یہ مستقبل کی صرف ایک خیالی تصویر ہے،لیکن اس میں سوچنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
یہ سال 2033 ہے۔
ایک طرف انڈیا کے زیرانتظام کشمیر ہے۔
انڈیا دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے(پہلی بڑی معیشت چین ہے)۔
یہاں کے کشمیر میں مسلح علیحدگی پسند شورش پر پندرہ سال پہلے ہی قابو پالیا گیا تھا۔
اب اس سے اگلے مرحلے پر وہاں تعمیر و ترقی کا دور چل رہا ہے۔ وہاں خوشحالی لا کر لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وہاں کے لوگ اپنے نمائندے جمہوری طریقے سے چُن رہے ہیں۔
بلدیاتی ادارے اپنا کام بہترین طریقے سے کر رہے ہیں۔
سبھی شہریوں کو مقامی عدالتوں سے تیز رفتار طریقے سے انصاف مل جاتا ہے۔عام لوگوں کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں علاج مفت ہے۔
سبھی کے بچوں کے لیے سرکاری اداروں میں مفت تعلیم کا انتظام ہے ۔جہاں ساتھ مفت کھانے ،یونیفارم اور دیگر تعلیمی ضروریات کی فراہمی کو بھی یقینی بنا دیا گیا ہے۔
عالمی میعار کا انفراسٹرکچر قائم کر دیا گیا ہے۔بہترین سڑکوں کا جال بچھ چکا ہے۔ ریاست میں تین انٹرنیشنل ائیرپورٹ بن چکے ہیں۔جہاں پر دنیا بھر کی فلائٹس دستیاب ہیں۔خوبصورت پہاڑی علاقوں میں جگہ جگہ عالمی میعار کے صاف ستھرے ریستوراں کیفے اور ہوٹل کھل چکے ہیں ۔
امیر خلیجی ملکوں کی سرمایہ کاری کی بدولت سری نگر اب اسکائی اسکریپرز کا شہر بن چکا ہے۔جہاں خوشحال عرب ملکوں کے باشندے اپنے خاندان کے ساتھ اپنی گرمیاں گزارتے ہیں۔ہائی ویز پر ہر سو کلومیٹر کے بعد اسپیشل اکنامک زون بنا دیے گئے ہیں۔ جہاں سے کشمیری سیب،میوہ جات اور ان سے بنی مصنوعات اور کشمیری شالیں دنیا بھر کو ایکسپورٹ کی جا رہی ہیں۔اس خطے کے لوگوں کو تیز رفتار سستی ٹرین کے ذریعے سے پورے بھارت تک سفر کرنے کی آزادی ہے۔ان کے بچوں کو عالمی میعار کے تعلیمی اداروں جیسا کہ آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم تک رسائی حاصل ہے۔جہاں پر ان کے لیے معقول تعداد میں وظائف کا انتظام ہے۔ہر شہری کے لیے تین سو یونٹ تک بجلی فری ہے۔ تیز رفتار انٹرنیٹ کی سہولت پوری ریاست میں مفت دستیاب ہے، ان کے پاس جو پاسپورٹ ہے اس پر دنیا کے اسّی ممالک میں ویزا فری انٹری کی سہولت میسر ہے۔بھارت کے غریب علاقوں جیسا کہ آسام ،بہار اور بنگال سے لوگ مزدوری کرنے کشمیر میں آنے لگے ہیں۔
یہاں کے باشندوں کو چار لاکھ روپے میں شاندار اور جدید نئی گاڑی مل جاتی ہے اور تین لاکھ روپے میں وہ حج کے مبارک سفر پر جا سکتے ہیں۔ایک امریکی ڈالر چالیس بھارتی روپے میں مل جاتا ہے۔اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے دنیا کی سب سے بڑی سلیکان ویلی ،سب سے بڑی ٹریکٹر و موٹر کار انڈسٹری،الیکٹرانک،ایرواسپیس اور دنیا کی سب سے بڑی ادویہ ساز و کیمیکل انڈسٹری کے دروازے ہمہ وقت کھلے ہیں ۔جہاں پر وہ اپنے لیے باعزت روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔کیونکہ انڈیا اب کسی امیر ملک یا بین الاقوامی مالیاتی ادارے کا محتاج نہیں بلکہ ان مالیاتی اداروں کا ڈونر ہے۔اس لیے اسے کسی کے دباؤ میں آ کر اپنے لوگوں پر ناروا ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں رہی۔
بلکہ بہت سے شعبوں میں جیسا کہ زراعت و چھوٹے پیمانے کی صنعت میں، وہ اپنے شہریوں کو مفت مالی معاونت دے رہا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر ہے۔وہاں پر کسی غیر معمولی ترقی کا دور شروع نہیں ہو سکا۔کیونکہ وہاں پر جمہوریت نہیں ہے۔بلکہ ایک ملکی سکیورٹی ادارے نے سبھی جگہ پر اپنا سخت کنٹرول قائم کر رکھا ہے۔ لوگوں کے بنیادی حقوق دائمی طور پر معطل ہیں۔روز نئے تجربے ہوتے ہیں۔نت نئی سیاسی پارٹیاں اور حکومتیں بنائی اور گرائی جاتی ہیں ۔یہاں کے لوگوں کے مستقبل کے فیصلے اس ملک سے دور بیٹھے ہوئے کچھ ایسے لوگ کرتے ہیں۔جو سالہا سال سے کشمیر تو دور کی بات کبھی پاکستان بھی آئے ہی نہیں،بس سکیورٹی والوں کے منظور نظر ہیں۔ملک عالمی مالیاتی اداروں اور امیر دوست نما ملکوں کا گھٹنوں تک مقروض ہے۔اس لیے ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے تمام بنیادی ضروریا ت زندگی پر جان لیوا ٹیکس عائد ہیں۔
انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔سڑکیں ناپید ،جبکہ بجلی اکثر تعطل کا شکار اور جلانے والی گیس کی سخت کمی رہتی ہے۔لوگ جنگلاتی لکڑی کاٹ کاٹ کر چولہے جلا رہے ہیں۔
امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے۔اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری عام ہے۔ اسی وجہ سے کوئی سرمایہ کار یہاں سرمایہ لگانے کو تیار نہیں۔ملک کی کرنسی اپنی قدر کھو چکی ہے ڈالر پندرہ سو روپے کا ہو چکا ہے۔اس لیے بیرون ملک اس کرنسی کو لین دین کے لیے کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں۔پٹرول ،ڈیزل آٹے اور چینی کی راشن بندی کر دی گئی ہے۔ان اشیا کی فراہمی کے مراکز پر میلوں لمبی لائنیں لگی نظر آتی ہیں۔لوگوں کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے۔
ملک میں عدالتی نظام ختم کر دیا گیا ہے ۔سکیورٹی ادارے کے مقرر کردہ فیصلہ کار ہی ہر مقدمے کا فیصلہ کرتے ہیں کسی بھی وقت کسی بھی شہری کو شک کی بنیاد پر اٹھا کر غائب کیا جا سکتا ہے۔اس کا گھر مسمار کیا جا سکتا ہے اور اس کا کاروبار بند کروایا جا سکتا ہے۔
سیکورٹی ادارہ کسی معاملے میں کسی کو بھی جواب دہ نہیں ہے۔
ملک سے ریلوے کا نظام ختم ہو چکا ہے۔اس ملک کے ائیرپورٹس ویران پڑے ہیں بیرون ملک سے کوئی فلائیٹ ادھر نہیں آتی۔ ملکی ائیر لائن خسارے کے بوجھ تلے دب کر کئی سال پہلے ہی بند ہو چکی ہے۔
اس ملک کے پاسپورٹ ہولڈرز پر کئی ممالک نے اپنے ہاں داخلے کے دروازے بند کر رکھے ہیں ،کیونکہ اس ملک کے اکثر رہائشی پولیو،یرقان اور دوسری کئی جان لیوا بیماریوں کے وائرس لیے پھرتے ہیں۔
یہاں پر اسکول جانے والے بچوں کی تعداد بے حد کم ہو چکی ہے۔کیونکہ لوگ اپنے لیے روٹی بھی مشکل سے خرید پاتے ہیں،اس لیے مہنگے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
اسکولوں میں ترانہ حب الوطنی،اور غداروں کی مذمت ہر صبح کلاسوں سے پہلے لازمی قرار دے دی گئی ہے۔
تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے گنے چنے لوگوں کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہے،کیونکہ ہر کاروبار سکیورٹی ادارے اور اس کے منظور نظر افراد کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔ بیمار لوگ اپنا علاج اپنے پیسوں سے کرواتے ہیں۔غریب لوگ علاج کے بغیر ہی مر جاتے ہیں۔بہت سال پہلے سے ملک میں نئی گاڑیاں آنا بند ہو چکی ہیں۔ملک میں کوئی بھی گاڑی نہیں بنتی ۔لوگ اب حج کا مبارک سفر کرنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔

ان حالات میں انڈیا کشمیر میں رائے شماری کروانے کا فیصلہ کرتا ہے۔
آپ کے خیال میں کشمیری ایسی صورت حال میں کیا فیصلہ کریں گے ؟
اس سوال کا جواب نوشتہ دیوار ہے
کیا کوئی پڑھنے کی زحمت کرے گا ؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں