روہنگیا مسلمانوں پہ ظلم و ستم پر دل اداس ہے مسلمان بھائی ہونے کے ناطے ان سے دلی ہمدردی ہے اللہ ان کے مصائب ختم کرے۔مگر کیا آپکو معلوم ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی طرح پاکستانی ہونے کے دعویدار لاکھوں افراد بھی اسی طرح کےحالات کا شکار ہیں ۔۔۔۔وہ بھی کیمپوں میں رہتے ہیں,انہیں بھی کوئی ملک قبول کرنے کو تیار نہیں انہیں شہری ماننے کو تیار نہیں ۔۔۔شہری مانتے ہیں تو ملک میں بسانے کو تیار نہیں.ان کی ایک نسل ریفیوجی کیمپوں میں جوان ہو گئی نہایت کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔یہ کون لوگ ہیں؟
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کی بنیاد رکھی 1946 کے الیکشن میں مسلم لیگ کو 36نشستوں سے کامیاب کرایا قرارداد پاکستان پیش کرنے میں بنگالیوں اور بہاریوں کا بڑا ہاتھ تھا یو پی سی پی اور بہار کے مسلمانوں کو علم تھا کہ ان کے علاقے پاکستان میں شامل نہیں ہوں گے اس کے باوجود انہوں نے پاکستان کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔مولانا سلیمان ندوی مولانا مناظر حسین گیلانی اسی قوم کے فرد تھے۔یہ انڈیا کی ریاست بہار کے رہنے والے ہیں ان میں کچھ تعداد اتر پردیش سے آنے والے مسلمانوں کی ہے یہ اردو بولتے ہیں اور حقیقتاً نسلاً پاکستانی ہیں۔نظریہ پاکستان کے تحت ہندوستان کے کسی بھی کونے میں رہنے والا مسلمان پاکستانی ہے اگر وہ ہجرت کر کے آنا چاہے تو پاکستان اسے اپنا شہری تسلیم کرنے کا پابند ہے
1956 تک دونوں طرف کے باشندوں کو منتقلی کی اجازت تھی جبکہ یہ لوگ تو 1947 میں ہی پاکستان آ گئے تھے انہوں نے بہار سے متصل مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش میں نقل مکانی کی 1972 میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا بنگالیوں کی الگ ملک کی تحریک کے دوران ان لوگوں نے پاکستان کا ساتھ دیا۔بنگلہ دیش بننے کے بعد بھی بدستور پاکستانی کہلانے پہ بضد رہے ،بنگلہ دیش کے بانی اور صدر مجیب الرحمٰن نے انہیں بنگلہ دیش کی شہریت کی پیشکش کی مگر انہوں نے پاکستانی ہونے کے زعم میں وہ پیشکش ٹھکرا دی جس کے بعد ان پہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئیے آج بھی ان پہ جنگی جرائم کے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں اور پھانسیوں پہ لٹکایا جا رہا ہے ان کا جرم پاکستان کا نام لیوا ہوناہے۔بنگلہ دیش نے ان لوگوں پہ زمین تنگ کر دی ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔۔۔ا ن کو کیمپوں میں محصور کر دیا۔
پاکستان نے انہیں اپنا شہری تو تسلیم کیا مگر انہیں پاکستان میں لانے کی بسانے کی خاص کوشش نہ کی،بھٹو دور میں ایک لاکھ افراد کو پاکستان لایا گیا پھر آمرانہ دور میں 40 لاکھ افغانیوں کو تو پاکستان میں جگہ مل گئی مگر اصلی نسلی پاکستانی بدستور دیارِغیر میں بے یار و مدد گار کیمپوں میں سڑتے رہے۔ایم کیو ایم نے محصور پاکستانیوں کو ملک لانے کی آواز اٹھائی (آج ایم کیو، ایم بھی انکی حمایت سے ہاتھ کھینچ بیٹھی ہے)تو سندھی قوم پرستوں کی مخالفت کی وجہ سے 1993 میں نوازشریف حکومت نے پاکستانی بہاریوں کو پنجاب میں بسانے کے عزم کااظہار کیا 25 ہزار افراد کی کھیپ میانچنوں میں آباد کی گئی مگر اس کے بعد بوجوہ محصورپاکستانیوں کو وطن نہ لایا جا سکا،یہ محبِ وطن پاکستانی آج بھی پاکستان کے شہری ہیں اور اپنے ملک میں آمد کے منتظر ہیں۔روہنگیا مسلمانوں کی طرح بنگلہ دیش انہیں رکھنے کو تیار نہیں اور پاکستان قبول کرنے کو تیار نہیں۔امت امت کرنے والوں جہان بھر کے مسلمانوں کے غم میں گھلنے والے، شام فلسطین کشمیر اور روہنگیا کے غم میں دہائی دینے والو۔۔۔اپنے گھر کی خبر تو لو،آپ کے یہ پاکستانی مسلمان بھائی آپ کی تائید و نصرت کے منتظر ہیں۔کیا ہم ان کا ہاتھ تھام سکتے ہیں مسلمان ہونے کے ناطے پاکستانی ہونے کے ناطے انسان ہونے کے ناطے..؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں