رویوں میں تبدیلی کی ضرورت /ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

دنیا تیزی سے تغیر و تبدل کے ڈھانچے میں ڈھل رہی ہے اور نتیجتاً  ہر اصلی شئے اپنا مقام کھو رہی ہے۔ہر سُو مصنوعی پن اپنا رنگ و اثر جما رہا ہے۔

 

 

 

 

 

عصر حاضر میں دولت کی ریل پیل نے انسانوں کو بے حسی کے ماحول میں پھینک دیا ہے۔انسانوں کے درمیان ایک عجیب طرح کا تصادم پیدا ہو گیا ہے۔
لوگ ظاہر و باطن میں ماحولیاتی آلودگی کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔دولت کے بت اور سخت دلی نے انسانوں کے درمیان ایک ایسی خلا کو جنم دیا ہے جہاں ہمارے رویےایک دوسرے کے لیے بوجھ بن چکے ہیں۔
دولت اگرچہ بُری شے نہیں ہے اس امر کے باوجود بھی اس نے سماجی فاصلوں میں اضافہ کیا ہے۔خاص طور پر سگے بہن بھائیوں کے درمیان بہت سی دراڑیں اور فاصلے پیدا کر دیے ہیں۔اسٹیٹس پرستی کے خمار نے الگ ماحول اور رشتے چننے پر مجبور کر دیا ہے۔

ہم کتنے کم ظرف ہیں کہ ہم نے ایک دوسرے سے اخلاقیات کا نوالہ چھین لیا ہے۔یوں کہہ لیجئے ہر انسان نے اپنا اخلاق و کردار اور مزاج بدل لیا ہےسوائے چند نیک سادھوؤں اور سادھنیوں کے۔باقی سب ماحول گورکھ دھندہ بن چکا ہے۔انسانوں کے درمیان دوریاں اور فاصلے بڑھ چکے ہیں۔ہمارا اخلاقی توازن بگڑ چکا ہے۔اخلاقی قدریں زوال پذیر ہو چکے ہیں۔

ہماری فطرت میں بگاڑ کی بے شمار وجوہات ہیں۔ماہرین الہیات کے مطابق گناہ کی تقریبا ً 200 سے زائد اقسام ہیں جن کا انسان کے ساتھ بالواسطہ اور بلاواسطہ پڑاؤ رہتا ہے۔جس کے باعث گناہوں کی کنکریاں اسے باہر نکلنے کا موقع فراہم نہیں کرتیں۔ ہماری گناہ آلودہ فطرت طبعی محبت سے خالی ہوتی جا رہی ہے اور نتیجتاً  فطرت میں بگاڑ پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ایسے حالات اور وقت میں ابلیس کو موقع مل جاتا ہے اور وہ فورا ری ایکشن کر کے انسان کی نفسیات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔

انسانوں کے درمیان ایک عجیب طرح کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔آج کے جدید اور فیشن پرست دور میں انسانی رویے دوسروں کے لیے ٹھوکر کا باعث بن چکے ہیں۔لوگوں نے اپنی طرز زندگی کو خود ساختہ اصولوں میں قید کر لیا ہے یہاں انسانیت ، اخلاقیات اور معاشرت ریزہ ریزہ ہو کر بکھرتی نظر آتی ہے۔ہمارے تعلقات و روابط بھی خود غرضی اور مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔اس لیے معاشرے میں روز بروز فتنوں ، ناچاکیوں ، نفرتوں ، کدورتوں اور مجبوریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔جس کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔اخلاقیات کے باب میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم پڑھے لکھے ہیں یا ان پڑھ۔ دراصل رویوں میں تبدیلی ہمارے نفسانی ، سماجی ، تہذیبی اور معاشرتی حقائق کے توازن کی تصویر آئینے میں ضرور دکھا دیتی ہے کہ ہم خوبصورت کردار کے مالک ہیں یا ہمارا دل داغ دھبوں سے بھرا ہوا ہے۔کیا کبھی ہم نے سوچا ہے؟ ہمارے دل پر کتنے داغ دھبے ہیں اور ہمارے دماغ میں حسد کا کیڑا کس حد تک نشوونما پا چکا ہے؟

اگر وقت پر جاگ کر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو ہمارے سماجی فاصلے اس حد تک بڑھ جائیں گے جہاں ہر کوئی اپنی راہ اختیار کر کے اپنی اصل منزل کھو دے گا۔وہ ایسے جہان میں نکل جائے گا جہاں تنہائی ، شرمندگی ، انا پرستی ، بزدلی ، حماقت ، بے چینی اور بے حسی جیسے عناصر زندگی کو قید و بند کی مزید صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کر دیں گے۔عموماً  ایسی چیزیں ہماری خوابیدہ صلاحیتوں ، قابلیتوں اور لیاقتوں کو تباہ و برباد کر دیتی ہیں۔انسان اپنے وجود کے ارد گرد گناہوں کی ایسی خود ساختہ سلاخیں بنا لیتا ہے، جہاں وہ پڑا پڑا زندگی کے دن پورے کرتا نظر آتا ہے۔
ایسی صورتحال میں انسان کا حقیقی ادراک چھن جاتا ہے۔وہ گمراہ اور برگشتہ ہو جاتا ہے۔

وہ بے چارہ ایسے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے جہاں بوجھ اور تنہائی اس کے کرب میں مسلسل اضافہ کر دیتے ہیں۔قدرت نے ہر انسان کو فطری آزادی کے تحت پیدا کیا ہےکہ وہ نیکی کو اپنائے یا بدی کے ساتھ سمجھوتہ کرے۔یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔اس میں کسی دوسرے کو دخل اندازی کی ضرورت نہیں۔کیونکہ ہم سب شخصی آزادی کے قائل ہیں اور ایسی آزادی جو ہمیں گناہ پر مجبور کرتی ہے۔

مگر فطرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اسے جس مقصد کے تحت پیدا کیا گیا ہے۔اس کے جسم و روح میں ان صفات کے پھول کھلنے چاہیے تاکہ دوسروں کے نتھنوں تک ان صفات کی خوشبو پہنچے۔تاکہ ہمارا طبعی رجحان انسان دوستی اور محبتوں کا امین بن کر اپنا جھنڈا لہرائے۔اگرچہ یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ ہر انسان مستقبل کے سہانے خواب ضرور دیکھتا ہے۔مگر افسوس ہے کہ وہ ان کی تکمیل میں خود ایسے کانٹے بچھا دیتا ہے جو اسے چلنے سے عاری بنا دیتے ہیں۔ زندگی میں قدم قدم پہ اسے کانٹوں کی چھبن اور زخمی ہونے کا احساس بڑھتا جاتا ہے۔اگران باتوں کے ساتھ ساتھ ایک ایسی حقیقت کا پس منظر بیان کیا جائے تو ہم سب کے لیے ایک فطری آگاہی کا دروازہ ضرور کھل جائے گا۔

ہم سب سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ قدرت نے انسان کو کس مقصد کے تحت پیدا کیا ہے۔مگر آج اس نے اپنی فطرت میں جس بہروپیہ پن کا خول چڑھا کر اپنی ذات کے ساتھ جو ظلم و ستم کیا ہے۔وہ اس کی خود غرضانہ سوچ اور حماقت کا نتیجہ ہے۔خیر اس بات پر سوچ بچار کیجئے کہ ہمارے جسم میں ایک غیر مری طاقت موجود ہے جو ہمیں حوصلہ ،جرات ،دلیری، بردباری زور، حکمت، طاقت، فہم، ادراک ،شعور ،یقین، اتحاد ، امید، ایمان اور محبت کی روح میں باندھ دیتی ہے۔ وہ قوت فیصلہ ہے جو ہمیں معاشرتی برائیوں کا مقابلہ کرنا سکھاتی ہے تاکہ ہم ان سب آزمائشوں اور برائیوں پر غالب آ سکیں ۔انسان کا ہر دن اسے مختلف حالات و واقعات کی تصویر دکھاتا ہے۔وہ ہجوم میں گر کر ایسے ناگفتہ بہ اور دل خراش واقعات کو دیکھتا اور سنتا ہے جو اس کے کانوں کے لیے ناقابل سماعت اور نا قابل برداشت ہوتے ہیں۔

اس امر کے باوجود بھی وہ وقتی طور پر سوچتا ہے اور پھر اپنے دل کو جھوٹا دلاسہ دے کر آگے نکل پڑتا ہے۔مگر افسوس! نہ تو ہمارے حالات ٹھیک ہوتے ہیں اور نہ ہماراوقت بدلتا ہے۔انسان بس زندگی بھر انتظار کرتا رہتا ہے کہ کب وقت اچھا آئے گا؟

اگر ہم اس حقیقت کا بے لاگ جائزہ لیں تو انسان بچپن سے لڑکپن تک اور لڑکپن سے جوانی تک اور جوانی سے بڑھاپے تک مختلف ادوار سے گزرتا ہے۔زندگی کے اس مختصر سفر میں اسے بہت سی کامیابیاں ، ناکامیاں ، شکوے ، شکایتیں ، تجربات ، مشاہدات ، واقعات اور ایسے تلخ اور ترش معاشرتی حقائق سے نمبرد آزما ہونے کا موقع ملتا ہے جہاں اسے زندگی کی کتاب پڑھنے اور لکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔اگر ہم ان تمام باتوں کو بلائے طاق رکھ کر زندگی کو قریب سے دیکھیں تو یہ مکاشفہ ہم سب پر اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ انسان خاک ہے اور پھر خاک میں لوٹ جائے گا۔قدرت کے اس کارخانے میں کوئی امیر ہے اور کوئی غریب ہے۔مگر یہ حقیقت ہے کہ سب نے خاک میں ملنا ہے۔

بلا شبہ ہماری معاشرتی زندگی پر بہت سی مثبت اور منفی باتیں اثر انداز ہوتی ہیں جو ہمیں گناہ کی دلدل اور حقیقی زندگی کے تصور سے آگاہی فراہم کرتی ہے۔
اگر آج کے اس ترقی یافتہ دور کی بات کی جائے تو بہت سے حقائق کا خلاصہ کھل جائے گا۔ ماضی حال اور مستقبل کہ قصے کہانیاں ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیں گے کہ ہماری اصل اوقات کیا ہے؟ ہمارے غیر فطری رویے ہماری کس منزل کی نشاندہی کرتے ہیں؟ کیا کبھی ہم نے ان باتوں کو دلجمی سے سوچا ہے کہ ہمارے غیر اخلاقی رویے دوسروں کو کس اذیت میں مبتلا کر سکتے ہیں؟ ان کو یہ ٹھوکر کیس شدت سے لگتی ہے اور وہ کتنے کوسوں میل دور جا گرتے ہیں؟

شاید یہ بات ہمارے وہم و گمان میں نہ ہو کیونکہ انسان اس وقت تک کسی کے درد کو محسوس نہیں کرتا جب تک وہ خود اس امتحان سے نہ گزرے۔
ظاہر ہے جب انسان کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو وہ دوسروں سے بدظن ہو جاتا ہے۔دو روحوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے۔

یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ ہر انسان کے خیالات ، تصورات ، باطنی و خارجی مشاہدات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔مگر جب کسی ایک شخص کو کسی دوسرے کے رویے سے ٹھیس پہنچتی ہے تو اس کے لیے وہ بات درد سر ضرور بن جاتی ہے۔

اگر آج ہم اپنی کمزوریوں، ناکامیوں ،خامیوں، کوتاہیوں کو راز کی طرح محفوظ رہنے دیں گے تو وہ ہمارے جسم و روح کو دیمک کی طرح چاٹ جائیں گے۔ہماری خوابیدہ صلاحیتیں تباہ و برباد ہو جائیں گی۔

ہماری اخلاقی صفات چھن جائیں گی۔ہمارے اخلاقی تقاضے زوال پذیر ہو جائیں گے۔ہم منفی سوچ کے مرتکب بن جائیں گے۔ہم برادرانہ الفت سے خالی ہو جائیں گے۔تنہائی ہمارے ماتھے کا جھومر بن جائے گی۔
شاید ہم اس بات کو نہیں جانتے کہ ہم ذہن کے بند پنجرے میں قید ہو جاتے ہیں۔جھوٹی انا ہمیں زندگی بھر مجرم بنا کر رکھ دیتی ہے۔
یاد رکھیں!
ہم جتنا زیادہ اپنے رویوں کی سلاخوں کو سخت کریں گے۔معاشرے میں اسی شدت سے تذبذب پیدا ہوگا اور معاشرہ ایک ایسی ڈگر پر چل پڑے گا جہاں روحانی، اصلاحی، معاشرتی ، سماجی اور تہذیبی زوال کا نقطہ شروع ہوتا ہے۔اگر ہم اپنی عادات و اطوار پر غور کریں تو ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے گا کہ ہم اپنے رویوں میں کتنے فیصد خود غرض ہیں؟ دراصل ہم ہر چیز کو ذاتی مفاد اور محدود مدت کے لیے سوچتے ہیں۔جس سے ہماری پست حالی ظاہر ہو جاتی ہے کہ ہم کتنے اعلی ظرف ہیں۔اب تک ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم معاشرتی، روحانی ،دینی اور اخلاقی طور پر مضبوط ہو چکے ہوتے۔مگر ہماری حالت زار آج بھی وہی ہے جو ہمیں ماضی کے تاریک جھروکوں میں جھانکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اگر ہم اتنے روحانی سوداگر ہوتے تو آج دنیا میں روحانیت، اخلاقیات اور انسانیت کا بول بالا ہوتا۔

ہم نے دریافتوں ، ایجادوں ، تسخیروں کی حدیں توڑ ڈالیں۔مثال کے طور پر چاند کو تسخیر کیا۔سورج کا فاصلہ ماپا، سائنسی علوم کو جانا، جدید مشینری بنائی ، نہ جانے روزانہ کتنی کہکشاؤں کا دیدار کرتے ہیں۔دن دن سے بات کرتا ہے اور رات رات سے جدا ہوتی ہے۔

ہم بڑی تیزی سے تبدیلی کی طرف گامزن ہیں۔ہمارے منشور میں دوسروں کے لیے تبدیلی اور خود لا تبدیل رہنے کی حماقت موجود ہے۔دراصل ہمارے اندر بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم دوسروں کو سکھانے کی رغبت رکھتے ہیں جبکہ خود عملی نمونہ دینے سے قاصر رہتے ہیں۔آج کے جدت پسند معاشرے میں ہر انسان دوسرے کو تبدیل کرنا چاہتا ہے جبکہ وہ خود لا تبدیل رہنا چاہتا ہے۔جب معاشرہ ایسی کیفیت سے دوچار ہوگا تو اس میں تبدیلی کیسے آئے گی؟
اس میں امن، محبت، خلوص پیار اور بھائی چارے کی فضا کیسے پیدا ہوگی ؟
ڈاکٹر رابرٹ ایچ شلر لکھتا ہے۔
” آپ جلد اپنے مسائل کو حل کیجئے ورنہ آپ کے مسائل آپ کو خود ختم کر دیں گے”

یہ بات بھی سچ ہے کہ انسان جب تک بدن کے وطن میں زندہ ہے اسے قدم بقدم مسائل بلکہ گھمبیر مسائل کا سامنا ہے۔لہذا ان مسائل پر قابو پانے کے لیے انسان کو مسائل کے آگے ڈٹ جانا چاہیے۔کیونکہ جب انسان ان مسائل پر قابو پا لیتا ہے تو اسے نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ روحانی طور پر بھی خوشی کا احساس ملتا ہے۔آئیں اپنی اپنی زندگی کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں کہ ہم روحانی طور پر کتنے کھوکھلے اور جسمانی طور پر کتنے ناکارہ ہیں؟

یہ سوال اپنی ذات سے ضرور کیجئے کہ ہمارا اخلاقی حسن کتنا پرکشش ہے یا سلوٹوں سے مزین؟

ہمارے اندر حقیقی خدمات کا کتنا جذبہ موجود ہے۔اگر ہم نے کوئی نیکی بھی کرنی ہے تو پہلے کئی مرتبہ سوچتے ہیں کہ اس میں میرا کتنا مفاد ہے؟ اور دوسری اہم بات کہ ہم مجرمانہ سوچ رکھتے ہیں کہ ہم نے اس شخص کو کیسے استعمال کرنا ہے؟

یہ ہماری سوچ کا رنگ ہے جو دور سے لوگوں کو نظر آجاتا ہے۔اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے ابھی تک پرانی انسانیت کو نہیں اتارا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ابھی تک جسمانی کاموں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
کاش ! ہمارا انداز فکر اور مثبت سوچ ایسے شعور سے پر نمکین ہو جہاں نیکی اور بھلائی کی بھاپ نکل کر ہماری نتھنوں کو سکون دے سکے۔تاکہ ہماری فطرت سے ان جراثیم کا خاتمہ ہو جائے جو ہمیں جسمانی اور روحانی طور پر بیمار کرتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں خوابوں، امیدوں اور توقعات کو حقیقی رنگ دینے کے لیے رویہ ایک بہترین ہل ہے جو سخت زمین کو نرم بنا دیتا ہے۔انسان کی زندگی سے تمام تر شکوک و شبہات ختم ہو جاتے ہیں۔اگر ہم ثابت قدم ہیں تو کامیابی ہمارا مقدر ہوگی۔اس کے برعکس اگر ہم کمزور ایمان ہیں تو شکست ہمارے مقدر کا حصہ بنے گی۔لہذا غالب آنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اخلاق، کردار ،رویے، مزاج اور خوش اخلاقی کے باعث بھٹکی روحوں کو خدا کی قربت کا احساس دلا سکتے ہیں۔یقینا جب کوئی بات ہمارے اذہان و قلوب پر اثر انداز ہوتی ہے تو دماغی خلیے متحرک ہو جاتے ہیں۔ہمارے خون کی رگوں میں تبدیلی کی لہر دوڑنا شروع ہو جاتی ہے۔یہ ایک ایسا کیمیائی فارمولا ہے جو تجربات اور مشاہدات کے وٹامنز بنا کر ہماری تہذیب کو تبدیل کر دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر ہم اپنی زندگی میں ایک ایک چیز کو اپناتے جائیں تو مختصر مدت میں بہت سے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔اپنے خوابوں، توقعات اور امیدوں کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔ اس سے بیشتر کے ہم دوسروں کہ منہ تکیں اپنے رویوں میں بغیر کسی تاخیر کے کانٹ چھانٹ کر لیں۔جب یہ قوت ہمارے اندر سرائیت کرے گی تو گلشن میں بہار خود ہی آ جائے گی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply