کنول کا پھول۔۔ثنااللہ خان احسن

کافی عرصہ پہلے سجاول شاہ یقیق کے مزار پر جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں شاہ یقیق کے مزار سے کچھ فاصلے پر جلالی بابا کا مزار ہے- جہاں عام طور پر جنات اور آسیب کا شکار خواتین و حضرات کی حاضری ہوتی ہے- تو شاہ یقیق کے مزار سے جلالی بابا کے مزار تک ایک کچا پگڈنڈی نما راستہ ہے جس کے بائیں طرف تا حد نظر ایک جوہڑ نما جھیل جیسی ہے جس کی سطح پر آپ کو ہزاروں کنول کے پھول کھلے نظر آتے ہیں- اس جھیل کی سطح مکمل طور پر کنول کے چوڑے پتوں سے ڈھکی نظر آتی ہے-
کنول کا پھول تالابوں جھیلوں اور ندی نالوں میں پایا جاتا ہے ۔
اس پودے کی جڑیں تو مٹی کے اندر ہوتی ہیں جب کہ پتے پانی کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں۔ پھول کا ڈنٹھل پانی کی سطح سے کافی انچ اوپر اور مضبوط ہوتا ہے۔ ایک پودا 3 میٹر کے علاقے میں پھیل سکتا ہے۔ اس کے پتے کا قطر 60 سنٹی میٹر اور اس کے پھول کا 20 سنٹی میٹر ہو سکتا ہے۔

کنول خور ) یونانی اساطیر میں مذکور ایک قوم ہے جو کنول کے پھولوں سے ڈھکے ایک جزیرے میں آباد تھی اور جزیرے میں جابجا موجود کنول کے پھول ہی ان کنول خوروں کی اصل غذا تھی جسے کھا کر وہ لوگ مدہوشی کی نیند سو جاتے تھے۔ ٹینی سن اور اوڈیسی کے یہاں اس قوم کا ذکر ملتا ہے۔ نیز ہیروڈوٹس نے بھی اپنی تاریخ میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔

یہ پھول کئی رنگوں میں پایا جاتا ہے۔ بالکل سفید پیلا ہلکا گلابی یا ملا جلا رنگ۔ بہت سی مذہبی روایات میں پودوں کو روحانی علامت، شفایابی، قوت بخشی اور بعض اوقات خدائی تعلق کے طور پر دیکھا جاتا ہے

ہندو مذہب میں کنول کے پھول کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مشرقی روحانیت کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ کنول کا پودا کئی معانی اور بیانیوں کی پرتیں ظاہر کرتا ہے۔ ہندوؤں کے لیے کنول کا خوبصورت پھول زندگی اور پیداوار اور بودھوں کے نزدیک یہ پاکیزگی کی علامت ہے۔

ہندو مذہب میں کنول کی کہانی کچھ یوں ہے کہ کنول بھگوان وشنو کی ناف سے ابھرا، اور اس پھول کے درمیان برہما بیٹھا ہوا تھا۔ کچھ کا خیال ہے کہ بھگوان کے ہاتھ اور پاؤں کنول جیسے ہیں اور اس کی آنکھیں کنول کی پتیوں کی طرح اور اس کے چھونے کا احساس کنول کی کلیوں کی طرح نرم ہوتا ہے۔کنول یعنی گل نیلوفر کو کئی بیماریوں میں بطور دوا کے استعمال کیا جاتا ہے۔

اصل حالت میں اس کے پھول بہت خوبصورت اور دلرباہوتے ہیں لیکن مرجھانے اور خشک ھونے پر اپنی دلربائی اور حسن کھودیتے ہیں۔ ایک صاحب خشک کنول کے پھول کو اٹھاکر کہنے لگے:
”لوجی لوگ بھی بے وقوف ہیں۔ کیا یہی کنول کا پھول ہے جس کی تعریف میں لوگ رطب اللسان رہتے ہیں؟“
دراصل یہ پھول خشک ہوکر اپنا حسن کھودیتا ہے لیکن اس کے وہ فائدے ہرگز ضائع نہیں ہوتے جو اس کے بطور دوا استعمال میں پوشیدہ ہیں۔عام طور پر لوگوں کو علم نہیں کہ اگر آنکھوں کی بیماریاں لاحق ہوں تو نیلوفر کا پھول سونگھنے سے افاقہ ہوتا ہے۔ اس کی خوشبو بے خوابی کے مرض کو دور کردیتی ہے اور پیاس گھٹانے میں مدد کرتی ہے۔

شربت نیلوفر:
گل نیلوفر ایک کلو‘ دانہ الائچی خورد 100 گرام‘ صندل سفید 100 گرام تمام ادویہ کو دھیمی آنچ پر سات کلو پانی میں جوش دیں۔ جب پانی چار کلو باقی بچے تو ٹھنڈا کریں اور مل چھان کر اس پانی میں پانچ کلو چینی ڈال کر شربت کی طرح دھیمی آنچ پر پکائیں۔ گاڑھا کر کے محفوظ رکھیں۔ خوراک 3 سے 5 تولہ تک دن میں دو سے چار بار۔ ہائی بلڈ پریشر میں لا جواب شربت ہے۔ جب کسی دوا سے بلڈ پریشر کنٹرول نہ ہوتاہو تو ایسی کیفیت میں یہ شربت بہت ہی زیادہ مفید ہے۔ بلڈ پریشر کو نارمل کرتاہے۔ نیز دل کو تقویت بخشتا ہے۔
ماہرین نے اس کے حسب ذیل فوائد بتائے ہیں۔

درد سر دائمی
درد شقیقہ
بے خوابی
دل کی بیماری
جگر کی گرمی
یرقان
نکسیر
جریان
الرجی
اس کے علاؤہ کنول کے پودے کا شربت بھی بنایا جاتا ہے جو بازار میں شربت نیلوفر کے نام سے دستیاب ہے یہ شربت ہاتھ پاوں کی جلن‘ پیشاب کی جلن‘ آنکھوں سے گرمی نکلنا، تمام بدن کا گرم ھونا یہ تمام علامات شربت نیلوفر سے ختم ھو سکتی ہیں۔

اس کے علاؤہ اس میں پھل بھی ہوتا ہے جسے کنول گٹہ کہتے ہیں یہ پھل اوپر سے گولائی میں چوڑا ہوتا ہے اور نیچے پتلا ہوتا چلا جاتا ہے یعنی یہ بالکل قیف یا شاور کی شکل کا ہوتا ہے۔ جس کی سطح پر گول گول نشان بنے ہوتے ہیں ۔ ان کے اندر ایک بیضوی نما گولیاں ہوتی ہیں جب ان کا چھلکا اتار دیا جاتا ہے تو اس میں سے اس کا بیج نکلتا ہے جسے لوگ بہت شوق سے کھاتے ہیں کنول کا پھول ایشیا میں مقدس سمجھا جاتا ہے۔ مندروں، مسجدوں، خانقاؤں اور گردواروں کے گنبد کنول کی طرز پر بنے ہیں۔ مہاتما بدھ کو مجسموں میں اکثر کنول کے پھول پر بیٹھے دکھایا گیا ہے۔ نئی دہلی میں بہائيوں کی عبادت گاہ بالکل کنول کے پھول جیسی ہے۔اسلام آباد میں ایک کنول جھیل ہے اور راولپنڈی کے ایوب پارک میں کنول کے پھولوں اور پودوں سے بھری ایک جھیل ہے۔ یہ بھارت کا قومی پھول ہے
اس کے پتے اکثر گوشت، قیمہ یا چیزوں کے لپیٹنے کے کام آتے ہیں۔ اس کی جڑیں سبزی کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہیں یہ سبزی پاکستان میں بھے یا بیھہ کے نام سے جانی جاتی ہے
‏‎بیہ۔ بیہے۔ کمل ککڑی
بیہے—— چٹپٹی مصالحے دار بیہہے—— کی مخصوص انداز سے لہک لہک کر آواز لگانے والے سندھ کے شہروں میں آپ کو اکثر بازاروں میں بیہ بیچنے والے نظر آئیں گے —-ایک تسلے یا تھال میں لمبی لمبی ککڑی نما ھلکی براون رنگ کی ابلی ہوئی  زرد بیہ کے ٹکڑے ایک دوسرے کے اوپر جمائے ہوئے اس کے ساتھ ہی ایک ہانڈی یا پلاسٹک کے برتن میں ہری چٹنی، اور ایک ٹوکری میں پیپل کے پتے یا کاغذ کے چوکور ٹکڑے۔۔ اکثر راہگیر اور دکاندار خریدتے ہیں تو بیہ فروش اپنا تھال زمین پر رکھ کے سب سے پہلے تیز چھری سے بیہ کا ایک ٹکڑا کاٹ کر پتل یا کاغذ پر رکھتا ہے۔ پھر اس کے گول گول قتلے کر کے اس پر ایک ڈوئی  کی مدد سے ایک چمچہ چٹنی انڈیل کر ایک عدد تیلی کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
‏‎ اب ا ٓپ تیلی کی مدد سے ایک ایک قتلہ کھاتے جائیں۔ چٹنی چٹپٹی اور کھٹی ہوتی ہے جبکہ بیہ لیسدار۔ بہت مزیدار لگتی ہے
قتلے کرنے پر بیہہ کے اندر آپ کو ایک خاص پیٹرن میں چھید نظر آتے ہیں-
بیہہ کو نمک اور ھلد والے پانی میں کافی دیر ابالا جاتا ہے کہ یہ گل کر نرم ہوجائے- اس کے ساتھ ایک خاص قسم کی چٹنی جو پالک کے پتوں ہرا دھنیا نمک مرچ اور املی کے پانی کو ملا کر بنائی جاتی ہے پیش کی جاتی ہے-
بچپن میں مجھے قطعی علم نہ تھا کہ یہ بیہہ کیا چیز ہوتی ہے کہ میں نے اس کو کبھی کسی کھیت یا باغ میں دوسری سبزیوں کی طرح اگتے نہیں دیکھا تھا- یعنی یہ پورا علاقہ کیچڑ اور پانی سے لبریز ہے- شاہ یقیق کے مزار کے گرد موجود جھیل میں کچھ دیہاتیوں کو دیکھا جو اس کیچڑ نما جھیل میں اترے ہوئے تھے اور جھیل کی تہہ سے جب وہ کنول کے تنے کو کھود کر کھینچتے تو اس تنے کے ساتھ کیچڑ میں لت پت ککڑی نما جڑ بھی نکل آتی- جب اس جڑ کو پانی سے صاف کیا جاتا تو اندر سے ھلکی سفیدی مائل براون رنگ کی بیہہ نکلتی- تب مجھے پتہ چلا کہ یہ بیہہ دراصل کنول کی جڑ ہوتی ہے- یہ آپ کو ہر اس علاقے میں مل جائے گی جہاں جھیلیں اور کیچڑ ہو- انڈیا میں اسے کمل ککڑی کہا جاتا ہے-
‏‎یہ کنول کی جڑ ہوتی ہے۔ جھیل، ندی، تالاب دریا جہاں کنول ہونگے تو اس کی جڑ بھی ملے گی۔ کنول کیچڑ میں اگتا ہے تو اس ی جڑ بھی مٹی سے بلکہ کیچڑ سے لت پت ہوتی ہے اور اس پر کئ سینٹی میٹر موٹی کیچڑ کہ تہہ چڑھی ہوتی ہے۔ اچھی طرح دھونے کے بعد اس کی یہ شکل نکلتی ہے جو پلیٹ میں رکھی ہے۔ یہ ایک بہت قوت بخش غذا ہے۔ یہ لیس دار ہوتی ہے۔ ہڈیوں کے لئے انتہائ مفید ہے۔ اب چائنا سے اس کا خشک شدہ پائوڈر بھی آتا ہے جو قوت بخش اور کئی  امراض میں مستعمل ہے۔سندھ میں یہ بہت ہوتی ہے۔خاص طور پر دریا کنارے اور ٹھٹہ کی جھیلوں میں۔ اس کو پکانے کے بے شمار طریقے ہیں۔ چائنیز اسٹائل میں بھی بنتی ہے۔
اس کو بہت سے مختلف طریقوں سے بنایا جاتا ہے۔ اسکے چپس اور پکوڑے بھی بنتے ہیں۔یہ زرا دیر سے گلتی ہے۔ اس کو پکانے کے لئے سب سے پہلے بہت اچھی طرح مٹی وغیرہ سے صاف کر کے دھو لیجئے۔ پھر زرا ہلکا سا چھری کی مدد سے اوپر سے کھرچ کر اندر کی سفید بیہ نکالئے۔ پھر اس کو کوکر میں ڈال کر گلا لیجئے۔ کچھ نمک بھی شامل کردیجئے۔ جب بیہے گل جئے تو اس کے گول گول قتلے کر لیجئے۔ اب ٓپ اس کو قیمے کا ساتھ پکا سکتے ہیں۔ آلو اور بڑیوں کے ساتھ یا پالک کے ساتھ یا گوشت والے مصالحے میں ڈال کر صرف بیہ کا سالن بھی بنا سکتے ہیںِ
‏‎دوسرا سندھی طریقہ یہ ہے کہ ہلدی اور نمک ڈال کر ابال کر گلا لیجیے۔ پھر پالک کے پتے ہرا دھنیا املی لال مرچ نمک زیرے کی چٹنی بنا کر اس کے ساتھ کھائیں۔
‏‎تیسرا طریقہ اس کو چائینیز یا تھائ طریقے سے بنانے کا ہے۔ اس میں بھی بیہ کو ابال لیجئے پھر اس کو مشروم یا بونلیس چکن کے ساتھ اسٹر فرائی  کیجئے۔
‏‎پھر اس میں لہسن ادرک کا پیسٹ ہری پیاز ٹومیٹو پیوری ڈال کر فرائی  کیجئے۔ پھر سویا ساس سرکہ اجینو موتو چلی وغیرہ ڈال کر فرائی  کر لیجئے۔ یہ اسپاگیٹی کے ساتھ چلے گا۔ چاہیں تو اس میں کارن فلور اور پانی شامل کر کے گریوی بنا لیجئے۔
‏‎ابلے سفید چاولوں کے ساتھ تناول فرمائیے۔

کراچی سبزی منڈی میں صرف دو تین دکانوں پر دستیاب ہے. .ایمپریس مارکیٹس صدر میں بهی ملتی ہے اسی روپے کلو….جنوبی پنجاب کے اضلاع رجیم یار خان. .صادق آباد. بہاولپور وغیرہ میں بھی آسانی سے دستیاب ہے بچپن میں قیمہ بہہ بہت شوق سے کهاتے تهے. …پہلے اسے چهوٹے چهوٹے ٹکڑے کر کے ابالیں اور گلا لیں..قیمہ بهونتے وقت اسے بهی شامل کر لیں اور اچهی طرح بهنائی  کریں اور پهر آدها گلاس پانی ڈال کر دم دے دیں اور بهون کر اتار لیں..بہت لزیز اور شاندار سالن بنتا ہے گرم مصالحہ لازمی ڈالیں منفرد ذائقہ بنے گا. ..سندھ میں ایک شادی پر گئے تو اسکا رآیئتہ کهایا بہت لزیز تها استفسار کرنے پر بتایا گیا کہ پہلے اسے اچهی طرح ابال کر گلا لو پهر بلینڈر میں ڈال کر پیس لو پهر علیحدہ سے املی کا ابلا ہوا پلپ اور نمک مرچ کالی مرچ دهنیا پودینہ ہری مرچ بلینڈ شدہ مکس کر کے کهاتے ہی جاو دل نہیں بهرے گا
بیہے دو طرح کی ہوتی ہے ایک لال اور ایک سفید- لال بیہے میں ریشہ بہت ہوتا ہے اور یہ کافی دقت سے گلتی ہے جبکہ سفید بیہے عمدہ اور جلدی گل جاتی ہے- لہازہ پکانے کے لئے ہمیشہ سفید بیہے کا انتخاب کیجئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کنول کے پھل کنول گٹے سے نکلنے والے بیج لوگ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ انتہائ مقوی ہوتا ہے۔ سرخ نیلوفر کے کنول گٹے سے حاصل ہونے والے بیج خشک کرکے مکھانے بنائے جاتے ہیں جو پنجیری اور مقویات میں ڈالے جاتے ہیں۔
نوٹ۔۔۔ اس آرٹیکل میں کچھ مندرجات وکیپیڈیا سے بھی کاپی کئے گئے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply