ضیافت و مہمانی کے آداب ۔۔۔ حافظ صفوان

مہمانداری ان اچھی صفات میں سے ایک ہے جو آج بھی مسلمان میں کم یا زیادہ کہیں نہ کہیں پائی جاتی ہیں۔ آئیے مہمان داری کے کچھ ادب آداب کا تذکرہ ہوجائے۔

کوئی مہمان آئے تو اسے اس کی پسند کا کھانا پیش کرنا سنت ہے۔ کسی قوم کا سردار مدینہ آیا تو حضرت محمد علیہ السلام نے اس کے لیے اپنی چادر بچھائی اور اسے تکیہ دیا، اور حضرت عائشہ سے کھانا بنانے کو فرمایا۔ کچھ دیر بعد فرمایا کہ کھانے میں میٹھا بھی بنائیں (یعنی مہمان کے لیے معمول سے ہٹ کر خاص ڈش بنوائی)۔ اسی دوران ایک سائل آیا تو اسے اس کا سوال پورا کرکے دروازے ہی سے واپس کر دیا گیا۔ بعد میں حضرت عائشہ نے کہیں پوچھا کہ یا رسول اللہ، آج ہم نے آپ کو دو انسانوں کے ساتھ دو مختلف طرح کا سلوک کرتے دیکھا حالانکہ آپ خدا کے رسول ہیں اور سب انسان برابر ہیں۔ جواب میں ارشاد ہوا کہ مجھے لوگوں سے ان کے درجے کے مطابق سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے (انزلوا الناس منازل)۔ پہلا شخص ایک قوم کا سردار تھا۔ وہ سردار کی حیثیت سے میری ملاقات کو آیا۔ میں نے اس کے لیے اس کے مناسب مہمانی کی۔ دوسرا شخص ایک مسلمان فقیر تھا۔ اس کا سوال دروازے ہی سے پورا کرکے اسے چلتا کیا گیا۔

بعض لوگوں کی مہمانی میں حضرت محمد علیہ السلام نے اونٹ تو کبھی بکری ذبح کی اور کبھی بعض مہمانوں کو کسی کھاتے پیتے صحابی کے ہاں بھیج دیا۔ مہمان کی ضیافت خود کرنے کی وسعت الآن نہیں ہے تو بھی اس کے لیے کوئی ترتیب بنا دی۔

ہر سائل مہمان نہیں ہوتا۔ ایک سائل آیا تو اس کا پیالہ بکواکر اسے کلھاڑی خریدوا دینے والا واقعہ مشہور ہے۔ واضح رہے کہ اس سائل کو پانی کا پیالہ تک پوچھنا بھی کسی کتاب میں مذکور نہیں ہے۔

ارشاد ہے کہ مہمانی تین دن کی ہے۔ یعنی کوئی شخص کسی کے ہاں مہمان گیا ہے تو میزبان زیادہ سے زیادہ تین دن اس کی مہمانی کرے۔ مکہ والے جب ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو مدینہ والوں نے بہت اکرام اور مہمانی کی۔ تاہم حضرت محمد علیہ السلام نے فوری طور پر سب مہاجرین کو مقامی انصار کے ساتھ بھائی بندی کے رشتے میں باندھ دیا تاکہ ہر کوئی اپنے دینی بھائی کے ساتھ مل کر اس کے کھیت کاروبار میں محنت کرے اور کماکر کھائے۔ اس طرح مدینہ میں نہ تو غربت پھیلی اور نہ سٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوا بلکہ سبھی مہاجر مدینہ آتے ہی برسرِ روزگار ہوگئے۔

جو لوگ مدینہ کے آس پاس کے علاقوں میں رہتے تھے وہ اپنا تجارتی سامان خرید فروخت کے لیے ہفتہ واری کاروبار کے دن یعنی جمعہ کے روز مدینہ آتے تھے۔ کاروبار کے لیے ہر ہفتے مدینہ آنے والے یہ لوگ مہمان نہیں ہوتے تھے تاہم ان کے لیے پانی اور ان کے گھوڑوں اونٹوں کے باندھنے کا بندوبست مقامی لوگ اسلام کی آمد سے پہلے بھی کرتے تھے اور اسلام کی آمد کے بعد بھی اس میں تعطل نہیں آیا۔

البتہ مسافروں کی مہمانی ضرور ہوتی تھی۔ روایات میں ہے کہ مدینہ کے اہم سیاسی لیڈر جنابِ سعد بن عبادہ جیسے سخی کے محل سے روزانہ شام اعلان ہوتا تھا کہ جو مسافر آج مدینہ آیا ہے وہ کھانا سعد کے ہاں سے کھائے۔

مسافروں کی مہمانی بہت اچھی عادت ہے۔ حضرت شیخ الحدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خدا کے راستے میں نکلے ہوئے لوگوں کی ہمیشہ ضیافت کرتے تھے اور ان کو رخصت کرتے وقت انھیں راستے کے لیے کھانا یا نقدی اہتمام سے دیتے تھے۔

جو شخص ہمارے ہاں مہمان آئے اسے اپنی استطاعت کے مطابق کھانا کھلایا جائے اور اس کھانے کے لیے زیرِ بار نہ ہوا جائے۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ جو کچھ گھر میں پکا ہے اسی میں شوربہ بڑھا لیا جائے۔ گھروں میں شوربے والے سالن اہتمام سے پکائے جائیں۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں شوربے والے سالن بننا ہی بند ہوگئے ہیں اور ہم مہمانی کرنے والی سنت پر عمل سے محروم ہوئے چلے جا رہے ہیں۔

جو شخص مہمان بن کر آئے اسے بھی چاہیے کہ گھر والوں کے لیے مناسب تحفہ لے کر آئے۔ واضح بتایا جائے کہ اتنے لوگ ہوں گے اور اتنا وقت قیام کریں گے۔ میرے والد پروفیسر عابد صدیق صاحب اپنے بے تکلف دوست عبد الجواد صدیقی صاحب کے ہاں ہر ہفتے جاتے تھے۔ انھیں فون پر پہلے بتاتے کہ میں آ رہا ہوں یا ہم اتنے لوگ آ رہے ہیں، اور کیک بسکٹ وغیرہ ساتھ لا رہے ہیں، آپ چائے بنوائیے۔ اسی طرح کبھی کبھار ناشتہ لے کر دوستوں کے ہاں جاتے اور یہ ناشتہ اتنا ہوتا کہ دوستوں کے ساتھ ساتھ سب گھر والوں کے لیے کافی ہوتا۔ چائے البتہ میزبان کے ہاں سے بنتی۔ یوں کسی کی جیب پر بوجھ بنے بغیر اور کسی کے گھر والوں کو لمبی چوڑی میزبانی کرنے کی مشقت میں ڈالے بغیر احباب کی میل ملاقات بھی ہو جاتی اور خوش وقتی بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

میزبان بھی بننا چاہیے اور مہمان بھی، لیکن اگر یہ کام سنت طریقے سے کرلیا جائے تو سب کو سہولت رہے اور کوئی کسی پر بوجھ نہ بنے۔ کھانے پینے کا امریکن طریقہ اس مردہ سنت کو زندہ کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ خدا سمجھ دے۔ آمین۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply