• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(اکتالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(اکتالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

بچپن میں فائرنگ کی آواز سے ہم سب دہشت زدہ ہو جایا کرتے تھے۔ نوّے کی دہائی کا کراچی ایسا ہی تھا ،بوری میں بند تشدد زدہ پھڑپھڑاتی ہوئی انسانی لاش کی مانند۔
اُس وقت ہمیں بتایا جاتا تھا کہ “یہ چند مٹھی بھر دہشت گرد ہیں، جب فوج آئے گی تو سب بہتر ہو جائے گا”۔
ہم جن کے گھروں پر فوج کو مقدس سمجھ کر پوجنے کی تلقین کی جاتی تھی، اس بات کے دعویدار تھے کہ سب کچھ فوج ہی بہتر کرے گی۔ پھر رفتہ رفتہ وہ دن بھی ہم نے دیکھے کہ شہر میں فوج آئی لیکن حالات جوں کے توں ہی رہے۔۔۔ کچھ بھی تو نہ بدلا سوائے چہروں کے، جو پہلے سے بھی زیادہ سفاک تھے۔۔۔ کچھ لوگوں کو مار دیا گیا، کچھ ملک سے باہر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے اور کچھ لوگوں سے شرمناک معاہدے کر کے شہر کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں تھما دی گئی۔
سرکاری ٹی وی پر ہر روز نو بجے کا خبر نامہ نشر ہوتا۔ معمول کی خبروں کے علاوہ دو خبریں تواتر سے دکھائی جاتی رہیں۔ بدقسمتی سے سنسر شپ کی پابندیوں کی وجہ سے اندرونِ ملک میں رونما ہونے والے افسوسناک واقعات کو بڑی ڈھٹائی سے چھپا دیا جاتا تھا، اس لیے ہم یہ کبھی نہ جان پائے کہ ملک کے اندر بھی وردی والے عوام کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں، جو سلوک جنگ کے زمانے میں مفتوح اپنے زیرِنگیں لوگوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ ہم ایک طویل عرصے تک یہی سمجھتے رہے کہ ظالم فوجیں صرف بوسنیا اور کشمیر میں ہی ہیں۔ کیونکہ ہر شب ہمیں نہایت ہی دیانت داری سے آگاہ  کیا جاتا کہ آج اتنے مسلمان بوسنیا میں شہید ہو گئے اور اتنے مسلمان کشمیر میں شہید کر دیے گئے ہیں۔

جب بوسنیا اور کشمیر میں معصوم لوگوں کو قابض فوجیں اپنی بندوقوں سے چھلنی کر رہیں تھیں ،تو ٹھیک ان ہی دنوں کراچی کی سڑکوں پر بھی فوجی ٹرک لوگوں کو روندتے ہوئے، اپنی بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزرا کرتے تھے۔ شاید اُن دنوں ملک کے دوسرے حصوں میں بھی بہت سے لوگوں کو محض اس بنیاد پر قتل کر دیا جاتا ہو گا کہ وہ اس جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہتے ہوں گے جس کو پڑوسی ملک میں جہاد کے نام پر لڑا جا رہا تھے۔
مجھے یقینِ کامل ہے کہ اس وقت بھی قبائلی علاقوں کے بہت سے امن پسند لوگوں نے افغان جہاد میں اپنے بیٹے بھیجنے سے انکار کر کے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہو گا۔۔۔ اُن اوّلین مزاحمت کاروں کو راہِ راست پر لانے کے لیے یہاں کی فوج نے بھی وہی سلوک کیا ہو گا جو سلوک بوسنیا اور کشمیر میں قابض افواج کر رہیں تھیں۔ مگر افسوس کہ ہم ملک کے اندر رونما ہونے والے ان واقعات سے بے خبر تھے۔۔۔
کیا ہم واقعی میں بےخبر تھے؟۔۔ نہیں ہم بےخبر تو نہیں تھے، البتہ بے خبر رکھے گئے۔ ہمیں اس بےخبری کی دنیا میں تین فریقوں نے دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ تین فریق کسی دشمن ملک کے ایجنٹ نہیں تھے بلکہ اسی سرزمین کے باسی تھے۔۔۔ ہم سب ہی واقف ہیں ان تین فریقوں سے۔
فریق نمبر ایک؛ ملٹری، فریق نمبر دو،سیاسی اشرافیہ اور فریق نمبر تین،وہ نیوز اینکرز و صحافی حضرات جو بےخبری کے اس کھیل میں برابر کے شریک تھے۔
آخر یہ تعلیم یافتہ عالم و فاضل صحافی لوگ مزاحمت کر کے اپنے آقاؤں کو کہہ تو سکتے تھے کہ۔۔”حضور بس بہت ہو گیا۔۔۔ ہم سے روز روز اپنے ناظرین سے یہ جھوٹ نہیں بولا جاتا کہ بوسنیا اور کشمیر میں قابض افواج نے اتنے لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا۔۔۔
اندرونِ ملک بھی تو حالات سازگار نہیں۔۔۔ کراچی میں کرفیو کے باوجود لوگ مر رہے ہیں، بوریوں میں بند انسانی جسموں کی تشدد زدہ ،گلی سڑی لاشیں ندی نالوں سے آئے روز مل رہی ہیں، شہر کے کئی خاندان اپنے گھروں کو سستے داموں فروخت کر کے محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔ پاک افغان بارڈر پر معصوم عوام قافلوں کی صورت میں “جہاد نما جنگ” سے بچنے کے لیے ہجرت کرنے پر مجبور کر دی گئی ہے۔ جہاد کے خلاف “امن پسند قبائلی مزاحمت کاروں” کو فوج قتل کر کے اجتماعی قبروں میں دفن کر رہی ہے۔۔۔ آخر ہم ان واقعات کو نو بجے کی خبروں کا حصہ کیوں نہیں بنا سکتے۔۔۔؟

کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سچ کو چھپانا “ناجائز” اور جھوٹ کی پرورش کرنا “جائز” ہے۔۔؟ اسی لیے آپ جھوٹ کو فروغ دینے کا کام ہر روز نو بجے کے خبرنامے میں ہم سے بسم اللہ  الرحمن الرحیم پڑھوا کر لے رہے ہیں۔۔۔
لیکن اب ہم مزید یہ کام نہیں کر سکتے۔۔۔ اب آپ کسی اور کو حصہ بنائیں اس “خبر نامہ” کے نام پر “جھوٹ نامہ” کا۔۔۔”

مجھے اس بات کا کوئی علم نہیں کہ اُس وقت سرکاری ٹی وی کے  سٹوڈیو میں کیا ہوا۔۔۔ کیا کسی نیوز اینکر نے سچائی کی خاطر لکھی ہوئی جھوٹی خبر کو پڑھنے سے انکار کیا تھا۔۔۔۔ یا وہ ہر روز “بسم اللہ  الرحمن الرحیم” پڑھنے کے بعد خبروں کے نام پر جھوٹ کی پرورش کر کے اپنے بینک اکاؤنٹ کو بھرتا رہا۔۔۔ بھرتا رہا اور بھرتا رہا!

عزیز ساتھیو اب ہم ماضی سے حال کی جانب آتے ہیں، آج دو مئی 2020کا آفتاب غروب ہو چکا ہے۔ اس غروب ہوتے ہوئے آفتاب نے لاکھوں، کروڑوں لوگوں کی امیدوں کو ایک بار پھر سے شکست سے دوچار کر کے فرمان جاری کر دیا ہے کہ۔۔
سچ بات پہ ملتا ہے سدا زہر کا پیالہ،

 جینا ہے تو پھر جراّتِ اظہار نہ مانگو!

جی ہاں اکیسویں صدی میں جُراتِ  اظہار مانگنے کی سزا ہے طاقتور کی بندوق سے نکلی ہوئی گولی۔۔۔ یا گولیاں۔۔۔ انسانی جسم کو زنگ لگانے کے لیے ایک گولی بھی کافی ہوتی ہے۔
گزشتہ دو دنوں میں ہمیں دو انتہائی تکلیف دہ خبریں سننے کو ملی ہیں۔ ایک خبر کا تعلق اندرونِ ملک سے ہے اور دوسری خبر کا تعلق بیرونِ ملک سوئیڈن سے ہے۔۔۔
میں اس قسط کی وساطت سے لاکھوں کروڑوں سوگواروں سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ مشکل کی اس افسوسناک گھڑی میں ہم سب ایک دوسرے کا حوصلہ ہیں۔ ساجد حسین اور عارف وزیر قتل کر دیے گئے۔ میں سوچتا ہوں کیا قاتلوں نے اپنی اُس فہرست میں دو نئے ناموں کا اندراج کیا ہو گا جس کا آغاز آزادی کے نام پر تقسیمِ ہند سے ہوا تھا۔۔۔ کیا وہ قاتل اسی طرح ہمارے جسموں کو روندتے رہیں گے۔۔۔ کیا اس کائنات میں کوئی رحیم و کریم ہے جو ہمیں اس عذاب سے نجات دلا کر اپنی رحمانیت کا جواز فراہم کرے۔۔۔۔ ہے کوئی یا نہیں۔۔۔؟؟

یہ کون سخی ہیں

جن کے لہو کی

اشرفیاں  چھن چھن، چھن چھن،

دھرتی کے پیہم پیاسے 

کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں

کشکول کو بھرتی ہیں

یہ کون جواں ہیں ارض عجم

یہ  لکھ لٹ

جن کے جسموں کی

بھرپور جوانی کا کندن

یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے

یوں کوچہ کوچہ بکھرا ہے!

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply