بروقت علیحدہ ہونے کے فوائد/یاسر جواد

گھٹیا ہندوؤں نے اپنے حصے کا ملک ملنے کے  بعد بھی بے غیرتیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1950ء سے 1967ء تک آنے والے صدور کا مختصر ذکر بہت سے راز سمجھا دے گا۔ کم بختوں نے رامائن اور مہابھارت کو ماننے والے ایک راجندر پرشاد نامی ہندو کو صدر بنا دیا جس نے کوئی ایک ہزار صفحے پر محیط آپ بیتی سمیت نصف درجن کتابیں لکھیں۔ وہ اوپر تلے دو بار صدر رہا۔ ہندو بہت بے وقوف ہیں۔ کسی بیوروکریٹ کی بجائے ایک پڑھنے لکھنے والے شخص کو صدر بنایا، وہ بھی دو بار؟ اور اُس کی آپ بیتی اردو میں بھی ترجمہ ہو گئی! ویسے کافی اچھی تھی۔

ابھی ہم یہاں صدر ایوب کے دور کی اُڑان دیکھنے ہی والے تھے کہ اُنھوں نے ایک فلسفی ایس رادھا کرشنن کو صدر بنا دیا، حالانکہ وہ ویدانتی تھا، یعنی ویدوں کی حتمی اتھارٹی سے منکر اور اُپنشدوں کو ترجیح دینے والا صوفی۔ کیا ’’نظریۂ ہندوستان‘‘ ہل کر نہیں رہ گیا ہو گا؟ ایک عمدہ کتاب ’’ہسٹری آف فلاسفی: ایسٹرن اینڈ ویسٹرن‘‘ بھی کسی رادھا کرشنن نے ترتیب دی ہے۔ ہو سکتا ہے یہی کم بخت ہو۔ ویسے فلسفہ کی تاریخ پر یہ نہایت عمدہ کتاب ہے۔ رادھا کرشنن ہندوستانی فلسفہ اور تاریخ و تہذیب پر اور بھی فضول کتب لکھتا رہا۔
نظریۂ ہندوستان کے ساتھ ساتھ نظریۂ پاکستان پر کیا گزری ہو گی جب معلم ذاکر حسین کو صدر بنا دیا گیا جو شیخ الجامعہ ملیہ اسلامیہ بھی رہا۔ اُس نے اردو میں تعلیم پر متعدد کتب لکھیں۔ اور تو اور، اُس نے کئی شان دار تراجم کیے اور بچوں کے لیے کتب لکھیں۔ یہ لوگ حکومت کرنا کیا جانتے ہوں گے۔۔ احمق!

ایک اور صدر وینکٹ گری بھی ہندوستانی صنعت میں مزدوروں کے متعلق کتاب لکھ گیا۔ قطعی فضول اور لاحاصل شخص ہو گا۔ بھٹو کے آنے تک یہی صدر تھا، اور مشرقی پاکستان بھی اسی کے سامنے الگ ہوا۔ 1977ء میں دوبارہ ایک مسلمان فخر الدین علی احمد کو صدر بنا دیا گیا۔ پھر وینکٹ رامن اور شنکر دیال شرما نے بھی پانچ پانچ صدارت کی اور نہ ہمارے صدر ضیا سے کچھ سیکھا، نہ صدر اسحاق سے۔ اور کچھ نہیں تو صدر لغاری اور صدر تارڑ سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔ وینکٹ رامن اور شنکر کی لکھی ہوئی کتابوں کے عنوان پڑھ لیں، کافی باتوں کا اندازہ ہو جائے گا۔

بونگے سے نظر آنے والے عبدالکلام کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔ وہ ہمارے پرویز مشرف کے جاہ و جلال کے مقابلے میں تو دال سویاں بیچنے والا ہی لگتا ہے۔ چند ہی سال پہلے کی بات ہے کہ ایک ہندوستانی صدر پرناب مکرجی بھی آیا، اور آٹھ دس کتابیں وہ بھی لکھ گیا۔ البتہ مجھے یقین ہے کہ وہ ’’رواداری‘‘ نامی چیز اور ’’سیاست بازی‘‘ میں چودھری شجاعت کا مقابلہ بھی نہ کر پاتا، عمران کے تو وہ پیروں کی دھول برابر ہے۔ اب کوئی دروپدی نامی گھٹیا ذات کی عورت صدر ہے۔ شکر ہے کہ ہم نے وقت پر علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں بس سائفر، چودھری شجاعت کی خلائی گفتگو، شاہزیب خانزادہ کی بے کار تیزی اور ایم کیو ایم والوں کی سفاک تمیز داری چاہیے۔ ہمیں کیا لینا دینا ان راجندر پرشادوں، ذاکر حسینیوں، پرناب مکرجیوں اور رادھا کرشننوں سے!

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply