پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری اور ہمارا معاشرہ/عاصمہ حسن

ہم وہ قوم ہیں جو آنکھیں بند کر کے بیرونی دنیا کی اندھی تقلید کرتی ہے پھر چاہے وہ بالی وڈ ہو یا ہالی وڈ، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ ہم نے اپنی ثقافت’ روایات’ رسومات’ رہن سہن اور اقدار سب گنوا دئیے ہیں ،اپنی سوچ کو گروی رکھ دیا ہے اور اب چار سُو صرف دیارِ غیر کا ہی رنگ بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔

 

 

 

ـ

ہم نے ایک وہ سنہرا دور گزارا ہے جس میں ہمارے ڈرامے سبق آموز ہوتے تھے اور ان کے کرداروں میں روح رچی بسی ہوتی تھی ـ اداکار اپنی اداکاری کے ایسے جواہر بکھیرتے تھے کہ دیکھنے والے محو ہو جاتے تھے ـ جن کو دیکھنے اور سننے کے لیے سارا گھرانا چھوٹے سے بڑے تک اپنے کام کاج نمٹا کر’ بیٹھ کر دیکھتے تھے اور لطف اندوز ہوتے تھے ـ یہی وجہ ہے کہ آج ایک زمانہ بیت جانے کے باوجود وہ ڈرامے ‘ اُن کی کہانیاں اور اُن کے کردار آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں ـ۔

آج کے بیشتر ڈرامے صرف ہماری نوجوان نسل کو بگاڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے ـ ،ہمارے آج کے لکھنے والوں کو نہ جانے کیا ہو گیا ہے کہ نہ تو وہ اچھا سوچ پا رہے ہیں اور نہ ہی بہتر اور سبق آموز لکھ پا رہے ہیں ـ تقلید میں اس قدر اندھے ہیں کہ بغیر سوچے سمجھے کاپی پیسٹ میں لگے ہوئے ہیں ـ ایک ہی کہانی ‘ ایک ہی مواد بس چہروں کی معمولی تبدیلی کے ساتھ ہر چینل پر دکھا رہے ہیں۔

ہمارے حالیہ ڈراموں نے رشتوں کے تقدس کو ہی پامال کر دیا ہے ـ ساس ‘ بہو کی نہ ختم ہونے والی بے سروپا جنگیں چلتی رہتی ہیں، یہیں بس نہیں ہوتی بلکہ سگی بہن اپنی بہن کے ہی شوہر پر ڈورے ڈالتی ہے’ نہ صرف ڈورتے ڈالتی ہے بلکہ نکاح کر کے سوکن بن جاتی ہے اور اپنی ہی بہن کا گھر برباد کر دیتی ہے ، ـ شادی شدہ اور بچوں کے ہونے کے باوجود شوہر اور بیوی کی دوستیاں دکھائی گئی ہیں’ دھوکہ دہی کے ایسے جال بچھائے جاتے ہیں جو نہ ختم ہونے والے ہوتے ہیں ،بندے مر جاتے ہیں لیکن ان کی سازشیں اپنے اختتام کو نہیں پہنچتیں، اور نہ ہی کوئی پچھتاوا ان کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے ـ رشتوں کی پامالی سرِعام ہوتی ہے اور ان کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، ـ بیوی شوہر پر تھوک رہی ہے ،تھپڑ مار رہی ہے ‘ گھر سے بڑے آرام سے ان کو بھاگتا ہوا دکھایا جا رہا ہے ‘ بہو اپنی ساس کی انتہا درجے کی بے عزتی کرتی ہے اور شوہر اپنی ماں کی حمایت میں ایک لفظ تک نہیں بول سکتا، ایسی کونسی مجبوری بن جاتی ہے جو بیٹا اپنی ماں کی تذلیل بڑے آرام سے برداشت کرتا رہتا ہے اور بیوی ہاتھ پکڑ کر’ دھکے مار کر ماں کو گھر سے نکال دیتی ہے۔ ـ ڈرامے کے آخر تک کسی کی آنکھ نہیں کھلتی سب سازشوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں ‘ بہن بھائی ‘ماں باپ ہی آپس میں ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے اور نئی آنے والی یا کسی غیر پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے اپنے خونی رشتوں کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ پھر اچانک آخری قسط میں سب ہوش میں آجاتے ہیں جیسے کوئی جادوئی اثر تھا جو آخری قسط میں ہی ختم ہوتا ہے اور ان کو سب صاف صاف نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔

آخر ہم دکھانا کیا چاہ رہے ہیں ؟ آخر ہم بتانا کیا چاہتے ہیں ؟ آخر ہم کس مارکیٹ کو ٹارگٹ کر رہے ہیں ؟ کیا ہمارے ڈرامے ہمارے معاشرے کی صحیح عکاسی کرتے ہیں ایک لمحے کو فرض کر لیں کہ مسائل ہیں تو کیا ان کو اس طرح دکھانا مناسب ہے ؟ کیا اس طرح ہم اُن مسائل کا حل نکال سکتے ہیں ؟

یہی واہیات اور بے ہودہ ڈرامے جن میں شرم و لحاظ کا عنصر تک نہیں جنہیں دیکھ کر ہمارے بچے بڑے ہو رہے ہیں’ ماں باپ کے سامنے کھڑے ہو رہے ہیں اور اسی چھوٹی عمر میں عشق میں مبتلا ہو کر والدین کی عزت کی دھجیاں اڑا رہے ہیں پھر زمانہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے یہ تصویر کا دوسرا رخ ہے ـ ،ڈراموں میں اس قدر بولڈ سین ڈال دیے جاتے ہیں کہ بچے تو دور کی بات ہے بڑے بھی ایک ساتھ بیٹھ کر اب ڈرامہ نہیں دیکھ سکتے ۔

اتنے لمبے ڈرامے بننا شروع ہو گئے ہیں کہ کہانی کا مزہ خراب ہو جاتا ہے اور دلچسپی بھی ختم ہو جاتی ہے پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ بے ہودہ سی اداکاری اس کا ستیاناس کر دیتی ہے ـ ڈبل سینچری منانے کے چکر میں رہی سہی کشش بھی ختم ہو جاتی  ہے اور ریٹنگز کی دوڑ میں گلیمر کی انتہا کر دیتے ہیں ـ جتنی فضول کہانی ہو گی’ جتنی گھٹیا اداکاری ہو گی اتنا ہی وہ ڈرامہ ہٹ ہو جائے گا بس اسی کو بنیاد بنا کر آج کے ڈرامے بنائے جائے رہے ہیں ـ نہ جانے وہ کون لوگ ہیں جو اِن جیسے ڈراموں کو جو انتشار پھیلانے کا باعث بنتے ہیں دیکھتے ہیں اور ان کی ریٹنگ بڑھاتے ہیں۔

دراصل ہمارے ڈرامے انٹرٹینمنٹ کے نام پر بہت بڑا دھبہ بن چکے ہیں ـ معاشرے میں اصلاح پیدا کرنے کی بجائے مزید بگاڑ پیدا کر رہے ہیں ‘ فرسٹریشن اور ڈپریشن پیدا کر رہے ہیں ـ ہماری نوجوان نسل کو بے راہ روی کی طرف لے کر جا رہے ہیں ـ اِن کو اُن کے مقصد سے ہٹا رہے ہیں ـ اُن کو بےادب’ بد لحاظ’ بے شرم بنا رہے ہیں ـ ہمارے ڈرامے رشتوں کے احترام و پاسداری کے منافی عجیب و غریب قسم کی فحاشی کے موجد بنتے جا رہے ہیں ـ۔

اگر متعلقہ اداروں نے ان کہانیوں پر اور اِن پر بننے والے ڈراموں پر اپنی توجہ مبذول نہ کی تو یہ ہمارے معاشرے کا رہا سہا سکون بھی برباد کر دیں گے۔ ـ

لوگ جو اپنے مسائل سے گھبرائے ہوئے ہوتے ہیں وہ فرار حاصل کرنے کے لیے ٹی وی کا رُخ کرتے ہیں تاکہ ڈراموں یا دوسرے پروگرام میں پناہ حاصل کر سکیں اور کچھ پل ہنس سکیں ‘ اپنے دکھ اور مسائل کو بھول سکیں لیکن وہاں پر بھی لڑائی’ جھگڑا’ سازشیں ‘ مار پیٹ’ چیخ و پکار ان کا چین برباد کر دیتا ہے اور ان کی کردار سازی میں منفی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ذہنی مسائل اور صحت کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے ـ۔

افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اب وہ دور ختم ہو گیا ہے جب لوگ ڈراموں کا انتظار کرتے تھے اگلی قسط کے لیے بے صبری سے منتظر ہوا کرتے تھے اور سب گھر والے مقررہ وقت سے پہلے ٹی وی کے سامنے براجمان ہو جاتے تھے اور خوش گپیوں کے دوران ڈرامہ دیکھا جاتا تھا ـ یہ سب ریٹنگ کی بھرمار سے ہوا ـ۔

ماضی میں پاکستان کے ڈرامے دنیا بھر میں ذوق و شوق سے دیکھے جاتے تھے ـ ان ڈراموں کی وڈیو کیسٹ کی بے انتہا ڈیمانڈ ہوتی تھی ـ یہاں کے کئی ڈرامے بالی وڈ کی فلموں سے زیادہ مقبول ہوا کرتے تھے ـ فلمی صنعت بھی ان سے بہت متاثر تھی ـ پاکستان ٹیلی ویژن کے فنکاروں کی شہرت عروج پر تھی ـ وہ بھی ایک دور تھا ـ۔

ڈراموں کو تفریح کا ذریعہ ضرور رکھا جائے مگر اس میں وہ مناظر یا صورتحال نہ پیش کی جائے جو ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنیں ـ گلیمر کی بھی ایک حد ہوتی ہے جسے پار کرنے سے پورا ماحول پامال ہو جاتا ہے ـ۔

ہمارے ڈرامہ نویسوں کو اپنے اطراف کے مسائل اور حالات سے باخبر رہنا چاہیے ـ انھیں یہ احساس ہونا چاہئیے کہ ناظرین کے جذبات کو مجروح کرنا یا ابھارنا اچھی بات نہیں ہے ـ فیملی چینلز کا تقدس برقرار رکھنا ان کی بھی ذمہ داری ہے ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ہم اپنی ڈرامہ انڈسٹری کو بچانا چاہتے ہیں اور معاشرے میں سدھار لانا چاہتے ہیں تو اس سنگین مسئلے پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا ایسے کہانی نویسوں اور پروڈیوسرز پر نہ صرف پابندی لگانی ہو گی بلکہ سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ ہم اور ہماری نوجوان نسل مزید انتشار اور زوال کا شکار نہ ہو ـ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply