عزاداری و ماتم پر نقلی کی بجائے عقلی بحث/تبرید حسین

میں ایک ایسے گاوں کی گلیوں کی سڑکوں پر کھیلتے پروان چڑھا، جہاں نصف شیعہ اور نصف سنی آبادی تھی، جو عمومی طور پر غیر متعصب اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک لوگ تھے۔ دوران محرم کچھ اہلسنت بھائی مجلس و ماتم تو کچھ سبیلوں اور نیاز کے اہتمام میں شریک رہتے۔ مگر آنے والی نسلیں کچھ مخصوص پراپیگنڈا کا شکار ہوتی نظر آرہی ہیں۔ اگرچہ ہمارے دور میں بھی ایک صوفی صاحب تھے، جو روز عاشورہ صبح صبح بچوں میں میٹھی ٹافیاں بانٹتے تھے تو ہم سوچتے جب ہمارے گھروں میں مرنے کا سا سوگوار ماحول ہے۔ کھانا پینا بند کرکے چھوٹے بڑے فاقہ کئے ہیں تو یہ خاندان رسالت پر عین ظلم و بربریت کے وقت ٹافیاں کیوں بانٹ رہے ہیں۔

اسی طرح ہم عموماً صبح عاشور کے اعمال کیلئے جب کھلے آسمان تلے (قبرستان) جاتے تو اپنے اہلسنت بھائیوں اور بہنوں کو اپنے پیاروں کی قبروں کو لیپتے دیکھ کر بچپن کے معصوم ذہنوں میں سوال اٹھتا کہ آخر آج جب زہراء کے لٹتے پٹتے گھر کا پرسہ دینے کا دن ہے تو ان لوگوں کو دھیان کس نے خانوادہ رسول کے غم سے ہٹا کر ادھر لگا دیا۔ لیکن کم علمی اور بچپن کی معصومیت بھلا کہاں جانتی تھی کہ بنو امیہ کے شاطر اذہان نے کس طرح اپنے ظلم و بربریت سے توجہ ہٹانے کیلئے روایتیں گھڑ کر ایک بڑے طبقے کی توجہ کا رخ اولاد رسول پر ہونے والے ظلم سے موڑ کر اپنوں کی محبت کے فریب میں گم کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج کل جب سوشل میڈیا پر رسول (ص) کے نام نہاد متوالوں کو جب بنو امیہ خاص طور پر یزید اور ابو یزید کی حمایت و طرفداری کرتے دیکھتا ہوں تو دل چاہتا ہے کہ ان سے ایک نقلی کی بجائے عقلی مکالمہ ہو۔ اسی تناظر میں آئیے کچھ عمومی مگر اہم سوالوں کے جواب تلاشتے ہیں۔

سوال: یہ شیعہ آخر ماتم کیوں برپا کرتے ہیں۔؟
جواب: سادہ سی بات ہے، جب کسی کا نقصان ہو جائے۔ پیارا دنیا سے رخصت ہو جائے، وہ بھی ظلم اور بربریت کے سبب تو وہ روتا بھی ہے اور ماتم کے ذریعے ایک پرامن احتجاج بھی کرتا ہے۔ میں پچھلے دنوں دیکھ رہا تھا کہ کلرک اور ٹیچر اپنی تنخواہیں نہ بڑھانے اور مالی نقصان پر گورنر ہاوس کے سامنے سینہ کوبی کر رہے تھے، مگر کسی ملا نے فتویٰ نہیں داغا۔ بھئی جب معمولی مالی نقصان کی خاطر ماتم جائز ٹھہرا تو پھر اولاد رسول کا بہیمانہ قتل تو بدرجہ اتم کہیں بڑا ملت مسلمہ کا نقصان تھا، اس نقصان پر گریہ و ماتم پر شش و پنج بھلا کاہے کو۔۔۔ اور ظلم ایسا کہ الامان الحفیظ حبیب ابن مظاہر سے لیکر 6 ماہ کے علی اصغر تک تہہ تیغ ہوئے۔ خاندان رسالت کی بچیوں تک کو طمانچے مارے گئے۔ رسول کے راج دلارے حسین ذبح ہوگئے، اس پہ بھی احتجاج نہیں بنتا تو پھر دنیا میں ہونے والے کسی ظلم پر احتجاج نہیں بنتا۔ دُنیا کا سب بڑا احتجاج ہے عزاداری، اگر یہ نہ ہوتی تو لوگ قتل امام حسین علیہ السلام بھول چکے ہوتے اور یزید کسی معتبر صحابی کا روپ دھار چکا ہوتا۔

کچھ مسلمانوں کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ حسین کو یاد مت کرو۔۔ کیونکہ حسین علیہ السلام کو یاد کرنے سے ساتھ میں ان کے پرکھوں کے کرتوت بھی ظاہر ہو جاتے ہیں۔۔ یہ حسینیوں کا عزم و استقلال ہے۔۔ کہ انہون نے حسین علیہ السلام اور ان کے افکار کو زندہ رکھا، ورنہ امویت تو جلا ہوا مدینہ اور اور آگ لگا کعبہ بھی امت کے ذہنوں سے فراموش کروا چکی ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہاتھ شیعہ اپنے کلیجے پے مارتے ہیں، لگتے آپ کے کلیجے پے ہیں، کیوں؟ یزیدیت کی ماتم کیخلاف چیخ و پکار پر امام خمینی کی بصیرت پر سلام کرنے کو دل کرتا ہے کہ امام خمینی نے درست فرمایا کہ ماتم کیلئے اٹھنے والے یہ ہاتھ دراصل یزیدیت کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ ہم تو ماتم کے ذریعے سے یزید اور اس کے حواریوں کے ظلم چودہ سو سال سے بے نقاب کر رہے ہین اور خوب کر رہے ہیں، مگر آپ کو یہ کیسی پریشانی لاحق ہے۔ ویسے ایک خوبصورت سوال کسی شاعر اپنے انداز سے کیا ہے کہ
حسین کے ماتم میں اگر کچھ نہیں رکھا
تو یزید کے بچوں میں کھلبلی کیوں ہے

سوال: شیعہ عزاداری کو گھروں اور امام بارگاہوں تک کیوں محدود نہیں کرتے، لوگوں کو رستے بند ہونے سے تکلیف ہوتی ہے۔؟
جواب: بھئی واہ یہ بھی خوب کہی۔۔۔ آپ کو تو یہ بھی نہیں خبر کہ راستے کون بند کرتا ہے۔ فون کون بلاک کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے۔ آج تک عزاداران سیدالشھداء نے تو کبھی راستے بند نہیں کئے۔ ہم تو اپنا سینہ پیٹتے نہتے سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ ہاں راستے بند سڑکوں، مسجدوں اور امام بارگاہوں میں پھٹنے والے آپ کے بھائی بند لوگوں کی وجہ سے انتظامیہ کرتی ہے۔ 80 کی دہائی سے پہلے کی طرح پرامن رہیئے، ملک دشمن ایجنسیوں سے استعمال ہونا اور سڑکوں پر پھٹنا چھوڑ دیں تو سڑکیں کھل جائیں گی۔ کچھ لوگ سال بھر کرکٹ میچوں، سیاسی جلسوں اور دھرنوں کی سکیورٹی کے نام پر بند ہونے والے راستوں پر تو خاموشی اختیار کرتے ہیں، مگر محرم شروع ہوتے ہی ان کے اندر کی ناصبیت بہانے تلاشتی ہے۔

ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کیسے کوئی ایمبولینس پھنس گئی، کس طرح وہ دفتر سے لیٹ ہوئے اور پاکستان کی ترقی میں اس ایک دن وہ رکاوٹ پڑی کہ ہم امریکہ فرانس اور جاپان بنتے بنتے رہ گئے اور کیسے وہ بند راستوں سے تنگ آکر نو اور دس محرم کو نتھیا گلی، مری اور دیگر پہاڑی مقامات پر چلے گئے۔ فوج اور پولیس بم پھاڑ ناصبیوں سے حفاظت کے لئے ریاست مہیا کرتی ہے، شیعہ تقاضا نہیں کرتے۔ انہیں اپنی جان پیاری نہیں، ان کیلئے حُسین (ع) کے قاتلوں کو بے نقاب کرنا زیادہ اہم ہے۔ کچھ لبرل آنٹیوں کے بھی پیٹ میں حسین (ع) کے جلوس سے مروڑ آٹھ رہے ہیں، حالانکہ یہ وہ آنٹیاں ہیں، جو عورت مارچ کے حق میں سینہ ٹھونک کر میدان میں نکل آتی ہیں۔ تو عورت مارچ کیلئے سڑکیں بند کرنا جائز اور نواسہ رسول کی محبت میں پرامن طور پر بھی سڑک پر آنا ناجائز۔۔ واہ واہ!!!
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

سوال: 9 اور 10 محرم کو مری جانے اور سیرو تفریح کی کہاں ممانعت ہے۔ حوالہ دکھائیں۔؟
جواب: نواسہ رسول کی شہادت پر عیاشی، گلچھرے اڑانے اور مری کی سیروسیاحت کے حکم کا حوالہ کہاں ہے۔؟ تو کہتے ہیں کہ نہیں ممانعت دکھائیں تو ہم بھی چودہ سو سال سے یہی کہہ رہے ہیں کہ نواسہ رسول کہ عظیم شہادت پر احتجاج پر ممانعت دکھائیں۔ مگر جواب ندارد۔۔۔ بھئی سادہ سی بات ہے آپ کے گھر جنازہ پڑا ہو تو کیا آپ سیروسیاحت پہ نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے لئے اولاد رسول کا غم اور دکھ ہر سال تازہ ہوتا ہے۔ رسول پاک نے فرمایا کہ آپ کا ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا، جب تک میری اور میری آل کی محبت آپ کے دلوں میں آپ کی ماں باپ اور بچوں سے زیادہ نہ ہو۔ ہم تو اپنے غم بھی اولاد رسول کیلئے بھلا کر ان کے غم میں محو ہو جاتے ہیں۔ آپ رسول کیلئے اپنی محبت کا اپنے اعمال سے خود اندازہ لگائیے۔

سوال: ماتم جیسے خرافات میں مصروف رہنے کی وجہ سے امت مسلمہ ترقی نہیں کرسکی۔؟
جواب: چلیں شیعہ تو بقول آپ کے ماتم کی وجہ سے ترقی نہیں کرسکے تو آپ نے بغیر ماتم کے کونسا فضا میں راکٹ بھیج دیئے ہیں یا کینسر کی ویکسین ایجاد کر لی ہے یا ایٹم بم سے انرجی کشید کی ہے، جو بغلیں بجا رہے ہیں اور سوال داغ رہے ہیں۔

سوال: یزید و حسین کا فیصلہ قیامت کے روز ہوگا، کیا ہم اللہ سے زیادہ قدرت رکھتے ہیں، جو یہ معاملہ اللہ کے سپرد نہیں کرنا چاہتے؟ ہمیں چودہ سو سال قبل کے واقعہ میں پڑنے کی بجائے اپنے اعمال کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔؟
جواب: قرآن نہیں پڑھا تھا، حدیث نہیں پڑھی تھی تو علامہ اقبال کو ہی پڑھ لیا ہوتا
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوتِ شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
نہ جانے کیوں قرآن میں خدا ہمیں فرعون، شداد اور نمرود وغیرہ کے قصے سنا رہا ہے اور بار بار سنا رہا ہے اور سینکڑوں برس قبل کے قصوں کے پڑھنے اور بار بار پڑھنے پر ثواب کے خزانے بھی کھول رکھے ہیں۔۔۔ بس قرآن میں نشانیاں تو ہیں مگر عقل والوں کیلئے!!!

اگر کچھ نہین کہنا اور سزا و جزا کیلئے قیامت کا ہی انتظار کرنا ہے تو ہمارے ماتم کے عمل کی سزا و جزا کے عمل کیلئے بھی قیامت کا انتظار کرو نا بھائی۔۔ توہین رسالت، توہین قرآن پر احتجاج کاہے کا؟ قیامت کا انتظار کرو نا۔ بقول آپ کے اسلام صبر کا درس اور سارے فیصلے روز قیامت پہ رکھ چھوڑے ہیں تو کشمیر، افغانستان، پاکستان، یمن میں ہونے والے مظالم اور سویڈن میں قرآن جلانے اور نبی کریمؐ کے خاکے بنانے والوں کے خلاف تم سراپا احتجاج کیوں ہو؟ روز قیامت پہ چھوڑ دو سب باتیں۔ توہین رسالت کیلئے انتہائی حساس مسلمان کیا یہ بتائے گا کہ توہین رسالت بھلا اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ بوسہ گاہ نبی پر چھڑیاں ماریں گئیں۔ دوش نبی کے سوار کے بدن میں سینکڑوں زخموں کی حالت میں کند خنجر سے ذبح کر دیا گیا۔ نبی کی بیٹیوں کو ننگے سر بازاروں اور درباروں میں پھرایا گیا۔ کہاں ہے حساس مسلمان کی غیرت۔؟

سوال: امام حسین کے قتل کا کھرا بھی شیعوں کے ہاں ہی ملے گا، جبکہ لعنت بھی خود ہی کرتے اور پیٹتے بھی ہیں۔؟
جواب: چلیں ایک لمحے کیلئے اس تاویل کو مان لیتے ہیں تو ہم امام حسین کے قاتلوں پر اور ان کے قتل کی راہ ہموار کرنے اور ان کے قتل پر راضی ہونے والے پر لعن و نفرین ہی تو کرتے ہیں، چاہے وہ کوئی اپنا ہو یا پرایا۔۔۔ آئیے آپ بھی ہمارے ساتھ مل کر شریک ہو جائیے اور یاد رکھئے ہر وہ شخص ہمارا اپنا ہے، جو آل محمد سے محبت رکھے اور ان کے دشمنوں سے نفرین کا اظہار کرے۔

اور آخری گزارش:
آپ محرم الحرام میں تفریحی مقامات پر جانا چاہتے ہیں، ضرور جائیے۔ آپ دس محرم کو غم آل رسول کو پس پشت ڈال کر اپنے پیاروں کو یاد کرنے کے لئے قبرستان جانا چاہتے ہیں تو ضرور جائیے۔ آپ محرم الحرام میں جب نبی کے گھر کے جواں تہہ تیغ ہو رہے تھے، اپنے بچوں کے نکاح کرنا چاہتے ہیں، شوق سے کیجئے، مگر جس طرح آپ اپنی زندگی میں سب کچھ کرنے کا حق رکھتے ہیں، اسی طرح ہمیں بھی حق دیں کہ ہم آپ کی طرح ٹھنڈے مقامات کی سیر کرنے کے بجائے شدید گرمی میں سڑکوں پر آل رسول (ص) کا غم منا سکیں۔ آپ قبرستان جا کر اپنے پیاروں کا غم منائیں، مگر ہمیں بھی اسی طرح حق دیں کہ ہم اپنے پیاروں کا غم بھول کر نبی کریم (ص) کے پیاروں کا غم منا سکیں۔ آپ محرم میں شادی و نکاح کی خوشیوں سے محظوظ ہوں، مگر ہمیں بھی حق دیں کہ ہم اہلبیت علیہ السّلام کی بیبیوں کے اجڑے سہاگوں کا ماتم کرسکیں۔ ہم آپ کی محرم الحرام میں خوشیاں برداشت کر لیتے ہیں۔ آپ ہمارے غم برداشت کر لیں۔ دنیا کی خوشیاں آپ لے لیں، مگر نبی اور اولاد نبی غم ہمیں سونپ دیں۔ امید ہے کہ آپ کو اعتراض نہیں ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply