• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • علامہ نائینی: ایک شیعہ مرجع کا نظریۂ جمہوریت (قسط اوّل) – – – حمزہ ابراہیم

علامہ نائینی: ایک شیعہ مرجع کا نظریۂ جمہوریت (قسط اوّل) – – – حمزہ ابراہیم

(نوٹ: یہ مضمون پروفیسر فرشتہ نورائی کے تحقیقی مقالےThe Constitutional Ideas of a Shi’ite Mujtahid: Muhammad Husain Na’iniکا اردو ترجمہ ہے۔ حوالہ جات آن لائن نسخے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔کتاب ”تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ “، طبع سوم، تہران، سنہ 1955ء کے حوالے مضمون میں شامل کئے گئے ہیں۔)

بیسویں صدی کی ابتداء میں ایران میں اٹھنے والی تحریکِ جمہوریت میں معاشرے کے مختلف طبقات نے کردار ادا کیا تھا۔ صاحبان فکر، کاروباری حضرات اور شہری آبادی نے اس اصلاحی تحریک میں کم و بیش حصہ ڈالا۔ فطری طور پر ان کی سیاسی روش، اہداف اور مفادات مختلف تھے۔ وہ سیکولر صاحبان فکر جو مغرب کے آزاد تصورات سے متاثر تھے ایک آئین کی پابند حکومت چاہتے تھے۔ شاہی حکومت میں ایک چھوٹا اصلاح پسند گروہ بھی ان سے ہمدردی رکھتا تھا۔حقیقت میں ان دو گروہوں میں فرق کرنا مشکل ہے کیوں کہ (اس دور میں) اکثر پڑھے لکھے افراد سرکاری ملازم ہوا کرتے تھے۔ شاید بہترین مثال مرزا ملکم خان نظام الدولہ (متوفیٰ 1908ء) کی ہے جو ایک اصلاح پسند سرکاری افسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک آزاد مفکر بھی تھے۔ [1]

علمائےدین میں سے جمہوری کارکنان کے حامیوں نے قاجار شاہ کے مطلق اقتدار کو محدود کرنے کی کوشش کی اور آئین کی حکمرانی کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ وہ کسی حد تک سیکولر خیالات کے مالک تھے، لیکن ان کے بادشاہت سے اختلاف کی بنیادی وجہ سلطنت کو غصب شدہ سمجھنے کا شیعہ عقیدہ تھا۔ کاروباری طبقہ، بطور کلی آئینی جمہوریت کے حق میں تھا اور آزادی خواہوں کا ساتھ دیتا تھا، اس امید کے ساتھ کہ اصلاحات صنعت اور بنکاری کے شعبوں میں معاشی سرگرمیوں کی نئے مواقع پیدا کریں گی۔ عوام جو صدیوں سے استبداد کی چکی میں پس رہے تھے، ایک ایسی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے جو انہیں ظلم اور جبر سے نجات دے اور شخصی اور مادی تحفظ فراہم کرے۔ ان سب گروہوں میں سے جہاں ہر ایک الگ انداز میں آئینی جمہوریت کی حمایت کرتا تھا، حریت پسند اور ترقی چاہنے والے علما کا کردار خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ [2]

پارلیمانی نظام حکومت کی وکالت کرنے والے آزاد اندیش مفکرین کا کردار جانا پہچانا ہے۔ خاص طور پر جدید ترقی پسند طبقے کے قائدین میں سے ایک مرزا حسین خان سپاہ سالار، کہ جنہوں نے آزادی پسندوں کے مذہب اور اقتدار میں جدائی کے سیکولر موقف کو ان الفاظ میں بیان کیا: ”خالص دینی معاملات، جیسے نمازِ پنجگانہ، تقریبِ نکاح اور تبلیغی مجالس وغیرہ کو علما  پر چھوڑ دینا چاہیے اور انہیں ریاستی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح یہ بات نہایت قابل ِ اعتراض ہے کہ ریاست اور عوام کے درمیان علما  دلالی کریں۔“ [3] تحریکِ جمہوریت کے دوران آزاد اندیش افراد اس سوچ کو پھیلاتے اور ذہنوں میں راسخ کرتے تھے۔ پہلی مجلس میں رشت کے نمائندے جناب وکیل التجار نے اپنے خطاب میں کہا: ”قرآن ہمارے دین کا ماخذ ہے اور آئین ریاست کے بنیادی قوانین کی وضاحت کر کے حکومت کے اختیارات کو محدود کرتا ہے اور لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔“ [4] تہران کے نمائندے جناب حسن علی خان نے کہا: ”آئین کا قدیم فقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“ [5]

جہاں تک علما  کی بات ہے تو آزادی پسند مجتہدین نے روایتی علما  سے اختلاف کیا اور آئینی جمہوریت کے مغربی فہم کے بجائے فقہی تصور پیش کیا۔ اس وقت کے مرجع اعلیٰ آیت الله محمد کاظم خراسانی (المعروف بہ آخوند خراسانی) نے کہا:

”درحقیقت آئینی جمہوریت کے اصول اسلام سے موافق ہیں۔“ [6]

دوسرے مرجع آیت الله مرزا حسین تہرانی نے زور دیا کہ:

”مشروطہ (آئینی جمہوریت) کی اصطلاح جدید ہو سکتی ہے لیکن اس کا مفہوم قدیم اسلامی اصولوں سے نکلا ہے۔“ [7]

عوامی تحریک کے آغاز سے ہی روشن فکر افراد اور آزادی پسند مجتہدین میں باہمی تعاون کی فضا تھی۔ تاہم جب مجلس میں آئین لکھنے کا مرحلہ آیا تو ان میں اختلافات پیدا ہوئے۔ ترقی پسند طبقہ ریاست کو مکمل سیکولر بنانا چاہتا تھا جبکہ علما  کی کوشش تھی کہ کوئی قانون ان کی مرضی کے بغیر منظور نہ ہو تاکہ وہ ایسے کسی بل کو رد کر سکیں جو فقہ سے ٹکراتا ہو۔یہ بحث پہلی مجلس میں چلتی رہی اور سارے جمہوری دور میں اسکی بازگشت سنائی دیتی تھی۔

اس مقالے میں ترقی پسند علما  کے نمائندے کے طور پر آیت الله علامہ محمد حسین نائینی (1850ء– 1936ء) کے نظریات کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کی کتاب ”تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ“ اپنی طرز کی ایک اہم ترین کتاب ہے جس میں آئینی جمہوریت کی فقہی بنیادوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ آیت الله نائینی نے جمہوری انقلاب کی کامیابی کے چار سال بعد یہ کتاب لکھی۔ انہوں نے اس زمانے کے سیاسی علوم کا مطالعہ کیا اور جمہوری حکومت کے ابتدائی تجربات میں پیدا ہونے والے قانونی، سیاسی اور فقہی سوالات پر بھی غور کیا۔ آیت الله نائینی معروف مرجع آیت الله مرزا حسن شیرازی کے شاگرد تھے، جو 1891ء میں تمباکو کو حرام قرار دینے کا فتویٰ دینے کی وجہ سے کافی مشہور ہیں۔ [8] وہ 1850ء میں نائین نامی قصبے کے ایک مذہبی خاندان میں پیدا ہوئے اور روایتی مذہبی تعلیم شیعیت کے مرکز نجف میں حاصل کی جو اس وقت عثمانی سلطنت کا حصہ تھا۔ وہ دینی علوم میں پہلی صف کے عالم بنے اور ایک متبحر شیعہ مجتہد کی شہرت پائی۔ آیت الله نائینی کو 1936ء میں نجف میں اپنی وفات تک شیعہ علماء کی طرف سے نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

فارسی زبان میں لکھی گئی اس کتاب میں مقدمہ، پانچ ابواب اور ایک خاتمہ ہے۔ یہ پہلی بار 1909ء میں بغداد سے شائع ہوئی اور اس کی دوسری طباعت 1910ء میں تہران سے ہوئی۔ اس کتاب کی تیسری اشاعت 1955ء میں آیت الله سید محمود طالقانی کے حاشیے کے ساتھ ہوئی، جو ایک بڑے عالم ہیں۔یہ نسخہ اس مقالے میں زیر بحث ہے۔ یہ کتاب ترقی پسند مراجع کے سیاسی اور سماجی نظریات پر کافی روشنی ڈالتی ہے اور بلا شبہ اس موضوع پر سب سے اہم دستاویز ہے۔ اس کو اُس دور کے مراجع، جیسے آخوند خراسانی اور آیت اللہ عبداللہ مازندرانی، نے بہت سراہا ہے، انہوں نے اس پر تبصرہ بھی لکھا اور اس کے متن کی تائید کی ہے۔ [9] [تنبیہ الامہ، ص 1]

آیت الله نائینی جس بات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں وہ بادشاہت کی ماہیت ہے، وہ مطلق اقتدار کو رد کرتے اورشرعی نقطۂ نگاہ سے آئین کی پابند حکومت (مشروطہ) کا دفاع کرتے ہیں۔ ان کا استدلال روایتی شیعہ اصولوں پر قائم ہے لیکن کچھ مقامات پر انہوں نے مغربی سیکولر نظریات کو بھی قبول کیا ہے، اور کوکبی کی ”طبائعِ استبداد“ (مطبوعہ قاہرہ، سنہ 1905ء) سے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ [10] آیت الله نائینی اپنے استدلال کی بنیاد حدیث اور سنت رسولؐ و آئمہؑ پر رکھتے ہیں، لیکن وہ مغرب کے آئینی نظریات اور پڑوسی ممالک کے واقعات سے بھی آشنا ہیں، مثلاً وہ 1905ء کے روسی انقلاب کو آمریت کے خلاف ایک عوامی تحریک کی مثال قرار دیتے ہیں۔ [11] [تنبیہ الامہ، ص 65] اسی طرح وہ مسلم ممالک میں مغرب کے سیاسی نفوذ سے بھی آگاہ ہیں اور مغربی تسلط کے خلاف مزاحمت کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اپنے موضوع پر تسلط رکھتے ہوئے وہ قوی اور علمی دلائل کے ساتھ آئینی جمہوریت کی فقہی بنیادوں کو بیان کرتے ہیں۔ سیکولر آئین اور قدیم فقہ میں عدم مطابقت کو دیکھا جائے تو آیت الله نائینی کا استدلال ہمیشہ قانع نہیں کر پاتا۔ آئینی جمہوریت کا تصور جدید دور میں مغربی علوم سے ابھرا ہے۔ آمریت کو سب برائیوں کی جڑ کہہ کر ترقی پسند علما  نے ایک آئین نافذ کرنے کی فقہی توجیہ اس لئے فراہم کی تاکہ شاہ کے اختیارات کو محدود کر کے ریاست کے ظالمانہ اندازِ حکومت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس کتاب کا جائزہ ایک سیکولر تصور کی مذہبی تشریح کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ مولف کے سماجی شعور کی وضاحت کے لئے بہت اہم ہے۔

ad

آیت الله نائینی بحث کا آغاز ”حکومت“ کی کلی تعریف سے کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی سماجی نظام کو اپنی بقا اور دوام کیلئے کسی نہ کسی طرز کی حکومت کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے: ”چاہے وہ ایک فرد کے پاس ہو یا عوام کی امنگوں کی نمائندگی کرنے والی ایک اسمبلی کے پاس، چاہے وہ زبردستی اختیارات پر قابض ہو یا سماجی حق کے طور پر، وراثت کی بنیاد پر یا انتخابات کے ذریعے بنی ہو۔“ [12] [تنبیہ الامہ، ص 6] حکومت کی دو بنیادی ذمہ داریاں ہیں: پہلی امت کو تعلیم فراہم کرنا اور ان کے شخصی حقوق کا تحفظ کرنا، اور دوسری دشمنوں سے وطن کا دفاع کرنا۔ [13] [تنبیہ الامہ، ص 7] حکومت کی اس کلی تعریف میں آیت الله نائینی امت اور وطن کی اصطلاحات کو متبادل کے طور پر استعمال کر کے مذہبی اور سیکولر تصورات میں ربط پیدا کرتے ہیں اگرچہ جدید وطنی ریاست کا قدیم مذہبی کتابوں میں کوئی تصور نہ تھا۔ مذہب میں برادری کی بنیاد سرحدیں نہیں بلکہ عقائد ہوتے ہیں۔ ان کی طرف سے ایسی اصطلاحات کا استعمال نئے اجتہاد کا دروازہ کھول کر مذہبی عقائد اور مغربی سیاسی علوم میں ربط پیدا کرتا ہے۔

حکومت کی ایک کلی تعریف کرنے کے بعد آیت الله نائینی اس کی دو قسمیں بیان کرتے ہیں۔ ایک ظالمانہ حکومت ہے، جسے وہ استبدادیہ اور تملکیہ کہتے ہیں کہ جس میں آمر ریاست کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتا ہے اور اپنے اعمال کا حساب نہیں دیتا اور عوام کو ”مویشی“ سمجھتا ہے۔ [14] [تنبیہ الامہ، ص 8] ایسا حاکم قومی خزانے کو اپنے ذاتی رجحانات کے مطابق فضول خرچی میں ضائع کرتا ہے، من پسند لوگوں کو عہدے اور پیسہ دیتا ہے، جنہیں پسند نہیں کرتا ان پر عرصۂ حیات تنگ کر دیتا ہے اور عدلیہ کو جیسے چاہتا ہے استعمال کرتا ہے۔وہ لوگوں کا اپنے ذاتی میلانات اور خوشی کیلئےاستحصال کرنے سے بڑھ کر ان کے بارے میں کچھ نہیں سوچتا۔ سرانجام وہ اپنے آپ کو روحانی امتیاز کا حامل اورالہٰی شخصیت سمجھنے لگتا ہے۔ [15] [تنبیہ الامہ، ص 10] یہ ظالمانہ حکومت، جسے آیت الله نائینی بے بنیاد اور غیر شرعی قرار دیتے ہیں، حتمی طور پر زوال اور تباہی لے کر آتی ہے۔ وہ بنی امیہ کو ملوکیت کا بانی قرار دیتے ہیں جنہوں نے اپنے فائدے کیلئے شرعی ریاست کو عسکری ریاست میں بدل دیا۔ [16] [تنبیہ الامہ، ص 17] ان کا کہنا ہے کہ اسلام کے ابتدائی سالوں میں قرآن و حدیث کی روشنی میں حکومت انصاف، منطق اور شفافیت کی بنیاد پر چلائی جاتی تھی اور مسلمان عظیم ولولے اور بہادری کے ساتھ دور دور تک اسلام کا پیغام لے کر گئے۔ اموی بادشاہت کے قیام کے بعد حکمرانوں نے عدل و انصاف کے بدلتے تقاضوں کو سمجھنا چھوڑ دیا اور حکومت اور معاشرے کے انتظام کے مسائل پر توجہ کم کر دی۔ اس انحراف نے آخر کار مسلمانوں کی طاقت کم کر دی اور قانون پر عملدرآمد مشکل بنا دیا، جس کا نتیجہ مسلمان معاشروں کی تخریب اور عوام کی بد حالی کی شکل میں نکلا۔ [17] [تنبیہ الامہ، ص 17] آیت الله نائینی اس عمومی زوال کو ایران کے حالات سے جوڑ کر کہتے ہیں: ”ظالمانہ حکمرانی، طاقت کا غلط استعمال، ناانصافی، سرکاری ملازمین کی رشوت خوری نے اس ملک کو غربت اور بدبختی میں مبتلا کر دیا ہے۔“ [18] [تنبیہ الامہ، ص 16]

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply