• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اسحاق نازش کی علمی، ادبی اور روحانی خدمات کا اجمالی جائزہ/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

اسحاق نازش کی علمی، ادبی اور روحانی خدمات کا اجمالی جائزہ/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

تخلیق ،تحقیق اور تنقید انسانی فطرت کا خاصا ہے۔روز اول سے قدرت نے انسان کے اندر تجسس کی روح پھونک دی ہے۔وہ خدا، کائنات اور حسن و جمال سے متاثر ہو کر لکھتا ہے۔

اس امر کے ساتھ ساتھ اس کی فطرت میں علم و ادب ، اقدار و روایات، رسم و رواج ، تہذیب و تمدن اور فنون لطیفہ جیسے موضوعات پر قلم اٹھانا اس کے ادبی مشاغل میں شامل کر دیا ہے۔وہ حالات و واقعات پر کڑی نظر رکھ کر انہیں زیر قلم لاتا ہے۔
اگرچہ یہ بات اس حقیقت سے خالی نہیں ہے کہ انسان تجربات ، مشاہدات ، حاصلات اور ماخذات کے بل بوتے اپنے خیالات و افکار کو قلم بند کرتا رہتا ہے۔
اصناف ادب کی بے شمار اصناف ہیں جنہیں بیان کرنے کے لیے دو بڑے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔پہلا طریقہ جس میں شعر و سخن کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔جبکہ دوسرا طریقہ نثری ادب ہے جسے بیان کرنے کے لیے کالم ، انشائیہ ، مضمون ، افسانہ ، ڈرامہ یا ناول لکھا جاتا ہے۔
ادب کسی مخصوص خطے، علاقے، مذہب یا کسی قوم کی میراث نہیں ہے۔ بلکہ یہ عرش بریں کا وہ تحفہ ہے جو براہ راست الہام ، نبوت ، کلام یا مکاشفے کی صورت میں ملتا ہے۔ خدائے ذوالجلال نے کائنات کی تخلیق کے ساتھ ساتھ تخلیق، تحقیق اور تنقید کا فن بھی بنی آدم کو دے رکھا ہے۔مگر یہ ودیت اور رتبہ ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جن پر خدا مہربان ہوتا ہے۔اور دوسری وجہ تسمیہ انسان کی محنت ،ریاضت، وسیع النظری ، وسیع القلبی اور محسوسات جن کو خدا اپنے لوگوں پر ظاہر کرتا ہے۔
اسی طرح واہ کینٹ کی سرزمین سے جنم لینے والا ادبی ستارہ اسحاق نازش جو ہمہ جہات شخصیت کا حامل ہے۔ وہ ایک ادیب ، شاعر ،کالم نگار ، ڈرامہ نگار، صداکار اور اداکار کا روپ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ادب کا روگ پالنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ وجدانی عمل کو صحفہ قرطاس پر بکھیرنے کے لیے الفاظ کے بیج کی ضرورت ہوتی ہے جو ادب کی فصل تیار کرتے ہیں۔یوں کہہ لیجئے علم و ادب اذہان و قلوب کو زرخیز کرنے والا وہ ہل ہے جس کی فضیلت ، کرامات ، کرشمات اقوام عالم تک پھیل جاتے ہیں۔فاضل دوست اپنے اندر کئی جہات کا چراغ جلا کر روشنی بکھیر رہے تھے۔ ان کی محنت ، لگن ، شوق اور جذبہ نے انہیں نمایاں مقام و مرتبہ عطا کیا ہے۔ ان کی جواں مردی اور بلند ہمتی نے علمی،ادبی اور روحانی اقدار کو فروغ دیا ہے۔ان کا یہ سفر بچپن، جوانی اور بڑھاپے تک قید و بند کی صحبتیں برداشت کرنے کے بعد ہم سب کے لیے ایک داستان چھوڑ جاتا ہے۔
قدرت نے فاضل دوست کے اندر علم و ادب کے فن کا ایک چراغ روشن کر رکھا تھا جس کی روشنی واہ کینٹ تک محدود نہ تھی بلکہ وہ کرنیں سورج کی طرح مشرق سے مغرب تک سفر کر کے طلوع و غروب ہوتی نظر آتی ہیں۔ علم و ادب زندگی بھر ان کا اوڑھنا بچھونا رہا ہے۔بچپن میں بزم ادب کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔پھراسی ذوق و شوق نے ان کی زندگی کو ایک ایسے مقام پر لا کر کھڑا کر دیا جہاں ان کی پہچان ادبی محفلیں اور مشاعرے بننے لگے۔وہ ایک اسٹیج سیکرٹری کی حیثیت سے بھی جانے، مانے اور پہچانے جاتے تھے۔
ان کے انداز گفتگو سے پھول جھڑتے تھے۔ آواز کی گرج ، رعب ،دبدبہ دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کر لینا ان کے فن کی خوبی تھی ۔معاملہ بزم آرائی کا ہو ، یا سیاسی جلسہ ہو، یا شعر و سخن کی محفل ہو۔ ان کی باتیں اور کلام سن کر دوسروں کی زبان واہ واہ کے قہقے ضرور لگاتی تھی۔بلا شبہ اوصاف شخصیت کو چار چاند لگاتے ہیں۔فاضل دوست اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ان کا مطالعہ عمیق اور گہرا تھا۔وہ کسی بھی کام کو سرانجام دینے کے لیے ریاضت اور مشق کا دامن تھامتے تھے۔ ظاہر ہے طبیعت و مزاج میں جب تک استعداد قبولیت اور خارجی مشاہدات نہ ہوں تو وہ کام ادھورا رہ جاتا ہے۔اس کی چاشنی اور برکت ختم ہو جاتی ہے۔مگر حیرت ہے فاضل دوست اپنے جذبہ اور ریاضت کے باعث لوگوں کے دلوں پر راج کیا کرتے تھے۔
وہ ادبی محفلوں کی جان ہوتے تھے۔کیونکہ ان کی جادوئی آواز مقناطیس کی طرح لوگوں کے دلوں پر اثر کر کے اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔یقینا ہر انسان کی زندگی میں کچھ قدریں اور کچھ خوبیاں ہوتی ہیں جو اس کی شخصیت کو قابل رشک بنا دیتی ہیں۔اور ساتھ ساتھ ایک ادیب یا شاعر کو ہجوم سے الگ کر دیتی ہے۔میں ان کی چند خوبیاں کا بے لاگ تجزیہ آپ کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ان کا تخلیقی حسن معانی خیز ، جمالیاتی عناصر سے بھرپور ، صحت بخش تصورات اور مشاہدات ان کی عظمت و فن کے وہ شہ پارے تھے جنہیں من و عن تسلیم کیا جاتا تھا۔
وہ زندگی کے مسائل و معاملات پر عقابی نظر رکھتے تھے۔ان کے شعر و سخن میں جذباتیت، روحانیت اور عمیقت کے گہرے نمونے ملتے ہیں۔ان کے علم و عرفان میں سماج کے ہر طبقہ ،ہر پیشہ اور ہر عمر کے رسم و رواج ، خیال و عمل ، بود و باش ، تہذیب و تمدن جیسے عناصر پیش رفت میں سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔منشی پریم چند کے مطابق!

” ادب اس تخلیق کو کہیں گے جس میں کسی سچائی کا اظہار ہو جس میں زبان کی پختگی اور حسن ہو اور جس میں دل و دماغ کو متاثر کرنے کی صلاحیت ہو اور ادب میں یہ صلاحیت اس وقت تفسیر و تعبیر کا دروازہ کھولتی ہے جب اس میں زندگی کی حقیقتیں اور تجربات کو سمو دیا گیا ہو”

اس حقیقت کے پس پردہ کہا جا سکتا ہے کہ فاضل دوست جہاں سماجی شعور رکھتے تھے وہاں سیاسی سرگرمیاں بھی ان کی نظر میں رہتی تھیں۔
وہ اپنی فطرت اور سرشت کے اعتبار سے ایک مثالی اور حقیقت پسندی کا روپ رکھتے تھے۔یہ ان کے پختہ شعور کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنی جگہ بنانے کا فن جانتے تھے۔ میں ان کی شخصیت کو اپنے لکھے ہوئے ایک اختصاریے کی روشنی میں دیکھتا ہوں کہ
* محبت اور پانی رس رس کر اپنا راستہ ہموار بناتے ہیں*
اسی طرح فاضل دوست نے ادبی محفلوں میں اپنی پہچان بنا رکھی تھی۔ معروف ڈرامہ نگار اور شاعر شیکسپیئر ولیم لکھتا ہے۔

” کچھ لوگ عظیم پیدا ہوتے ہیں۔کچھ محنت سے عظمت حاصل کرتے ہیں اور کچھ پر محنت کی عظمت لاد دی جاتی ہے*

اس قول کے پس پردہ کہا جا سکتا ہے کہ اسحاق نازش نے محنت اور لگن کے بل بوتے عظمت حاصل کی۔اب ان کی سوانح حیات سنیں۔اسحاق نازش کا اصل نام اسحاق مسیح ہے۔ان کے والدین صوبہ سرحد سے ہجرت کر کے صوبہ پنجاب ضلع راولپنڈی تحصیل ٹیکسلا اے سی واہ میں آباد ہو گئے تھے۔آپ کے والد کا نام سیموئیل مسیح اور والدہ کا نام حمیدہ بی بی تھا۔آپ کا سن پیدائش 1964 ہے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم اے سی ماڈل ہائی سکول سے حاصل کی۔بعد ازاں وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لیہ چلے گئے اور پولی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ سے مکینیکل میں ڈپلومہ پاس کیا۔تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے اندر ادبی ذوق بھی پروان چڑھ رہا تھا۔سکول اور کالج کے زمانہ سے ہی وہ ادبی پروگرامز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔فٹ بال ان کا پسندیدہ کھیل تھا۔
1985 میں نسیم بی بی سے شادی ہوئی۔ان کے ہاں تین بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔اب ان کی ادبی خدمات کا مختصر احوال۔1995 میں ڈرامہ *صنم تیری گلی میں* معاون اداکار کے طور پر کام کیا۔2002 میں فلائنگ مون فلم پروڈکشن( برلن)جرمنی کی ٹیم شوٹنگ کے لیے واہ کینٹ آئی۔وہ کسی لکھے ہوئے ڈرامے میں * ویرو * میں ایک معاون اداکار کے طور پر سامنے آئے۔ 2010 میں اے ٹی ویATV پر
” سہیل کلینک” میں ان کا لکھا ہوا ڈرامہ 30 منٹ کا دورانیہ پیش کیا گیا تھا ۔ 2011 میں لوک میلہ( لوک ورثہ) میں ان کو بیسٹ ڈرامہ نگار ایوارڈ اور حسن کارکردگی کی سند ملی۔اسی طرح 2011 میں آرٹ کونسل آف راولپنڈی میں اسٹیج ڈرامہ “چاند بی بی ڈاٹ کام” میں بطور اداکار بھی کام کیا۔یہ ڈرامہ ٹاپ 10ڈراموں میں دوسرے نمبر پر آیا۔
اس کے علاوہ پی ٹی وی پہ ڈرامہ سیریل
*مقدس * میں ان کی لکھی ہوئی نظم شامل کی گئی۔یہ وہ کامیابیاں ہیں جو ان کی طویل محنت کے بعد ملیں۔میں سمجھتا ہوں جو حق اور انعامات زندگی میں انہیں ملنے چاہیے تھے وہ ناکافی ہیں۔وہ ایک منجے ہوئے مزاح نگار بھی تھے۔
ان کی لکھی ہوئی بہت سی غزلیات کو ایک کتابی شکل دے دی گئی ہے۔جس کا نام انہوں نے اپنی زندگی میں * پھول کھلنے کی صدا * رکھا تھا۔
میرا ذاتی خیال ہے ان کا یہ شعری مجموعہ قارئین تک پہنچنا چاہیے تاکہ ان کے فکر و فن سے فیض حاصل کیا جائے۔میں احتراما آپ سب کی خدمت میں ایک رائے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ہمیں اپنے ادباء اور شعراء کو جیتے جی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔
کتاب کی اشاعت میں معاونت کرنی چاہیے۔دراصل ہمارے اندر بڑا فقدان یہ ہے کہ ہم اتحاد و یگانگت کی روح نہیں رکھتے۔جس کی وجہ سے بہت سی دوریاں اور فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔میں چاہتا ہوں ان کی کتاب کی اشاعت کے لیے ادب دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا ساتھ دیں۔
فاضل دوست اسحاق نازش کا مذہب کے ساتھ بھی گہرا لگاؤ تھا۔ان کی گہری وابستگی نے انہیں نمایاں کامیابی دی ہے۔ان کا لکھا ہوا ایک ٹاک شو پاکستان ٹیلی ویژن پر بھی نشر ہوا۔انہوں نے زندگی کی بہت سی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔کچھ عرصہ پہلے وہ پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا ہوئے۔2021 میں ان کے پھیپھڑوں کا کامیاب آپریشن ہوا۔پھر 17 جون سن 2023 کی صبح اچانک دل کا دورہ پڑنے سے وہ دار فانی سے کوچ کر گئے۔فاضل دوست نے اپنے لواحقین میں بیوی نسیم نازش اور تین بیٹے اور تین بیٹیاں وراثت میں چھوڑی ہیں۔ان کے خاندان کے لیے یہ خلا زندگی بھر پوری نہیں ہو سکتی۔مگر ہمیں ایوب نبی کی طرح کہنا چاہیے جس نے دیا جس نے لیا اس کا نام مبارک ہو۔اگرچہ ان کے انتقال سے ایک سایہ دار شجر ہٹ گیا ہے اور ہم دھوپ کی شدت میں آگئے ہیں۔میں احمد ہمدانی کی اس غزل میں ان کی شخصیت کا عکس دیکھتا ہوں۔
چاند اوجھل ہو گیا ہر اک ستارا بجھ گیا
آندھیاں ایسی چلیں پھر دل ہمارا بجھ گیا

اب تو ہم ہیں اور سمندر اور ہوائیں اور رات
دور سے کرتا تھا جھلمل اک کنارا بجھ گیا

گھورتے ہیں لوگ بیٹھے کیا خلاؤں میں کہ اب
ہر اشارہ بجھ گیا ہے ہر سہارا بجھ گیا

ہر نظر کے سامنے اب بے کراں پہلی سی ریت
جگمگاتا بات کرتا دشت سارا بجھ گیا

جم گئی ہے برف کیسی ہر طرف لوگو یہاں
راکھ تک ٹھنڈی پڑی کیا کیا شرارا بجھ گیا

شہر چپ ہیں راستے خاموش ہیں چہرے اداس
بس بگولے اڑ رہے ہیں ہر نظارا بجھ گیا

آخر میں، میں خالد شریف کے اس شعر سے اجازت چاہوں گا۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے جہاں کو ویران کر گیا

Advertisements
julia rana solicitors

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد ( واہ کینٹ)

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply