قائد اعظم کے اصول اور ہمارا کردار۔۔سید عارف مصطفیٰ

اکثر کہا جاتا ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے ۔۔۔
یہ بات تاریخ اور مخصوص عملی حقائق کی رو سے تو درست سہی مگر اخلاقی و معاشرتی طور پہ قطعی غلط ہے اور اسلامی تعلیمات میں تو اس طرح کے بے لگام طرز عمل کی مطلق گنجائش ہی نہیں ہے- جبکہ تاریخی طور پہ مغربی اقوام اور دیگر انسانی معاشروں میں سے اکثر نے اس محاورے کو اپنی حکمت عملی کا محور بنائے رکھا ۔ یہ الگ بات کہ خود اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں متعدد بادشاہوں اور اہل سیاست نے بھی حصول مطلب کے لئے اسی محاورے سے استفادے سے گریز نہ کیا – اس لئے تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ بات باآسانی کہی جاسکتی ہے کہ دنیا میں بہت ہی کم ایسے لوگ ہیں کہ جنہوں نے شدید مشکلات کے باوجود اپنا مقصد پانے کے لئے بھی اخلاقیات کا دامن پکڑے رکھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح ایسی ہی معدودے چند بلند پایہ شخصیات میں سے ایک تھے – ہم اہل پاکستان ہر برس کسی نہ کسی سطح پہ انکا یوم پیدائش اور یوم وفات منانا تو یقیناً نہیں بھولتے اور انکی یاد میں پروگرام اور تقریبات بھی منعقد کرتے رہتے ہیں۔ ارباب حکومت و سیاست ہوں یا اہل فکر و نظر سبھی قائداعظم کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں اور ان کے حوالے دینے کو ایک اچھی تقریر کا لازمی سمجھا جاتا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم واقعی قائد کے سچے پیروکار ہیں اور ان کی زندگی جن اصولوں اور طرزعمل کے تحت گزری کیا ہم اپنی زندگی کے معمولات میں ان اصولوں کو اپناتے ہیں۔
ہم نے یہاں ذیل میں اس سلسلے میں انکی زندگی کی کچھ جھلکیوں اور ان سے منسلک چند سوالات کی مدد سے اپنے معاشرے اور قائداعظم کے باہمی تعلق کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور ہم چاہیں گے کہ آپ ان سوالات کا ایماندارانہ جواب دینے کی کوشش کریں اور اپنے عزیزوں رشتہ داروں اور دوست احباب سے بھی ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے میں ہماری مدد کریں کیونکہ انکے جوابات ہی کی روشنی میں اصل صورتحال واضح ہوسکے گی کہ ہم اپنے عظیم قائد سے کتنی عقیدت رکھتے ہیں اور عملی طور پہ ہم نے انہیں کس حد تک اپنی زندگیوں میں داخل کیا ہے۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے محبوب قائد نے اپنی پوری زندگی میں
1- ہمیشہ وقت کی پابندی کی ،
2- کبھی قانون نہیں توڑا ،
3- ایک بار بھی رشوت دی نہ لی ،
4-اپنے مذہبی رجحانات کی نمائش سے گریز کرتے رہے ،
5- وعدے کی پابندی کو شعار بنایا،
6- کسی مرحلے پہ بھی کوئی سمجھوتہ نہیں توڑا ،
7- ناجائز پروٹوکول لینے سے اجتناب کیا ،
8- کبھی سرکاری رقم نہیں کھائی ،
9- ٹیکس بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی ،
10- اپنی آمدنی اور ذرائع آمدنی پوشیدہ نہیں رکھے ،
1- اصولوں پہ سمجھوتہ نہیں کیا ،
12- کبھی کسی کا حق نہیں مارا ،
13- ذاتی و سیاسی زندگی میں کسی کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی ،

Advertisements
julia rana solicitors london

ان سوالات کو پڑھ کر آپ ذرا اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہو جائیں اور اپنے اندر موجود احساس کی گہرائیوں میں جھانکیے اور ذرا ایمانداری سے یہ بتائیے کہ ہمارے ملک میں قائد اعظم کہاں رہتے ہیں ۔اور خود آپ میں بابائے قوم کی کون کونسی خوبیاں موجود ہیں ؟؟ اور یہ جواب دیتے ہوئے اور اسکے بعد بھی یہ بات مطلق نہ بھولیے گا کہ آپ اور ہم جس عظیم بابائے قوم کی توصیف بیان کرتے نہیں تھکتے وہ اقوام و ملک  کی تاریخ میں ایک ایسی منفرد شخصیت تھے کہ جنہوں نے آزادی کی جنگ جیسی بڑی لڑائی جیتنے کے لئے بھی کبھی راہ مستقیم کو ترک نہیں کیا حالانکہ اس جنگ میں ان کے مقابل انگریز اور ہندو دونوں‌ ہی تھے بلکہ درحقیقت مسلمانوں کی مخالفت کے لئے اندر خانے ان دونوں کا آپس میں شدید گٹھ جوڑ بھی تھا ۔ مجھے یہ بات کہنے میں ذرا بھی جھجھک نہیں کہ جب تک آپ اور ہم ان سوالات کے مثبت جواب دینے کے قابل نہیں ہوتے نہ ہماری انفرادی ترقی ممکن ہے اور نہ ہی اجتماعی ۔ آئیے ہم قائداعظم کی تحسین و سپاس کی مصنوعی مالا جپنے کے بجائے انکے اصولوں پہ عمل پیرا ہوکر اپنی زندگیوں کو قابل ستائش بنالیں اور حقیقی طور پہ کامیاب کرلیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply