میں پشاور میں پیدا ہوا وہیں تعلیم حاصل کی، پشتو اردو بولتے رہے۔ کراچی پہنچے تو اردو میں جوہری تبدیلی آ گئی۔”ارے دادا” سے لے کر “آجو باجو” اور “ہٹو ڑے” سے “قبلہ تشریف رکھیں” تک سارے رنگ مستعار لئے۔مقام معاش پر پنجابی بولنے والوں کی اکثریت تھی۔دایاں ہاتھ کب سجے پاسے ہوا یاد نہیں، تھوک، پیک اور اُگال کا فرق بھی یہیں کراچی میں معلوم ہوا۔
یہاں محرم کی راتوں میں گھوٹا بھی لگایا، نوحوں کا سوز بھی سمجھا۔ ان کی لفاظی کی تعریف بھی کی اور ایک واقعے کے ہزار پہلو پہ داد عیش بھی دی۔ اہل تشیع دوست ملے، ذوالجناح چھوا لیکن تھوڑی سی غیرت باقی تھی تو تازیہ ٹھنڈا کرنے نہیں نکلے۔سپاہ والوں سے راہ و رسم بڑھی تو ناگن چورنگی والے مرکز پہ آنا جانا بڑھ گیا۔ حق نواز کا چیخنا چلانا پھر بھی سماعتوں کو گوارا نہ ہوا طالب جوہری کی ادائیں تب بھی لطف دیتی تھی گو کہ اعتقاد سے آکڑا چھتیس کا ہی تھا۔
عجب قصہ یہ ہوا کہ اقبال سیالکوٹی تب سے ازبر تھے جب مسکن پشاور تھا۔باہو، فرید اور بلھے شاہ کو کراچی پہنچ کر پڑھا تھا۔یہ درس نظامی کے ظالم مولویوں نے ابوالکلام اور غالب بھی سمجھا دیا۔ ان کے بگڑے مولویوں نے شوق دلایا تو شرح عقائد اور دورہ حدیث پڑھ ڈالے۔ یہ رنگ لینے کی برکتیں تھیں کہ جسے چھوا اسے اپنا لیا۔جنہیں چھوا انہیں اپنا بنا لیا۔مزے کی بات یہ رہی کہ جس انداز فکر کے حامل کے ساتھ بیٹھے اسے لگا “اپنا بندا ہے”۔بقول جون ایلیا کے،
مانا مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی،
لیکن یقیں سبھی کو دلاتا رہا ہوں میں۔۔
اس سارے قصّے کا نقد فائدہ یہ ہوا کہ طبیعت میں رواداری پیدا ہوئی اور سبھی کا انداز فکر سیکھا۔ سیکولر اور لبرل دوست ملے،آہا۔۔کیا خوب لوگ ہیں ۔ آؤ چاؤ اور رکھ رکھاؤ سے بھرپور ہیں اور فرد و سماج کے رابطے سمجھا گئے ہیں۔ انفرادی طور پر سب سے زیادہ خوش اور مطمئن یہی لوگ ہیں ملحدین ہر جگہ موجود ہیں بینکوں میں مسجدوں میں زیارات میں اور کبھی کبھی ہمارے اپنے گھروں میں۔۔ بس ڈھونڈنے سے ملتے ہیں، بہت خاموش رہتے ہیں۔
اپنا خوش رہنے کا فنڈا بہت آسان ہے، یہ سبھی طرح کے خیالات رکھنے والے اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔سب کی اپنی سچائیاں ہیں۔ سب خود کو قائل رکھے ہوئے ہیں، میں سب کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہوں سبھی کو ان کے احترام میں درست مانتا ہوں، موازنہ کر سکتا ہوں لیکن اسے پیش نہیں کرتا، جو کھلونا جہاز کے ساتھ کھیل کر خوش ہے اسے اصلی جہاز دکھا کر بے مزہ کرنا مجھ پر لازم نہیں رہا، البتہ کوئی خود پوچھے تو بتانے میں ہرج نہیں۔
سٹیج پر تماشے جاری ہیں. پاپ کورن لے کر بالکونی والی کرسی پر تشریف فرما ہو جائیں، سب کا نظارہ کریں۔ رائے دہندہ بن کر بدمزہ نہ ہوں، تماشے کا شوق رکھیں دل برا نہ کریں۔فطرت بہت ظالم ہے اس ظلم کا نظارہ کرتے رہیں۔۔ صدیاں گزر گئی ہیں کہ خدا نے بھی غیبی آوازیں دینا بند کر دی ہیں، ہر معاملے پر اپنی رائے مت دیں زندگی کا سکون اسی میں ہے، سب سے سیکھیں سب کی سنیں، ماحول ٹھنڈا ہوتا دیکھیں تو ایک شُرلی چھوڑ کر دوبارہ خاموش ہونے کا مزہ چکھ لیں، یونان کے خداؤں کے بیچ ایک انسان کی جگہ آج بھی خالی ہے وہاں بیٹھیں، اس کرسی پر بیٹھنے والے سے کوئی پرسش نہیں. موت کا خوف خوشی کا دشمن ہے اس لئے chill کریں، من کو شانتی نہ ہو تو میرے فارغ وقت میں مجھ سے رابطہ کریں۔۔یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں