• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا وزیرستان میں ایک اور فوجی آپریشن ہونے جارہا ہے؟(قسط 1)۔۔عارف خٹک

کیا وزیرستان میں ایک اور فوجی آپریشن ہونے جارہا ہے؟(قسط 1)۔۔عارف خٹک

شمالی وزیرستان میں جہاں امن کے دعوے کئے جارہے ہیں وہاں گاہے بگاہے  آج بھی فوجی قافلوں پر حملے، سڑک کنارے دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کی خبریں نکل آتی ہیں۔ آخری اطلاعات تک رزمک میں ایک فوجی قافلے پر ریموٹ کنٹرول دھماکے میں ایک افسر سمیت پانچ جوان جاں  بحق ہوگئے ہیں۔ حیرت اس بات کی ہے جہاں افغانستان کیساتھ چوبیس سو کلومیٹر طویل باڑ لگائی جارہی ہے۔ عرصہ چودہ سال سے براہ راست فوجی آپریشن ہورہے ہیں۔ وزیرستان کو اسلحہ سے پاک کردیا گیا ہے۔ وہاں اس قسم کی تشدد آمیز کاروائیاں ہم جیسے لوگوں کو حیرت میں ضرور ڈال رہی ہیں۔ ہمارے اس خدشے کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ وزیرستان میں ایک اور فوجی آپریشن ہونے جارہا ہے؟۔ اس لئے بغیر کسی فوجی پروٹوکول یا کسی مقامی سیاسی رہنما کے اپنی مدد آپ کے تحت سترہ سو کلومیٹر طویل فاصلہ طے کرکے میں وزیرستان میں داخل ہوگیا۔

شمالی وزیرستان میں داخل ہوتے ہی جہاں پہلے آپ کا استقبال کرخت صورت فوجی کرتے تھے اور مشکوک انداز میں  آپ سے تفتیش کرتے ،اب وہاں مقامی فرنٹیئر کور کے دستوں نے چیک پوائنٹس سنبھال لئے ہیں۔ جو خود بھی پشتون ہیں اور نہایت نرمی اور دوستانہ انداز سے  آپ سے آئی ڈی کارڈ کا پوچھ لیتے ہیں۔ فوج اب تقریباً  بیرکوں تک محدود ہوگئی ہے۔

میرا پہلا پڑاؤ  میرعلی بازار سے متصل گاؤں موسکی تھا جہاں میرا بچپن گزرا تھا۔ میرعلی چوک اب مکمل طور پر تبدیل ہوا ہے۔ وہاں نئی دکانیں اور شاپنگ پلازے بنے ہوئے ہیں۔ ہر طرف چنگ چی رکشوں کی بھرمار تھی۔ خاصہ دار فورس جو مقامی طور پر بھرتی شدہ غیر تربیت یافتہ عملے پر مشتمل تھی اب باقاعدہ خیبر پختونخو ا  پولیس کا بیج استعمال کرکے خود کو ریزرو پولیس  کے نام   سے متعارف کروا رہی  ہے۔ خاصہ دار فورس کا عملہ اب بھی غیر تربیت یافتہ ہے بلکہ غیر منظم ہے۔ کندھوں کو چھوتے لمبے بال، ٹوپیوں میں سجائے گئے گلاب کے پھول اور کندھوں پر لٹکتے کلاشنکوف  آپ کو یہ باور کروانے  کے لیے  کافی ہیں  ،جیسے تحریک طالبان کے فدائی کارکنان کو زبردستی یونیفارم پہنایا گیا ہو۔

میرعلی بازار کی گہما گہمی سے نکل کر اپنے بچپن کے دوستوں آصف داوڑ کیساتھ جابیٹھا اور پرانی یادیں تازہ کیں۔

لوگوں سے بات چیت کر کے خود کو سیاسی طور پر اپڈیٹ کیا کہ جب سے پی ٹی ایم بنی ہے ، حقوق کی باتیں ہورہی ہیں۔ اس تحریک سے ان لوگوں کی زندگی پر کیا اثر پڑا ہے۔ لوگوں کی دلچسپی نہ تو پی ٹی ایم سے تھی نہ فوج کی ترقیاتی کاموں سے۔ بلکہ اکیس کروڑ پاکستانیوں کی طرح ان کی دلچسپی صرف اس بات سے تھی کہ بجلی ملے، روزگار ملے اور امن ہو۔ کافی لوگوں سے بات کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پی ٹی ایم کے آنے سے ان کے حوصلے بلند ہوگئے تھے کہ اب مقامی طور پر حقوق اور ان کی بات ہوگی مگر جذباتیت نے روایتی ماحول کو مزید خراب کرڈالا۔ میرعلی اور ملحقہ علاقوں کا گلہ وہی تھا جو ہم سب کا اپنے منتخب عوامی رہنماؤں سے ہے۔۔ کہ اسلام آباد کی چکاچوند روشنیوں نے ان کو خود سے اور ہم سے یکسر فراموش کردیا ہے۔

محسن داوڑ یہاں سے پشتون تحفظ تحریک کے نام پر منتخب ہوئے ہیں۔ لوگوں کو ان سے بڑی امیدیں تھیں مگر سب خاک میں مل گئیں۔ پی ٹی ایم کی سیاست کا محور کراچی کی  ایم کیو ایم کے طرز پر رواں دواں ہے۔ گالی اور گولی کے بغیر بات کرنی تقریبا ًناممکن ہے۔ کہنے والے یہاں تک کہتے ہوئے پائے گئے کہ تحریک ایک سیاسی ڈرامہ ہے مگر ڈر اس بات کا ہے کہ وزیرستان اس 2005 والی  پوزیشن پر واپس نہ چلا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

فوج کی زیادتیوں پر بات نہ ہو تو ہمارا یہ سفر ادھورا رہے گا۔ آپریشن کے دوران غیر ضروری طور  پر مکانات کو مسمار کیا گیا اور املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ بلکہ  آج بھی کسی سڑک کنارے دھماکے کے بعد مقامی رہائشیوں کو گرفتار کرکے ان سے ملزمان کا پوچھا جاتا ہے اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ آج بھی انٹیلیجنس نیٹ ورک کی کمزوریوں کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شاید فوج کے ہاتھوں اٹھائی گئی  ہزیمتوں کی جہ سے آج بھی شدت پسندی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہے۔ اس پر ہم مزید بات کریں گے اس لئے اب نکلتے ہیں اگلے پڑاؤ کی طرف۔ ہمارا اگلا پڑاؤ ہے شمالی وزیرستان کا سب سے خوبصورت علاقہ رزمک۔۔
جاری ہے

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply