تہمت عشق/عمران علی کھرل

جب ہم مدرسے کے طالب علم تھے تو ہم بولتے بہت تھے۔ہماری اس بے حساب، بے مقصد اور بے ترتیب گفتگو کو سُن کر نجانے کب ہمارے اساتذہ کو خیال آیا کہ کیوں نہ اس سے تقریر کروائی جائے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی رہی ہو کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اچھے طالب علموں کا وقت اس طرف ضائع کیا جائے اس لیے ہمارا انتخاب کیاگیا۔ ہمیں چار صفحات پر مشتمل ایک تقریر لکھ کر دی گئی اور کہا گیا کہ اس کو ازبر کر لو۔

 

 

 

چونکہ ہم نصابی اور غیر نصابی دونوں طرح کی سرگرمیوں میں دوسرے ہم جماعتوں سے کوسوں پیچھے تھے۔اس لیے سوچا کہ تقریری مقابلہ جیت کر عزتِ آباء کا جنازہ نکلنے سے بچا لیں۔ اسی عزم کے ساتھ ہم نے تقریر کو چند دنوں میں طوطے کی طرح رٹ لیا اور پھر کلاس میں ہم جماعتوں کے سامنے کھڑے ہو کر خوب ریہرسل کی۔آخر مقابلے کا دن آیا اور ہم نے پورے سکول کے سامنے رٹی ہوئی تقریر اُگل ڈالی۔ باقی تو سب ٹھیک رہا صرف یہ حادثہ ہوا کہ جب ہم نے جوشِ  خطابت میں جنابِ  صدر کو مخاطب کر کے ان کی طرف دیکھا تو صدر ندارد۔ طالب علموں کا ایک قہقہہ اُبھرا اور عرق پشیمانی ہماری جبیں سے ٹپکنے لگا۔ دراصل ہم جب پریکٹس کر رہے تھے تو صدر صاحب سٹیج پر مقررکے دائیں جانب ہوتے تھے لیکن آخری دن سٹیج اس طرح ترتیب دیا گیا کہ صدر مقرر کے بائیں جانب براجمان تھے۔

خیر اس سانحے کے باوجود ہمیں تقریر کرنے کی اجازت رہی ۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ باقی مقرر ہم سے بھی بُرے تھے۔ گردشِ  ماہ و سال  جاری  رہی اور آخر کار ہم میٹرک پاس کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہماری اس کامیابی پر ہمارے اساتذہ اور والدین کو تعجب تو تھا ہی ، ہم خود بھی انگشت حیرت دانتوں تلے دبائے گھوما کرتے تھے۔ اس زمانے میں خدا کے فضل اور والدین کی محبتوں کے صدقے ہمارے پاس سب کچھ تھا سوائے عزت کے۔۔اس لیے ہم نے سوچا کہ افواج پاکستان میں کمیشن حاصل کر کے اس کمی کو پورا کیا جائے۔ اور اس طرح ہم جونیئر کیڈٹ کالج کراچی پہنچ گئے۔

خوش قسمتی سے یہاں ہمارے اساتذہ عالم لّسان بھی تھے اور اہل زبان بھی تھے۔ انہوں نے ہمارے اندر موجود فن خطابت کے جراثیم دیکھ کر ہماری خوب حوصلہ افزائی فرمائی۔ مجھ جیسے اردو زبان سے نابلد شخص کو جید علما ادب اور کبیر شعراءکے کلام سے روشناس فرمایا۔اسی زمانے میں ہمارے ایک استاد نے حضرت جوش ملیح آبادی کی یادوں کی بارات اس مشورے سے عنایت فرمائی کہ سب سے پہلے آخری باب پڑھنا۔ اس وقت ہماری عمر سولہ، سترہ برس  تھی، اور یادوں کی بارات کا یہ 1970 والا ایڈیشن تھا، جس کے آخری باب میں حضرت جوش نے اپنے معاشقے قلم بند کیے تھے۔ ہر چند کہ کتاب کا صرف دس فیصد حصہ سمجھ میں آیا لیکن حضرت جوش سے عشق ہو گیا اور یہ عشق مسلسل تیس، پینتیس سال چلتا رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے احباب جب ہمیں حافظِ  جوش کہتے تو ہمارے اندر فخر و مبہات کے چشمے پھوٹنے لگتے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ عشق بھی عشق مجازی کی طرح چند ماہ قبل میری ریاکاری کے سمندر میں غرق ہو گیا۔ دراصل ہوا یہ کہ ہماری ایک صاحب علم دوست صاحبہ نے ہمارے اندر یہ سحر پھونک دیا کہ ہم لکھاری بن سکتے ہیں، انہی کی ایماءپر ہم نے ایک مضمون لکھا اور ملک کے نامور ادیب و شاعر جناب خالد مسعود خان کی خدمت میں پیش کر کے اصلاح کی گزارش کی ۔انہوں نے کمال شفقت فرمائی اور پوری تحریر کو پڑھا، اور پرانے خلیق اساتذہ کی طرح بجائے تحریر کو زیر خط تنسیخ کرنے کے صرف یہ فرمایا ، کہ جب تک تم اپنے دماغ سے جوش کو نہیں نکالتے تمہاری تحریر قبولیت عام حاصل نہیں کر سکتی۔ وہ دن اور آج کا دن ہم مسلسل حضرت جوش کو اپنے دماغ سے نکالنے کی سعیِ لاحاصل کر رہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply