پُھلاں دا سہرہ/انجینئر ظفر اقبال وٹو

واپڈا کالونی سے نکلتے ہی مغربی دیوار کے بعد رن وے شروع ہوجاتا جہاں ہم اکثر واک کے لئے نکل جاتے۔ جس دن کسی جہاز نے اترنا ہوتا توراستے میں غلام رسول چوکیدار مل جاتا جو اپنی سہراب کی سائیکل چلاتے ہوئے رن وے کو کلیئر کروا رہا ہوتا۔ رن وے کے اطراف کانٹے دار تاروں کی معمولی سی باڑ تھی جو انسان اور حیوان آسانی سے پار کرلیتے۔

غلام رسول بتاتا کہ آج کہاں سے فلائٹ آ یا جا رہی ہے۔ کبھی کبھار ہم ائیرپورٹ کی عمارت تک چلے جاتے جو دو تین کمروں اور ایک برآمدے پر مشتمل سادہ سی عمارت تھی جس کے اندر واحد دکان ڈی آئی خان کے مشہور قدیمی سوہن حلوے والوں کی تھی کو اور فلائٹ کے وقت دوتین گھنٹوں کے لئے کھلتی۔ ائیرپورٹ کی پارکنگ میں ایک آدھ ٹیکسی اور دو تین سائیکل رکشا موجود ہوتے۔ کچھ لوگ سائیکل پر بھی اپنے پیاروں کو لینے آئے ہوتے۔

کبھی کبھار شام کو واپڈا کالونی سے ڈیرہ شہر نکل جاتے۔ توپاں والا بازار سے چوگلہ تک مارچ کرتے ، کتابوں کی دکان کھنگالتے ، محلہ روشن چراغ میں اپنے دوست کو ملتے یا زیر تعمیر اسٹیٹ لائف پلازہ چلے جاتے جوکہ ایک سات منزلہ عمارت تھی اور اس وقت ڈی آئی خاں کی سب سے بلند عمارت بننے جارہی تھی۔

کسی دن بس اسٹینڈ سے  دریائے سندھ کو نکل جاتے جہاں مڈوے ہوٹل پر بیٹھ کر سندھ کے پانیوں کو سمندر کی طرف جاتا دیکھتے رہتے۔سامنے ایس ایس جہلم بحری جہاز کھڑا ہوتا عہد رفتہ کی یاد دلاتا جب دریا پر پل موجود نہیں تھا تو ایس ایس جہلم کی ڈیرہ اور بھکر دریا خان کے درمیان دریائے سندھ پر حکومت تھی۔ میں اس جہاز کو دیر تک دیکھتا رہتا اور سوچتا کہ اس نے کس کس ضرورت مند کو دریا کے ائک کنارے سے دوسرے کنارے پہنچایا ہوگا۔کبھی کبھی ہمارے ساتھ نہر کے منصوبے پر کام کرنے والے فارنرز بھی مڈوے کی شام انجوائے کرتے۔

یوں تو امریکیوں کے لئے الگ رہائشیں مختص تھیں لیکن وہ کالونی میں اکثر واک کرتے مل جاتے۔ ان میں سے ہمارے ڈیزائن ہیڈ مسٹر کارلوس بہت اچھے شخص تھے۔ انہیں یہ علاقہ بہت پسند تھا اور وہ نہر بننے کے بعد یہاں زمین لے کر کاشتکار بننے کے خواب دیکھتے رہتے۔ اکثر سائٹ وزٹ میں وہ زمینوں اور فصلوں کو دیکھ کر اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے۔ دوسری دلچسپ شخصیت جان سٹاوٹ تھے جو نہر کی کنسٹرکشن کے ہیڈ تھے اور زندہ دل انسان تھے خوب گپ شپ لگاتے۔ البتہ کنسٹرکشن پراجیکٹ مینیجر مسٹر ڈیوڈ بوگن ایک خاموش شخص تھے۔

ویک اینڈ پر اگر کوئی گاڑی کسی فارنر کو لے کر اسلام آباد جارہی ہوتی تو میرے مزے ہوجاتے اور میں اس میں سوار ہوکر کندیاں اتر جاتا ۔ تاہم راستے میں “ڈھکی “سٹاپ پر ہر فارنر ضرور اترتا اور ڈھکی کی قسم قسم کی تازہ کھجوروں سے گاڑی کی ڈگی بھرتا۔ ڈھکی میں کھجوروں کے باغ اگست میں جوبن پر ہوتے اور ہر قسم کی کجھوریں اور ڈوکوں کے سڑک کے اطراف ڈھیر لگے ہوتے۔

کالونی سے نکل کر چند کلومیٹر بعد سڑک ساتھ نہر شروع ہوجاتی جو اگلے ستر اسّی کلومیٹر سڑک کے ساتھ ساتھ ہی چلتی ہوئی چشمہ بیراج تک آتی۔سوموار کو واپسی ہوتی تو چشمہ بیراج سے سنگھر گاؤں تک سڑک کے اطراف سبزہ ہی سبزہ اور نہر ہوتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تھا اس وقت کا ڈیرہ جسے علاقے والے “پھلاں دا سہرہ” کہتے، جہاں امن تھا، سکون اور احترام تھا۔ چشمہ رائٹ بنک کینال یا سر آربی سی کے تیسرے مرحلے کی تعمیر ہورہی تھی اور یہ میرے کیرئیر کا دوسرا پراجیکٹ تھا۔ ہماری ٹیم سائٹ کیمپ آفس ڈیرہ میں تعنیات تھی (2000-1998)۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply