گلگت بلتستان کی تاریخی و آینی حیثیت پر مکالمہ ہونا چاہیے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں ہونا چاہیے ،اور اگر ہونا چاہیے تو پھر پرنٹ میڈیا ،الیکٹرانک میڈیا سے لیکر سوشل میڈیا تک ، کوئی بھی اس موضوع پر بولنے کو تیار کیوں نہیں ہے ؟
میں نہ تو کوئی لکھاری ہوں ،نہ تاریخ دان ہوں اور نا ہی قانون دان، فقط ایک ایسے خطّے کا گم کردہ راہ فرد ہوں جو اپنی شناخت کی تلاش میں بھٹکتا پھر رہا ہے۔ بظاہر کہنے کو تو یہ علاقہ پاکستان ہی کہلاتا ہے ،مگر سبز کتاب کے کسی صفحے کے کسی سطر کے کسی لفظ میں بھی گلگت بلتستان کا نام ہمیں ڈھوندنے سے نہیں مل سکا ،ہوتا تو ملتا نہ ؟ کسی نے کہا کہ یہ جموں کشمیر کا حصہ ہے .ہمیں آزاد کشمیر اسمبلی کے ریکارڈ سے معلوم ہو ا کہ 28اپریل 1948 کو آزاد کشمیر نے گلگت بلتستان کو “بندوں” سمیت وفاق پاکستان کو ٹھیکے پر دیدیا ہے، جس کو معا ہدہ کراچی کہا جاتا ہے۔ اس ایگریمنٹ پر صرف پاکستان اور آزاد کشمیر کے نمایندوں کے دستخط موجود ہیں .جس علاقے کو دیا جارہا تھا وہاں کے نمایندوں سے پوچھنے تک کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ تب سے لیکر آج تلک 69 برس بیت گئے پاکستانی حکمرانوں نے اس جنت نظیر علاقےکو عملا کھلونا بنا کے رکھا ہوا ہے .یہ دنیا کا شاید واحد خطہ ہے جہاں پر نیووکو لو نیل طرز حکومت قایم ہے.جہاں پر پاکستانی سول و ملٹری بیوروکریسی کا ڈنڈا قانون اور آئین ہے۔
مگررکیے…ہم ہمیشہ سے ایسے راندہ درگاہ ہرگز نہ تھے۔ ہم وہ قوم ہیں جنہوں نے دوسری صدی عیسوی میں چینی فوج کو شکست سے دوچار کیا تھا ،جس کی ریاست کی عملداری پندر ھویں صدی کے عظیم علی شیر انچن کے زمانے میں لداخ سے لے کر چترال تک پھیلی ہوئی تھی .انیسویں صدی کے وسط میں جموں کشمیر کے معاہدہ امرتسر کے نتیجے میں ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے قبضے میں آنے کے بعد ڈوگروں نے اپنی ریاست کی سرحدوں میں اضافہ کرنے کی خاطرگلگت بلتستان پر بھی حملہ کردیا، جو اس وقت سنگین اندرونی خلفشار کا شکار تھی۔ کارگل کے راستے خود راجا کھرمنگ نے جو کہ راجا سکردو کا سگا بھانجا اور داماد تھا، ڈوگرہ وزیر زورآور سنگھ کو حملے کی دعوت دی۔ یوں 1840 میں گلگت بلتستان پر ڈوگروں کا قبضہ ہوگیا، جس کا خاتمہ یکم نومبر 1947 کو مقامی مجاہدین کے ہاتھوں آخری ڈوگرہ گورنر گھنسا را سنگھ کی گرفتاری اور اس کے بعد جاری رہنے والی چھ مہینے طویل جنگ آزادی کی صورت میں ھوا۔ تقسیم برصغیر کے نتیجے میں قایم ہونے والی ریاست پاکستان یہاں کے لوگوں کی امیدوں کا مرکز تھی جو ایک صدی سے زیادہ عرصے تک ڈوگروں کے ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہے تھے۔مگر پاکستانی پولیٹیکل ایجنٹ کی آمد اور ایف سی آر کے نفاذ کے ساتھ ہی ظلم و جبر کی داستان نئے مرحلے میں داخل ہوگئی۔ 1974 میں بھٹو صاحب نے ایف سی آر کا خاتمہ کرکے این اے کونسل کے الیکشن کرانے کا اعلان کردیا اورساتھ ہی اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کا خاتمہ کرکے مقامی لوگوں کے سینے میں خنجرگھونپ دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے اختیار کونسل نے اب ایک ہیجڑا نما صوبا یئ اسمبلی کا روپ دھارلیا ہے۔ اختیارات اب بھی وفاق پاکستان کے نمایندہ غیر مقامی فاقی وزیر ،امور کشمیر و گلگت بلتستان کے بابووں اور پاکستان سے ہی بھیجے گئے سول و فوجی بیورو کریسی کے پاس ہیں۔

اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ریاست جموں کشمیر گلگت بلتستان لداخ میں سیز فائر لائن کے دونوں جانب تین آزاد و خودمختار ریاستوں کاقیام ہونا تھا جس پر خود پاکستان اور انڈیا نے دستخط کررکھے ہیں۔ جس میں سے 24 اکتوبر 1947 کی آزاد کشمیر کی حکومت قایم ہے ،سری نگر میں 27 اکتوبر 1947 کی آزاد ریاست بھی قایم ہے،مگر یکم نومبر 1947 کو قایم ہونے والی اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ ریاست گلگت بلتستان حکومت کا گلا 16 نومبر کو گھونٹ دیا گیا . گلگت بلتستان کے عوام، خاص طور پر پڑھی لکھی نئی نسل ا س صورت حال سے سخت بے چین و مضطرب ہے. انکا ایک ہی مطالبہ ہے کہ انکو انکا بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حق حکمرانی واپس کیا جائے ،اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کو سرینگر اور آزاد کشمیر کی طرح بحال کیا جائے اور پاکستان یکم نومبر 1947 کی آزاد ریاست گلگت بلتستان کو فوری طور پر بحال کردے؛ تاکہ مسلہ کشمیر کا حل وہیں سے دوبارہ نکالا جاسکے جہاں سے یہ رکا تھا۔
Facebook Comments
گلگت بلتستان اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے میں بغیر تمہید ہی کےاپنی بات آگے بڑھانا چاہتا ہوں گو کہ یہ سب کو معلوم ہے کہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے اگر کسی کو معلوم نہیں بھی تھا تو چیف جسٹس آف پاکستان کے واضع احکامات کے بعد یہ بات سمجھ آئی ہوگی۔ اس متنازعہ خطے میں اسٹیٹ سبجیکٹ رول کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں گلگت بلتستان کے بارڈروں کو تجاوز کیا جارہا ہے اور گلگت بلتستان میں پاکستانیوں نے جگہ جگہ زمینیں خریدی ہوئی ہیںاس کے علاوہ وہ تمام پہاڑ جہاں جہاں معدنیات ہیں پاکستانیوں نے لیز پہ لے رکھا ہے جو سراسر یو این سی آئی پی کی قرارداد کی خلاف ورزی ہے۔