مقاصد شریعت _ایک زاویہ نگاہ۔۔۔۔طفیل ہاشمی

مقاصد شریعت پر بحث کے ضمن میں ایک غلط فہمی __مقاصد مکلفین _کے عنوان سے جنم لیتی ہے. شاطبی نے اس پر اس انداز سے گفتگو کی ہے کہ شریعت نے مکلفین کے مقاصد کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ انہیں پورا کرنے کے لیے شرعی احکام دیئے جن میں یسر و سہولت کا خیال رکھا اور غیر معتاد مشقت سے بچایا نیز مکلف اگر حالت اضطرار میں ہو تو قطعی حرام کے قانون میں تخفیف کردی گئی اور اگر حاجت کے درجے میں ہو تو حرام لغیرہ کے قانون میں تخفیف ہو جاتی ہے جب کہ معمول کی زندگی میں مکلف کے مقاصد کی تکمیل کے لیے شریعت نے تفصیلی احکام دیئے ہیں.
مثال کے طور پر جنسی آسودگی خالصتا ً مکلف کا مقصد ہے. شریعت نے اس مقصد کو جائز قرار دیا اور تجرد کی زندگی کو نیکی نہیں شمار کیا لیکن جنسی آسودگی کی ایسی راہیں متعین کر دیں جن کے ساتھ انسان کے دیگر کئی حقیقی مفادات وابستہ ہیں اور ایسے تمام طریقوں پر قدغن عائد کر دی جو انسان کی بدنی صحت، روحانی بالیدگی اور اخلاقی زندگی کے لیے ضرر رساں ہیں.
اس میں شبہ نہیں کہ ماضی میں اور موجودہ دور میں بھی کچھ اہل علم نے مکلفین کے مقاصد کی تکمیل کے لیے شریعت کی حدبندیوں کو نرم کرنے اور محرمات کو مباحات میں شامل کرنے کی کوششیں کی ہیں، شاید اسی وجہ سے شاطبی کو مقصد شریعت اور اتباع ھوی میں فرق بتانے کے لیے لگ بھگ سو صفحات کی طویل بحث کرنا پڑی اور اسی کی مزید وضاحت کی غرض سے محمد سعید رمضان البوطی نے ضوابط المصلحۃ فی الشریعہ الاسلامیہ کے عنوان سے ساڑھے چار سو صفحات سے زائد اپنا مقالہ طبع کروایا.
مقاصد کا تعین کیسے ہوگا؟؟ دراصل بکثرت نصوص جس کلیہ کو متعدد احکام شرعیہ کا مدار قرار دیتی ہوں وہ مقصد شریعت ہوتا ہے مثلاً قیام عدل پر ہمیں بلا واسطہ اور بالواسطہ سینکڑوں نصوص ملتی ہیں، پس ہم کہہ سکتے ہیں کہ _قیام عدل_شریعت کا مقصد ہے.
البوطی کے بقول کسی امر کو مقصد شریعت قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ
شارع کے مقاصد کے خلاف نہ ہو
کتاب اللہ کے مخالف نہ ہو
سنت کے خلاف نہ ہو
قیاس صحیح کے خلاف نہ ہو
اس کی وجہ سے اس کے مساوی یا اس سے راجح کوئی مصلحت متاثر نہ ہوتی ہو.
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مقاصد کے تعین کی یہی شرائط ہیں تو اجتہاد کے متداول طریقے _قیاس _کے ہوتے ہوئے اس کی ضرورت کیا ہے؟
میرے خیال میں مختلف مکاتب فکر کے مجتہدین اپنی اپنی اصطلاحات کے مطابق اس طریق اجتہاد کو استعمال کرتے تھے مثلاً حنفیہ استحسان اور مالکیہ مصالح مرسلہ کے نام سے، شافعیہ کے ہاں استدلال یا استصلاح بھی اس سے ملتی جلتی شے ہے. ان بکھرے ہوئے تصورات کو شاطبی نے _الموافقات _میں ہم آھنگ کر کے مقاصد کے عام اور کلی تصور کے تحت منضبط کر دیا
میرے خیال میں مقاصد کو اس طرح استعمال کرنا کہ ان کی بنا پر بنکوں کے سود کو حلال قرار دیا جائے درست طرز استدلال نہیں ہے جیسا کہ کچھ مصری علماء نے کیا. بلکہ اس کے برعکس مقاصد کی رو سے دیکھا جائے تو نام نہاد اسلامی بنکاری جو حیلوں اور تلفیق کے تار عنکبوت سے بندھی ہوئی ہے قرآن کے بیان کردہ مقاصد مثلاً کرنسی کی مال تجارت کے طور پر فروخت کی حرمت(البقرہ :275)
فریقین میں سے ہر ایک کو ظلم کا شکار ہونے سے بچانا (البقرہ:279)،سرمایہ دارانہ نظام کی آبیاری کی ممانعت (الحشر :7)اکتناز دولت کی ممانعت (التوبہ:34)،تخلیق زر کا مصنوعی طریقہ، حرام کو حلال کرنے کے لیے حیل کا استعمال (الانعام :163) واضح طور پر اسلامی بنکاری کے متداول طریقوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں. شاید یہی وجہ ہے کہ اسلامی بنکاری کے اکثر مویدین مقاصد شریعت کے بارے میں تحقیر آمیز تعبیرات اختیار کرتے ہیں

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply