بہاولپور یونیورسٹی کے واقعات کا ذمہ دار کون؟/فرزانہ افضل

اسلامیہ یونیورسٹی میں ہونے والے شرمناک واقعات جب جب سے منظر عام پر آئے ہیں دل کو بہت تکلیف ہوئی عورت جب بھی ظلم اور زیادتی کا نشانہ بنتی ہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو عورتوں کے علاوہ معاشرے میں مرد یا بچے ، کسی کے ساتھ بھی نا انصافی اور زیادتی کے واقعات پیش آئیں ، دل بوجھل ہو جاتا ہے ۔ مگر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا نام اس بدنامی کے حوالے سے سنا تو دل میں شدید دکھ کی لہر اٹھی کیونکہ میرا تعلق بہاولپور ڈویژن سے ہے ۔

 

 

 

 

اور میں دماغ کی ٹائم مشین میں 30 سال قبل کے زائد عرصے کے دور میں چلی گئی اور وہ وقت یاد آ گیا جب میں نے بہاءالدین زکریا یونیورسٹی میں ایم بی اے ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لیا شروع میں کافی عرصہ ہم لڑکیاں شرمائی لجائی رہتی تھیں اور اپنے دوسرے کلاس فیلوز کے ساتھ مکس اپ نہیں ہوتی تھیں ۔ بعد میں کچھ بے تکلفی اور دوستی ہو گئی ٹیچرز کا ہمیشہ سے خوف اور لحاظ رہا انہوں نے بھی فاصلہ برقرار رکھا ۔ یہی حال یونیورسٹی کے تمام ڈیپارٹمنٹس کا تھا بہت اسلامی ماحول تھا کوئی لڑکا لڑکی کبھی اکیلے اکٹھے بیٹھے ہوئے کہیں نظر نہیں آتے تھے ۔ میں چونکہ ہوسٹل میں رہتی تھی لہٰذا ہوسٹل کا ماحول بھی بیان کر سکتی ہوں ۔ ہمیں ہوسٹل سے باہر کہیں جانے کی اجازت نہیں تھی ۔ فیملی یا وزٹرز کو گیٹ کے پاس بنے ہوئے وزیٹنگ روم میں ہی مقررہ وقت کے دوران ملنے کی اجازت تھی ۔ یونیورسٹی چونکہ شہر سے دور تھی ویک اینڈ پر ہفتے اور اتوار کے دن یونیورسٹی بسیں ہاسٹل سے شہر لے کر جاتیں اور صرف دو گھنٹے شاپنگ کرنے یا گھومنے پھرنے کی اجازت تھی پھر واپسی ۔ گریڈ کم آئیں یا زیادہ ، کسی قسم کی سفارش کا ہرگز کوئی تصور نہ تھا ۔

اسی قسم کا ماحول اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا بھی تھا۔ 30 سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا مگر صدمے کی بات یہ ہے کہ بجائے ترقی کی طرف جانے کے ہمارا ملک اور تعلیمی ادارے بےحیائی اور فحاشی کی طرف جا رہے ہیں۔ سٹوڈنٹس لڑکیوں کو ان کے خود کے اساتذہ اور یونیورسٹی کا سٹاف اچھے گریڈز کا لالچ دے کر اور ایم فل میں ایڈمیشن کا جھانسا دے کر ان کی عزتوں سے کھیل رہے ہیں، اپنی ہوس کی آگ بجھا رہے ہیں ۔ ایک گھناؤنا نیٹ ورک بنا ہوا ہے جس میں لڑکیوں کو ایک ڈیپارٹمنٹ کے اساتذہ سے دوسرے ڈیپارٹمنٹ اور یونیورسٹی سے باہر بھی سپلائی کیا جاتا ہے ۔ شراب و شباب کی محفلوں میں ان بچیوں کو شمع محفل بنایا جاتا ہے۔ ڈرنک پارٹیز کی رونق بنا کر ان سے منشیات کا کام بھی لیا جاتا ہے ۔ چوری چھپے ان کی فحش ویڈیوز بنائی گئی ہیں جن کی بنا پر لڑکیوں کو بلیک میل کر کے ڈرا دھمکا کے غلط کاموں پر مجبور کیا جاتا ہے ۔

یہ بات ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ ایسا صرف ان لڑکیوں کے ساتھ ہو رہا ہوگا جو آسانی سے ان وحشیوں کے چنگل میں پھنس گئیں ۔ مگر ایک واحد بچی بھی زیادتی کا شکار کیوں ہو؟ مختلف یوٹیوب چینلز کے ذرائع کے مطابق اس میں منسٹرز اور ان کی اولادیں بھی شامل ہیں۔ میڈیا کے مطابق پنجاب کی اور یونیورسٹیز میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور کے ایک گرلز گرامر سکول میں ایک مرد ٹیچر کا سٹوڈنٹس بچیوں کے ساتھ جنسی ہراسگی کا واقعہ بھی سامنے آیا تھا۔ اس معاملے کو میڈیا میں کچھ تشہیر کے بعد سکول کی پرنسپل نے دبا دیا تھا ۔ بعد میں اس کی کوئی مزید انویسٹیگیشن سامنے نہیں آئی ۔ والدین اپنی بچیوں اور بچوں کو یونیورسٹی میں اعلٰی تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں سٹوڈنٹس کی اکثریت متوسط یا سفید پوش طبقے سے تعلق رکھتی ہے ۔ بچیاں اپنی عزت کے ڈر سے اپنے اوپر بیتے ہوئے ان ظلم و زیادتی کے واقعات کو اپنی فیملی یا کسی اور کو بتا بھی نہیں سکتیں ۔

اس موضوع پر یوٹیوب ویڈیوز پر لوگوں کے کمنٹس پڑھ کر رنج ہوا جہاں کئی لوگوں نے ان واقعات کا ذمہ دار عورتوں کی تعلیم اور آزادی کو ٹھہرایا ۔ بعض نے تو باقاعدہ کہا کہ آج سے چالیس پچاس سال قبل کا دور اچھا تھا جب لڑکیوں کو گھروں سے باہر نہیں جانے دیا جاتا تھا لہٰذا جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار یہ خود ہیں ۔ اس طرح کے کمنٹس سے سینکڑوں لوگوں نے اتفاق رائے کیا۔ یعنی بجائے یہ کہ ان واقعات کی تفتیش کی جائے اور ان بھیڑیوں کو سخت سزا دی جائے معاشرے کے ان ناسوروں کا علاج کیا جائے۔ اور بچیوں کو تحفظ اور سکیورٹی مہیا کی جائے ، ان کی سیف گارڈنگ یعنی حفاظت کے اقدامات کی کڑی نگرانی کی جائے۔ الٹا ہمارے معاشرے کی سوچ یہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم اور ترقی پر قدغن لگا دیا جائے ان کو جہالت کے دور میں واپس دھکیل دیا جائے بالکل اسی طرح جیسے عصمت دری کے واقعات میں عورتوں پر ہی الزام دھرا جاتا ہے کہ لباس ٹھیک نہیں تھا وہ مردوں کو متوجہ کرتی ہیں، جنسی زیادتی تو چند سال کی معصوم بچیوں کے ساتھ بھی ہوئی ہیں بعض کو تو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا یا وہ ظلم کی تاب نہ لا کر چل بسیں ۔کیا ان کا لباس بھی ٹھیک نہ تھا ؟ جوان عورتوں کی کفن میں لپٹی تازہ لاشوں کو قبروں میں کھود کر زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کیا ان کا کفن ان بھوکے بھیڑیوں کے لیے جنسی کشش کا باعث ہوتا ہے ؟ جو عورتیں اپنی ازدواجی زندگی میں تشدد کا شکار ہوتی ہیں ان کے خود کے گھر والے ہی انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنا گھر بسائیں اور انہی تکلیف دہ حالات میں گزارا کریں تاکہ ان کے ماتھے پر طلاق کا کلنک نہ لگے اور خاندان کی جھوٹی عزت برقرار رہے ، گھر، دفتر ، تعلیمی ادارے یا عورت مارچ ، جہاں کہیں بھی عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے انہیں اس پدرسری معاشرے کے مردوں نے بری طرح مسترد کیا ہے ، خواتین اور ان کے حقوق کے مطالبے کی تضحیک کی ہے ۔ عورت کو ہمارے معاشرے میں دوسرے درجہ کی شہری سمجھا جاتا ہے ، مرد بھلے تعلیم اور تجربے میں عورت سے کم تر ہو مگر خود کو بالا تر سمجھتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ عورت کی بے عزتی کرنے کو اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہے اس کو ایک پروڈکٹ یا استعمال کرنے کی چیز کے طور پر لیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی اور بقیہ یونیورسٹیاں جہاں  میڈیا کے مطابق یہ گھناؤنے جرائم ہو رہے ہیں کی مکمل تفتیش  کی جائے اور اس کے علاوہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کالجز اور تمام تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس کے لیے سخت حفاظتی انتظام کیا جائے۔ زیادتی کے بے شمار واقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے،  اس ضمن میں پاکستان میں موجود ای -رپورٹنگ سسٹم  سے متعلق سوشل میڈیا پر  آگاہی  مہم چلائی جائے۔ چائلڈ لائن اور ابیوز ( زیادتی) رپورٹنگ فون لائن بنائی جائے۔ پولیسنگ ڈیپارٹمنٹ کو بہتر بنایا جائے عدلیہ اور تمام حکومتی اداروں میں کرپشن کا خاتمہ ہو تاکہ مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply