بیوپار ۔۔عارف خٹک

کہتے ہیں کہ بیوپار سنت نبوی ہے۔ ہمارے پیارے نبی کریم  ﷺ بھی کاروبار فرماتے تھے۔ ہم پشتون بنیادی طور پر مذہب پسند ہیں اس لئے سنتوں پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں بشرط، سنت میں خرچ کرنیوالی بات نہ ہو۔

ہمارے حجرے میں روز میٹرک فیل فلاسفر روزی گل یہی لیکچر دیا کرتا تھا۔ روزی گل سال پیشتر کمیونسٹ تھا پھر ایک دن مولوی صاحب  نے مسجد میں اعلان فرمایا کہ روزی گل کا جنازہ نہیں ہوسکتا اور خبردار کسی نے اپنی بیٹی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا تو یہ زنا کے زمرے میں شمار ہوگا۔ روزی گل کی شادی پر بن آئی تو روزی گل نے کارل مارکس کو طلاق دیکر علامہ اقبال کو پڑھنا شروع کردیا۔ جس چارپائی پر بیٹھ کر وہ سامراجی نظام کے خلاف جذباتی تقریریں کرتا تھا  ،آجکل اسی چارپائی پر سنت نبوی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نظام حکومت کی  قصیدہ گوئی کرتا ہے۔

میرے دو چچا کے بیٹے احمدگل اور ناصرگل ان کی اسلامی باتیں بڑے ذوق شوق سے سنتے تھے۔ بالآخر دونوں نے کالج کو خیرباد کہہ کر ابا حضور کی   آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اعلان کر دیا کہ پڑھ کر کسی کی نوکری کریں، اس سے بہتر ہے کہ وہ سنت نبوی پر عمل کرکے بیوپار کریں، لہذا کل سے وہ کالج نہیں جائیں گے، بیوپار کریں گے۔ ابا نے کاروبار کا پوچھا تو دونوں بھائیوں نے جواب دیا کہ مویشیوں کی خریدوفروخت کریں گے۔

ابا نے کچھ پیسے دیئے تو دونوں بھائی گاؤں گاؤں گھوم کر مویشی خریدتے اور بنوں منڈی میں اچھا خاصا  منافع لیکر بیچتے ۔ ایک دن دونوں بھائی سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ کتنی شرم کی بات ہے کہ ہمارے گھر کھوتی تک نہیں ہے۔ روز گل زار جان نائی کی کھوتی کے پاس جاتے ہوئے اچھا نہیں لگتا اگر کسی نے دیکھ لیا تو خاندان کی ناک کٹ جائیگی کہ یہ دیکھو نائی کی کھوتی کیساتھ راز ونیاز کرتے ہیں۔ سو دونوں نے مل کر کھوتی خریدی۔ کھوتی گھر میں کیا آئی جیسے ان دونوں پر چار سو بہار آئی ہو۔ اب دونوں بھائیوں کا وقت بیوپار سے زیادہ گھر میں گزرنے لگا۔ ایک رات احمد گل باڑے میں کھوتی کیساتھ راز ونیاز کررہا تھا کہ گھپ اندھیرے میں باڑے کا دروازہ کھولنے کی آواز آئی تو احمد گل سمجھا کہ ناصرگل بھائی جان آئے ہیں تو نیچی آواز میں کہنے لگا۔
“بھائی کل آپ کی تین باریاں لگی تھیں ، کیا میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا تھا؟”۔
درواز پھر بند ہوگیا۔

تھوڑی دیر کے بعد پھر دروازہ کھولنے کی آواز آئی تو احمد گل نے غصے میں بڑے بھائی کو مخاطب کیا
“بھائی یہ آپ ٹھیک نہیں کررہے ہو۔ یہ کھوتی صرف آپ کی نہیں ہے۔ اس میں چار سو روپے میرے بھی لگے ہیں۔ ففٹی ففٹی کا شیئر ہولڈر ہوں”۔
دروازہ بند ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر دروازہ کھلنے لگا تو احمد گل کا پارہ چڑھ گیا، جھنجھلا کر اونچی آواز میں کہنے لگا۔
“اب بس ہوگیا بھائی جان کل ہی اس کھوتی کو بیچوں گا۔ میں اس کھوتی کو آپ کے پاس بھی رہنے نہیں دونگا”۔
یہ کہتے ہی لائٹ آن ہوگئی۔ احمد گل نے اوپر دیکھا تو سامنے ابا حضور کھڑے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سنا ہے پی ٹی ایم کے  باڑے میں فی الحال گھپ اندھیرا ہے۔ اور مشر محسن داوڑ نے نئی پارٹی کا اعلان بھی کردیا ہے۔
احمدگل کل روزی گل فلاسفر کو بتارہے تھے کہ باڑے میں بس لائٹ آن ہونے کی دیر ہے!

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply