب کے موافق جواب دیا یا متعارض حدیث در اصل توسعہ کو بیان کر رہی ہوگی۔
نتیجہ:
شیعی علمی میراث میں تقیے کے اثرات موجود نہیں ہیں، اگر تقیہ کیا جاتا تو کبھی بھی مطاعنِ صحابہ نہ لکھے جاتے، جو بندہ بھی ’’بحار الانوار‘‘ جیسی شیعہ کتب دیکھے گا وہ سمجھ سکتا ہے کہ شیعہ علماء نے جس قدر جرات سے اپنے عقائد ونظریات کو اپنی کتب میں لکھا ہے۔امام علیؑ سمیت، دیگر آئمہ اہلِ بیتؑ نے تقیہ نہیں کیا ( ھیات مبارکہ تنازعات میں ممکنہ حد تک جنگ و جدال سے گرزی کیا لیکن اپنے حق سے دست بردار بھی نہ ہوئے۔ یہ روش سیرتِ نبوی میں بھی ملتی ہے، مکی زندگی کو بالخصوص دیکھا جائے نیز مدنی زندگی میں بھی آپ کی صلح کے معاہدے ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں) ہاں لوگوں کو اُن کے نظریات پر عمل سے نہیں روکا، جیسے کہ تواریخ میں موجود ہے کہ امام علیؑ نے خوارج کو کچھ نہ کہا ،یہاں تک کہ وہ قتال کرنے لگے، تب قوت سے روکا۔
بعض واقعات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آئمہ اہلِ بیتؑ نے سائلین کو اُن کے مسلک کے موافق جواب دیا ،یا مسائل میں اگر کسی قدر وسعت تھی تو وہ بیان کیے کہ ایسے بھی جائز ہے (جواز بمعنیٰ اعم جو کراہت کو بھی شامل ہے) ہاں اپنے کمزور ساتھیوں کو ضرور بتایا کہ اگر انفرادی سطح پر جان بچانا ہوتو اپنے نظریات پوشیدہ رکھیے گا، یہ وہی روش ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ میں رہتے ہوئے، ابتداءِ اسلام میں، نو مُسلم اصحاب کو سکھائی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں