صرف ایک ہی شخص سے دشمنی؟۔۔محمد اسد شاہ

دو معاملے آج کل میڈیا پہ چھائے ہوئے ہیں؛ افغانستان میں طالبان کی دوبارہ آمد ، اور لاہور میں ایک عورت کے ساتھ سینکڑوں افراد کی بدتمیزی ۔ دونو معاملات قابلِ ذکر ہیں ۔ لیکن ان دونو سے الگ ایک تیسرا اہم معاملہ بھی ہے ، جسے ہمارے بہت سے لکھنے والے نظر انداز کر رہے ہیں ۔ یہ معاملہ ہے سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی بنانے کا ۔ اور آثار و قرائن سے یہ ظاہر ہے کہ اگر اس سلسلے کو جلد از جلد روکا نہ گیا تو مستقبل میں معاشرہ خدانخواستہ خانہ جنگی یا کسی اور طرف جا سکتا ہے ۔

ہم مانیں یا نہ مانیں ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام نے میاں محمد نواز شریف کو تین بار وزیراعظم منتخب کیا ۔ کروڑوں لوگ اب بھی ان سے محبت کرتے ہیں ۔ حالیہ آزاد کشمیر انتخابات میں بھی ان کے نام پر تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ ووٹ پڑا ۔ بدقسمتی ، کہ انھیں ایک بار بھی اپنی آئینی مدت مکمل کرنے نہیں دی گئی ۔ 2016 سے بعض معلوم اور نامعلوم قوتوں نے ان کے خلاف بہت شدت کے ساتھ بدعنوانی کے الزامات لگانا شروع کیے ۔ پانامہ لیکس میں تقریباً ساڑھے چار سو پاکستانی افراد کے نام آئے ۔ ان سب کے خلاف مقدمہ قائم کروایا گیا ۔ میاں صاحب کا نام ان میں نہیں تھا ، البتہ ان کے صاحب زادوں کے نام تھے ۔ حیرت انگیز طور پر ان ساڑھے چار سو میں سے کسی کو بھی عدالتوں میں طلب نہیں کیا گیا ۔ البتہ میاں صاحب کے خلاف پیچیدہ انداز میں ایک تہہ در تہہ مقدمہ چلا اور آخر کار انھیں اس بات پر تاحیات نااہل قرار دیا گیا کہ انھوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے جو تنخواہ وصول نہیں کی ، اسے اپنا اثاثہ کیوں نہیں لکھا ۔ پانامہ لیکس میں مذکور ساڑھے چار سو افراد کے متعلق کیوں خاموشی ہے ، معلوم نہیں ۔

خیر یہ عدالتی معاملہ ہے جس میں یہ طالب علم لاعلم ہے ۔ میاں صاحب کی اہلیہ مرحومہ ، سابقہ ایم این اے ڈاکٹر کلثوم نواز صاحبہ جب لندن کے ایک ہسپتال میں بستر مرگ پر تھیں ، وہاں تحریک انصاف کے لوگوں نے کئی بار باقاعدہ حملے کیے ، پتھراؤ کیے ، چھپ کر کمرے میں گھسنے اور وڈیوز بنانے کی کوششیں کیں ، باہر کھڑے ہو کر گالیاں بکیں ، اور تیمار داروں کے ساتھ ہاتھا پائی بھی کی ۔ یہ ایک عجیب ذہنیت ہے جس کی مثال پاکستان ، بلکہ دنیا بھر کی تاریخ میں آپ کو کہیں نہیں ملے گی ۔

یہ سلسلہ رکا نہیں ۔۔ اب میاں صاحب لندن میں ہیں ۔ انھیں موجودہ عمران حکومت نے شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹرز اور تحریک انصاف کی صوبائی وزیر صحت کے کہنے پر علاج کے لیے بھجوایا ۔ لیکن اس کے بعد یہاں عمران خان ، ان کے وزراء اور مشیران کی فوج ، اور لندن میں ان کے کارکن ہر طرح سے میاں صاحب کے خلاف غصے کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ ان کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا گیا اور انھیں زبردستی واپس لانے کے عہد کیے جاتے ہیں ۔

گزشتہ ماہ سابق وزیر مملکت عابد شیر علی ایک ہوٹل میں کھانا کھا رہے تھے تو وہاں تحریک انصاف کے ایک حامی نے اپنا موبائل فون آن کر کے ان کے ساتھ بدزبانی شروع کر دی اور جواباً وہ سب کچھ سنا جو ایسی صورت میں اسے سننا ہی تھا ۔

اس یوم آزادی پر لندن کے ایک چوک میں تحریک انصاف کے 13 افراد نے میاں صاحب کے خلاف پوسٹر اٹھا کر مظاہرہ کیا ۔ ان مظاہرین میں 7 عورتیں اور 6 مرد تھے جو ایک دوسرے سے فاصلوں پر کھڑے نعرے بازی کر رہے تھے ۔ گزشتہ دنوں جب محترمہ مریم نواز کے بیٹے جنید صفدر کا نکاح تھا ، تو تقریب سے قبل تحریک انصاف کے 7 افراد پوسٹر اٹھا کر ہوٹل کے باہر شور مچانے لگے ۔ ان میں 4 عورتیں اور 3 مرد تھے ۔ پولیس آئی تو یہ افراد بھاگ گئے ۔ برطانیہ میں پاکستان کی تقریباً تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتوں کے حامی موجود ہیں ۔ لیکن افسوس ناک حقیقت ہے کہ مخالفین کے خلاف ایسی بے سر و پا حرکتیں صرف تحریک انصاف کے حامی کرتے ہیں ، اور وہ بھی صرف میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ۔

کرپشن کے الزامات اور مقدمات تو بے شمار لوگوں پر ہیں ۔ یہ الزامات جھوٹے ہیں یا سچے ، لیکن جن پر ہیں ان میں جنرل ر پرویز مشرف ، جنرل ر اشفاق پرویز کیانی اور ان کے بھائی ، جنرل ر عاصم سلیم باجوہ ، ایڈمرل ر منصورالحق ، الطاف حسین ، حکومتی سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی ، چودھری شجاعت حسین ، آصف علی زرداری ، خورشید شاہ ، عبدالرحمٰن ملک ، موجودہ وفاقی وزراء چودھری مونس الٰہی ، شیخ رشید احمد، اعظم سواتی ، غلام سرور خان ، فیصل واڈھا ، محبوب سلطان ، خسرو بختیار ، تحریک انصاف کے دیگر راہ نماؤں جہاں گیر ترین ، علی ترین ، عبدالعلیم خان ، فردوس عاشق اعوان ، زلفی بخاری ، عارف نقوی ، ترہ کئی برداران اور مزید بے شمار ۔ خود عمران خان کے خلاف بھی فارن فنڈنگ کرپشن کیس الیکشن کمیشن کی فائلوں میں کئی سالوں سے بند پڑا ہے ۔

تحریک انصاف کے کارکن خود کو کرپشن کے مخالف کہتے ہیں تو ان شخصیات میں سے کسی کے خلاف مظاہرے کیوں نہیں کرتے، پوسٹر آویزاں کیوں نہیں کرتے ، نعرے کیوں نہیں لگاتے ، عدالتوں کے دروازوں پر دستک کیوں نہیں دیتے ؟ اسی لندن میں الطاف حسین بھی موجود ہیں ۔ لیکن تحریک انصاف کے حامی ان کے خلاف مظاہرے کرتے ، ان کے گھر میں گھسنے کی کوشش کرتے ، یا واٹس ایپ پر سٹیٹس لگاتے کبھی نظر نہیں آتے ۔ دبئی میں جنرل پرویز مشرف بھی اسی طرح ہسپتال میں ہے جس طرح کبھی لندن میں ڈاکٹر کلثوم نواز ۔ لیکن آپ کو تحریک انصاف کا کوئی کارکن جنرل پرویز مشرف کے ہسپتال پر پتھراؤ کرتا ، اندر گھس کر وڈیو بناتا ، اس کی بیماری کا مذاق اڑاتا ، یا سوشل میڈیا پر پوسٹس کرتا کبھی نہیں ملے گا ۔ حتیٰ کہ عمران خان یا شیخ رشید کبھی جنرل پرویز مشرف یا الطاف حسین کو واپس لانے کی بات نہیں کرتے ، اور نہ ہی ان کے پاسپورٹ منسوخ کیے جاتے ہیں ۔ عمران خان سے لے کر ایک عام انصافی کارکن تک ، سب کے قلوب و اذہان اور تحریر و زبان پر صرف ایک میاں صاحب ہی کیوں سوار ہیں ؟

اگر تحریک انصاف کے حامی واقعی کرپشن کے مخالف ہیں تو ان کی زبانیں ، ان کے قلم ، ان کے واٹس ایپ سٹیٹس ، ٹویٹر اکاؤنٹس ، فیس بک پوسٹس اور سماجی گفتگو میاں صاحب کے علاوہ باقی سب لوگوں کے متعلق کیوں خاموش ہیں؟ ان سب کی تمام توانائیاں اگر صرف میاں صاحب اور ان کے ساتھیوں کی ہی دشمنی میں تیز ہیں ، تو معذرت کے ساتھ عرض ہے ، کہ یہ ان کا سیاسی ، جمہوری یا اخلاقی رویہ قطعاً نہیں ، بل کہ ایک سو ایک فی صد ذاتی دشمنی ، بغض اور کوئی لاشعوری خوف ہے ۔

مسلم لیگ نواز کا دعویٰ ہے کہ 2018 کے الیکشن کے اصل نتائج میں فاتح میاں صاحب تھے ، لیکن کسی نادیدہ ہاتھ نے نتائج تبدیل کیے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تحریک انصاف کے حامی بھی اپنے ذہنوں کے خفیہ گوشوں میں نواز لیگ کے اس دعوے کو سچ سمجھتے ہیں، اور احساس جرم کے تحت کرپشن کے بہانے ساری دشمنی صرف نواز لیگ کے خلاف ہی نکالتے ہیں؟

اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ برصغیر پر جب انگریز نے قبضہ کیا تو انھوں نے سب سے زیادہ بغض کا اظہار مسلمانوں کے خلاف کیا ، کیوں کہ انھیں معلوم تھا کہ اقتدار کے اصل وارث مسلمان ہی تھے ، جن سے سب کچھ چھینا گیا تھا ۔ چناں چہ انگریزی استعمار نے مسلمانوں سے خوف زدہ ہونے کے سبب اپنی ساری توانائیاں صرف مسلمانوں کو تباہ کرنے پر لگا دیں ۔ کہیں ایسا ہی معاملہ تحریک انصاف کے حامیوں کے اذہان میں تو نہیں ؟ برطانیہ میں موجود بعض پاکستانی صحافیوں کی رائے ہے کہ ان مظاہرین کے پیچھے لندن کے ایک بااثر خاندان کے پاؤنڈز اور ڈالرز ہیں ۔ کرائے کے چند افراد ان سے پاؤنڈز اور ڈالرز وصول کرنے کے ہی لالچ میں یہ حرکتیں کرتے ہیں اور ثبوت کے طور پر وڈیوز بنانے کا بھی اہتمام کرتے ہیں ۔ اس میں کتنی صداقت ہے ، معلوم نہیں ۔

عرض یہ ہے کہ سیاسی مخالفت کو سیاسی قائدین تک ہی محدود رہنے دیا جائے ۔ کرپشن الزامات کو عدالتوں میں ہی رہنے دیا جائے ۔ اور تحریک انصاف کی قیادت میں سے معتدل مزاج لوگوں کو آگے آ کر اس سلسلے کو روکنا چاہیے ۔ ورنہ عموماً ذاتی دشمنیوں کے سلسلے بہت دور تک چلے جاتے ہیں ۔ اور یہاں تو 22 کروڑ عوام کا معاملہ ہے جو پہلے ہی کئی مسائل کا شکار ہیں ۔ دیار غیر میں ایسے مظاہرے مسلم لیگ نواز ، جمعیت علمائے اسلام ، این پی ، پیپلز پارٹی ، سمیت دیگر جماعتیں بھی کر سکتی ہیں ۔

سوچیے کہ اگر ان جماعتوں کے ورکرز بھی یہی کام پاکستانی ہائی کمیشن یا برطانوی فارن آفس کے سامنے شروع کر دیں اور خاں صاحب کے خلاف وہی زبان استعمال کریں ، یا فارن فنڈنگ کرپشن کے خلاف نعرے لگایا کریں تو تحریک انصاف کے دوستوں کو یقیناً تکلیف محسوس ہو گی ۔ اور بھی کئی نازک معاملات ہیں جنھیں یہاں لکھنا مناسب نہیں ۔ لیکن امریکہ ، برطانیہ ، دبئی یا دیگر ممالک میں موجود سیاسی کارکنان ان نازک معاملات پر بھی شور مچا سکتے ہیں ۔ اسی طرح دبئی جائیدادوں کے حوالے سے تو خاں صاحب کی اپنی ہمشیرہ کے خلاف بھی ایک مقدمہ عدالتوں میں آیا تھا ، جس میں ان پر جرمانہ بھی عائد ہوا ۔ لیکن باشعور سیاسی کارکنان کی یہ بات اچھی لگی کہ وہ عدالتی معاملات پر لوگوں کے گھروں ، ہسپتالوں ، ہوٹلوں اور خواتین کے سامنے مظاہرے یا پتھراؤ نہیں کرتے ۔ کوئی بھی سیاسی جماعت یہ کام نہیں کرتی ، سوائے تحریک انصاف کے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک عام پاکستانی کا درد مندانہ مشورہ ہے کہ تحریک انصاف اپنی اس “پالیسی” پر نظر ثانی کرے ، اور اس کے دور رس اثرات کا جائزہ لے ۔ اقتدار اور طاقت کی چھتری ہمیشہ ان کے سر پر نہیں رہے گی ۔ پاکستانی معاشرے میں پہلے ہی شدت پسندی کا رجحان بہت زیادہ ہے ۔ کسی بھی سیاسی جماعت کی قیادت کے ساتھ ایسا گھٹیا رویہ کسی شدید ردعمل کو دعوت دینے کے لیے کافی ہے ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply